جب زندگی شروع ہو گی

آپ اندازہ کریں کہ جس شخص کے دل میں صرف اس ایک آیت پر پکا یقین ہو اس کی زندگی کس طرح گزرے گی؟ ایسا شخص مال کماتے وقت خدا کی اس نافرمانی کا خطرہ نہیں مول لے سکتا جس کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔ اس کے مال کا بہترین مصرف، اپنی ضروریات پوری کرکے، آخرت کی ابدی اور زیادہ بہتر زندگی کی آرائش و زیبائش ہوگی۔ وہ دنیا میں کسی بھی نعمت کے حصول کے لیے آخرت کو کبھی خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ وہ دنیا کے گھر سے پہلے آخرت کے گھر کی فکر کرے گا اور دنیا کی گاڑی سے پہلے آخرت کی سواری کی سوچے گا۔ اخلاق باختہ عورتوں کے عریاں اور نیم عریاں وجود پر نگاہ ڈالنے کی وقتی لذت کے لیے وہ ان حوروں سے محرومی گوارا نہیں کرے گا جن کا چاند چہرہ، حسنِدلکش اور ابدی شباب کبھی نہیں ڈھلے گا۔
استاد فرحان احمد اور جمشید کی یاد نے میرے اندر ایک گہری خاموشی پیدا کردی تھی۔ صالح کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ اس نے میری توجہ ایک دوسری طرف بٹانے کے لیے کہا:
”تم بھول گئے ہو کہ ہم اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے نکلے تھے۔ تم بیچ میں بیٹھ گئے۔ اب وہ خود تمھیں یاد کررہے ہیں۔“
”کیا ابو ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملے۔“، انور نے حیرت سے کہا۔
صالح وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا:
”ہر شخص جو میدان حشر میں کامیاب ہوکر آتا ہے وہ پہلے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا ہے۔ وہاں حضور اپنے ہاتھوں سے اسے جام کوثر عطا کرتے ہیں۔ اس کے گھر والوں کو بھی اس موقع پر وہیں بلوالیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ شور مچاتے اور مزہ کرتے ہوئے بقول تمھارے والد کے، اس ’جھیل ‘کے کنارے کسی جگہ آبیٹھے ہیں۔ مگر تمھارے والد کو میدان حشر گھومنے کا شوق تھا اس لیے حضور سے ملاقات سے قبل ہی انھیں ان کی درخواست پر دوبارہ میدان حشر میں بھیج دیا گیا۔ لیکن اب حضور نے انھیں خود ہی طلب کرلیا ہے۔“
”خیریت! اس طلبی کی کوئی خاص وجہ؟“، ناعمہ نے پوچھا تو صالح نے جواباً کہا:
”بات یہ ہے کہ امتوں کا حساب ہوتے ہوتے اب حضرت نوح کی قوم کا حساب کتاب شروع ہوا ہے۔ مگر ان کی قوم نے اس بات ہی سے انکار کردیا ہے کہ نوح نے ان تک خدا کا کوئی پیغام پہنچایا تھا۔“
”یہ کیا بات ہوئی؟ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان تک خدا کا پیغام نہیں پہنچا؟ ان کو تو دنیا ہی میں اس جرم میں غرق کردیا گیا تھا کہ انھوں نے حضرت نوح کے پیغام کو جھٹلایا تھا۔ اللہ کے اس فیصلے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت نوح نے ان تک خدا کا پیغام نہیں پہنچایا؟“، عارفہ نے حیرانی سے سوال کیا۔
لیلیٰ نے اس کی بات پر مزید اضافہ کیا:
”اور اگر وہ جھوٹ بولنے کے لیے ڈھٹائی پر اتر ہی آئے ہیں تو قرآن مجید میں بیان ہوا تھا کہ ایسے لوگوں کے منہ بند کرکے ان کے ہاتھ پاوں سے گواہی لی جائے گے۔ تو اب وہ یہ بات کیسے کہہ رہے ہیں؟“
صالح نے انہیں سمجھاتے ہوئے وضاحت کی:
”یہ بات کہنے والے لوگ حضرت نوح کی وہ قوم نہیں جن پر عذاب آیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوح کی اس قوم تک خدا کا پیغام اصل میں امت محمدیہ نے پہنچایا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے تمام اولین و آخرین شہدا کو بلایا جارہا ہے جنھوں نے پچھلی دنیا میں ان لوگوں پر حق کی گواہی دی تھی۔ آج یہ شہدا بتائیں گے کہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح ان لوگوں تک توحید کا وہ پیغام پہنچادیا تھا جو حضرت نوح کی وراثت تھا اور جو بعد کے ادوار میں ضائع ہوگیا تھا۔ مگر آخری رسول کی بعثت کے بعد تاقیامت اس پیغام کو محفوظ کردیا گیا اور امت مسلمہ نے توحید کی یہ امانت اولاد نوح تک پہنچادی تھی۔“
ناعمہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:
”تو پھر انھیں امت محمدیہ کے ساتھ کیوں نہیں پیش کیا گیا؟“
”وہ اسلام قبول کرلیتے تو ایسا ہی ہوتا، مگر انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور اپنے تحریف شدہ آبائی مذہب پر قائم رہے۔ آج ہر امت چونکہ اپنے رسول کے ساتھ پیش کی جارہی ہے تو ایسے سارے لوگ قوم نوح کے طور پر پیش کیے گئے ہیں کیوں کہ ان کے آبا و اجداد حضرت نوح پر ایمان لائے تھے۔“، میں نے جواب دیا اور پھر خلاص بحث کے طور پر کہا:
”اپنی قوم کے ابتدائی حصے کو پیغام الٰہی خود حضرت نوح نے پہنچایا اور آخری حصے کو مسلمانوں نے پہنچایا جو نوح سمیت تمام رسولوں کے پیغام توحید و آخرت کے امین تھے۔“
”چلو بھئی اب بلایا جارہا ہے۔“، صالح مجھ سے مخاطب ہوکر بولا۔
اس کے ساتھ ہی ہم دونوں اٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔
ہم ایک دفعہ پھر رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے۔ وہی نور، وہی جمال، وہی جلال۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں صدیوں سے حضور کو جانتا ہوں۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آپ کی محبت میرے دل میں بڑھتی جارہی ہے۔ میں اس وقت بھی حضور کی مجلس میں پچھلی نشست پر بیٹھا ٹکٹکی باندھے حضور کے چہرہ پرنور کو دیکھے جارہا تھا۔ حضور اس وقت تک اپنے قریب بیٹھے اصحاب سے کچھ گفتگو کررہے تھے، اسی اثنا میں ان کے قریب آکر ایک صاحب نے ان کے کان میں کچھ کہا۔
صالح نے جو میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا سرگوشی کے انداز میں مجھ سے کہا:
”یہ خادم رسول حضرت انس ہیں اور حضور کو تمھارے بارے میں بتارہے ہیں۔“
اس کے ساتھ ہی حضور نے نظر اٹھاکر مجھے دیکھا اور ایک دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ اس سے صالح کی بات کی تصدیق ہوگئی کہ حضرت انس نے میری ہی آمد سے حضور کو مطلع کیا تھا۔
احتساب اور فیصلوں کے عمل میں بعض عجیب و غریب اور ناقابل تصور باتیں سامنے آرہی تھیں۔ دنیا میں ہونے والی سازشوں، معروف لوگوں کے قتل، گھریلو، دفتری، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل، ان میں ملوث افراد، خفیہ ملاقاتوں کی روداد، بند کمروں کی سرگوشیاں، غرض ہر چیز آج کے دن کھل رہی تھی۔ عزت دار ذلیل بن رہے تھے، شرفا بدکار نکل رہے تھے، معصوم گناہ گار ثابت ہورہے تھے۔ لوگ زندگی بھر جس پروردگار کو بھول کر جیتے رہے، وہ ان کے ہر ہر لمحے کا گواہ تھا۔ کوئی لفظ نہ تھا جو ریکارڈ نہ ہوا ہو اور کوئی نیت اور خیال ایسا نہ تھا جو اس کے علم میں نہ آیا ہو۔ رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل نہ تھا جو کیا گیا اور اس کا اندراج ایک کتاب میں نہ کرلیا گیا ہو۔ اور آج کے دن یہ سب کچھ سب لوگوں کے سامنے اس طرح کھول دیا گیا تھا کہ ہر انسان گویا بالکل برہنہ کھڑا ہوا تھا۔
میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا اور دل میں لرز رہا تھا کہ اگر میری غلطیاں اور کوتاہیاں بھی آج سامنے آگئیں تو کیا ہوگا؟ کوئی اور سزا نہ ملے، انسان کو صرف بے پردہ ہی کردیا جائے، یہی آج کے دن کی سب سے بڑی سزا بن جائے گی۔ صالح نے غالباً میرے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔ وہ میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا:
”پروردگار عالم کی کریم ہستی آج اپنے نیک بندوں کو رسوا نہیں کرے گی۔
اگلی شخصیت جسے حساب کے لیے پیش کیا گیا اسے دیکھ کر میری اپنی حالت خراب ہوگئی۔ یہ کوئی اور نہیں میری بیٹی لیلیٰ کی سہیلی عاصمہ تھی۔ اس کی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ اسے بارگاہ احدیت میں پیش کیا گیا۔
پہلا سوال ہوا:
”پانچ وقت نماز پڑھی یا نہیں؟“
اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش کھڑی رہی۔ دوبارہ کہا گیا:
”کیا تو مفلوج تھی؟ کیا تو خدا کو نہیں مانتی تھی؟ کیا تو خود کو معبود سمجھتی تھی؟ کیا تیرے پاس ہمارے لیے وقت نہیں تھا؟ یا ہمارے سوا کوئی اور تھا جس نے تجھے دنیا بھر کی نعمتیں دی تھیں؟“
عاصمہ کو اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
اس کی جگہ فرشتے نے کہا:
”پروردگار! یہ کہتی تھی کہ خدا کو ہماری نماز کی ضرورت نہیں ہے۔“
”خوب! اس نے ٹھیک کہا تھا۔ مگر اب اس کو یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ نماز کی ضرورت ہمیں نہیں خود اس کو تھی۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ اس کے بغیر کوئی جنت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے۔“
اس کے بعد عاصمہ سے اگلے سوالات شروع ہوئے۔ زندگی کن کاموں میں گزاری؟ جوانی کیسے گزاری؟ مال کہاں سے کمایا کیسے خرچ کیا؟ علم کتنا حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ زکوۃ، انسانوں کی مدد، روزہ، حج۔ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات ایک کے بعد ایک کیے جاتے رہے۔ مگر ہر سوال اس کی ذلت اور رسوائی میں اضافہ کرتا گیا۔
آخرکار عاصمہ چیخیں مار کر رونے لگی۔ وہ کہنے لگی:
”پروردگار! میں آج کے دن سے غافل رہی۔ ساری زندگی جانوروں کی طرح گزاری۔ عمر بھر دولت، فیشن، دوستیوں، رشتوں اور مزوں میں مشغول رہی۔ تیری عظمت اور اس دن کی ملاقات کو بھولی رہی۔ میرے رب مجھے معاف کردے۔ بس ایک دفعہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے۔ پھر دیکھ میں ساری زندگی تیری بندگی کروں گی۔ کبھی نافرمانی نہیں کروں گی۔ بس مجھے ایک موقع اور دے دے۔“، یہ کہہ کر وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگی۔
”میں تمھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دوں تب بھی تم وہی کروگی۔ اگر تمھیں ایک موقع اور دے دوں تب بھی تمھارے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں نے اپنا پیغام تم تک پہنچادیا تھا۔ مگر تمھاری آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔ تم اندھی بنی رہی۔ اس لیے آج تم جہنم کے تاریک گڑھے میں پھینکی جاوگی۔ تمہارے لیے نہ کوئی معافی ہے اور نہ دوسرا موقع۔“
پھراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوچکا تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔