محسن انسانیت رحمت دو عالمﷺ

2017 ,نومبر 27



لاہور(عنبرین فاطمہ):انسانیت نے اس کرہِ خاک پر ہزاروں برس کا سفر طے کر لیا تھا اور ہنوز منزل تو کجا نشانِ منزل تک اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یوں کہیے کہ لاکھوں انبیاؑءکرام کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر انسان بارِِ دِگر مرتبہِ انسانیت سے کہیں بہت نیچے گر چکا تھا۔ جس کائنات کی ہر چیز اپنے خالق و مالک کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے اسی کائنات میں اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق، انسان، کی جبیں لطفِ سجدہ ریزی سے بیگانہ ہو چکی تھی۔ اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر لاکھوں جھوٹے خداوں کے چنگل میں پھنسے انسان کی حالت اس مسافر کی سی تھی جو کسی لق و دق صحرا میں سرگرداں بگولوں کو رہنما سمجھ بیٹھتا ہے اور بالاخر رزقِِ صحرا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی، جو اپنے بندوں کے ساتھ ستر ماو¿ں سے زیادہ محبت کرتا ہے، کو انسان کی اس بے بسی اور لاچاری پر رحم آیا اور اس نے دنیا میں اپنی بے پایاں رحمت کو ”رحمت اللعالمین“ کا نام دے کر وجودِ محمد کی صورت مبعوث فرما دیا۔ وجہِ تخلیقِ کائنات، سید البشر حضرت محمد مصطفیٰ تشریف لے آئے۔ انسانیت کو اس کے درد کا حتمی درماں میسر آگیا۔ خاتم النبین کی صورت وہ ہادیِ برحق تشریف لے آئے کہ جن کے اسوہِ حسنہ پر عمل پیرا ہونا ہی دو جہانوں میں فوز و فلاح کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔

محسنِ انسانیت رحمتِ دو عالم کے اسوہِ حسنہ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں کہ آپ نے اپنی امت کی رہنمائی کےلئے زندگی کے ہر شعبہ میں عمل کا وہ بھرپور نمونہ پیش کیا جو تاریکی کے ہر دور میں قلب و جان کو منور کرتا رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا ۔آ پ کی آمد سے پہلے انسانیت جاہلیت کے جن اندھیروں میں بھٹک رہی تھی ان کا بیان نا گفتہ بہ ہے ۔ابنِ آدم انسانیت سے نا آشنا ہو چکا تھا ۔بدی لہو میں سرایت کر چکی تھی اور انسان انسانیت کی سطح سے گر کر حیوانیت کی زندگی گزار رہا تھا ۔بدی کے کاموں کو بڑھا چڑھا کربیان کیا جاتا تھا اور انہیں باعثِ افتخارسمجھا جاتا تھا ۔ پاکیزہ عورتوں پر بہتان لگانے میں کوئی عار نہ تھی۔ یتیموں، مسکینوں، ناداروں اور بیواﺅں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔کمزوروں کو کسی قانون کا تحفظ حاصل نہ تھا ۔اللہ نے اپنے گمراہ بندوں کو اندھیروں سے نکالنے کےلئے آپ کو مبعوث فرمایا۔آپ نے اللہ کی مدد سے 23 برس کے مختصر عرصہ میں وہ انقلاب برپا کر دکھایا جس کی نظیر تاریخِ انسانی میں کہیں اور نہیں مل سکتی۔ یہ انقلاب ابد تک قائم و دائم رہے گا ۔اس انقلاب آفرین ساعت سے پہلے اس بات کا گماں بھی ممکن نہیں تھا کہ عیش و عشرت اور گمراہی جس معاشرے کی گھٹی میں داخل ہے اس کو اس فکری بے جہتی سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی مکی زندگی کا دور بےشمار ایسی آزمائشوں سے عبارت نظر آتا ہے جن پر پورا اترنے کےلئے آپ ہی کے استقلال کی ضرورت تھی ۔آپ نے کفر کی ان تمام مخالفتوں اور سازشوں کا صبر و رضا سے مقابلہ کیا اور اپنی شفقت و احسان سے ان کا جواب دیا ۔مکی زندگی کے بعد مدنی دور میں بھی کفار کا معاندانہ رویہ برابر جاری رہا لیکن فتحِ مکہ کے بعد آپ نے رحمت کے ابواب یوں وا فرمادیے کہ بد ترین مخالفوں کےلئے عفو در گذر کا سمندر امڈ آیا تو ان کے ہاں پناہ لینے والوں کےلئے بھی اعلانِ امان کر دیا گیا۔ احترام آدمیت کی یہ درخشاں مثال ہر دور میں انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے ۔غلاموںاور لونڈیوں کے ساتھ آپ کی شفقت بے پایاں تھی ۔آپ کسی محفل میںہوتے اور کوئی لونڈی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی کوئی مشکل گوش گزار کرنا چاہتی تو آپ جھٹ اٹھ کھڑے ہوتے اور ارشاد ہوتا کہ تمہاری بات سننے کےلئے تم جہاں کہو میں تمہارے ساتھ جا سکتا ہوں۔ بچوں کیساتھ آپ کی محبت کی کوئی حد نہ تھی۔ آپ انہیں سلام کرنے میں ہمیشہ پہل فرماتے اور سفر سے واپس آتے تو جو بچہ راستے میں ملتا اسے اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیتے ۔آپ اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند کرتے تھے۔ نعلین مبارک کی خود مرمت فرما لیتے تھے ۔لباسِ اطہر اگر پھٹ جاتا تو اپنے دستِ مبارک سے اس میں پیوند لگا لیتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ غزوات یا سفر کے موقع پر آپ بھی برابر شرکت فرماتے اگر کوئی اور کام نہ ہوتا تو جنگل سے لکڑیاں جمع کرنے کی ذمہ داری آپ خود اٹھا لیا کرتے تھے۔

آج اگر انسان زندگی کی اصلاح و فلاح کےلئے کوئی ابدی ضابطہِ حیات ہمارے سامنے موجود ہے تو یہ صرف رسول کی جہدِ مسلسل ہی کا میٹھا پھل ہے۔ آج اگر زندگی کا ایک بہترین اور احسن نمونہ ہماری نظر وں کے سامنے ہے تو یہ ہمارے رہبرِ کامل ہی کا پیش کردہ ہے ۔اللہ تعالی نے دونوں جہانوں کی بادشاہت آپ کو مرحمت فرمائی اور آپ نے اپنے لئے فقرو فاقہ کو منتخب فرمایا ۔لباسِ اطہر میں جا بجا پیوند لگے ہوتے تھے ۔بھوک کی شدت بڑھتی تو پیٹ پر پتھر باند لیتے ۔ایک دوہرا کھیس یا دو تہی،جسے آدھا بچھا لیتے اور آدھا اوڑھ لیتے، بھی میسر نہ ہوتا تو کھڑی چارپائی پر آرام فرما لیتے جس سے جسمِ مبارک پر بان کے نشانات بن جاتے۔آپ کے اسوہِ حسنہ کا ہر گوشہ انسانیت کےلئے روشنی کا وہ دائمی سرچشمہ ہے جس سے ہر عہد کا انسان رہنمائی حاصل کرتا رہے گا ۔آپ نے آدمیت کو جو عزو شرف بخشا اس کےلئے ابن آدم ابد الاباد تک اس محسن عظیم کا احسان مند رہے گا ۔

متعلقہ خبریں