حمید نظامی کی یادیں اور باتیں

حمید نظامی اپنی بساط اور استعداد کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک آزادی کے کارکن کے طور پر سرگرم رہے۔ طالب علم رہنما کے طور پر قائد کا پیغام آزادی جہاں تک ممکن تھا مسلمانوں تک پہنچایا۔ 23 مارچ کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے روز نوائے وقت کا اجرا ان کے نام منفرد اعزاز ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے لئے بانیان پاکستان کے قریب تر ہو کر جدوجہد کی۔ قیام پاکستان تک آزادی کے لئے امنگ ، جدوجہداور تڑپ نے ان پر قیام پاکستان کے مقاصد واضح کر دئیے تھے۔ قیام پاکستان کے جلد بعد قائداعظم دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے بعد آنے والی قیادت اہلیت، صلاحیت اور قابلیت میں قائد کے ہم پلہ نہیں تھی، اس لئے پاکستان کے حصول کے مقاصد پورے ہوتے دکھائی نہ دئیے۔ حمید نظامی جیسے لوگ جس طرح قیام پاکستان کے لئے جہدِ مسلسل میں مصروف رہے قیام پاکستان کے بعد وہ اس کے مقاصد کے حصول کی جدوجہد پر کاربند نظر آئے۔ اس کی خاطر ان کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ نوائے وقت بھی اس دوران کچھ عرصہ بند رہا۔حمید نظامی کے اثاثے میں نوائے وقت اور مجید نظامی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں نے آگے چل کر پاکستان کی سربلندی کے لئے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔
حمید نظامی کے دوست ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں۔”23 مارچ 1940ءکو پندرہ روزہ ”نوائے وقت“ جاری کیا چند دوستوں کی معیت میں یہ ننھا منا اخبار نکالا۔ اس کے کل اخراجات کوئی چالیس پچاس روپے ماہانہ تھے جو احباب اپنی جیب سے دیتے تھے اور ادارت کے فرائض حمید نظامی کے سپرد تھے۔ ابتدائی دور میں یہ اخبار سیاسی کم اور ادبی زیادہ تھا اسی دوران مسلمانوں نے ایک خبر رساں ادارہ اورئینٹ پریس آف انڈیا کے نام سے قائم کیا۔ میاں مشتاق احمد گورمانی سے خصوصی رابطہ تھا۔ انہی کے مشورے سے حمید نظامی اسکے دفتر لاہور کے مینجنگ ایڈیٹر بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ”نوائے وقت“ کو بھی ہفت روزہ کا روپ دے دیا اور اس کی تقطیع روزانہ اخبارات کے برابر ہو گئی اور ”نوائے وقت“ مسلم لیگ کا غیر سرکاری اور آزاد ترجمان بن گیا۔ اسی دوران پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ایک دفعہ پھر آئے۔ صدر بنے اور قائداعظم کے ساتھ رابطہ پیدا کیا اس کے بعد ایک آدھ مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاسوں میں دھڑلے دار تقریریں بھی کیں لیکن جب جولائی 1944ءمیں حامد محمود کی رفاقت میں ”نوائے وقت“ کو روزنامہ بنایا تو تقریریں چھوڑ دیں اور صرف صحافت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ”نوائے وقت“ بہت ہر دلعزیز اخبار تھا کیونکہ وہ ایسے وقت پر روزنامے کی حیثیت سے وجود میں آیا جب پنجاب کے باقی مسلمان جرائد پاکستان کی حمایت کے باوجود مسلم لیگ کی صوبائی قیادت کی مکمل حمایت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک آزاد مسلک اختیار کر رکھا تھا ”نوائے وقت“ واحد اخبار تھا جو مسلم لیگ کے آفیشل نقطہ نگاہ کی حرف بہ حرف تائید کرتا تھا۔ لیگ نے وزارتی مشن کی تجاویز قبول کر لیں تو ”نوائے وقت“ نے اس کی تائید میں آواز بلند کی۔ لیکن باقی مسلمان اخباروں نے اسے مطالبہ پاکستان کی نفی سے تعبیر کیا۔بعد ازاں نوائے وقت کا موقف درست ثابت ہوا 1946ءکے عام انتخابات آئے تو ”نوائے وقت“ نے بڑے دھڑلے کے ساتھ لیگی امیدواروں کے حق میں کام کیا اور وہ پنجاب کا سب سے بڑا عوام پسند مسلمان اخبار بن گیا اور یہ حقیقت ہے کہ ”ڈان“ اور ”نوائے وقت“ اس زمانے کے محبوب ترین روزنامے تھے۔ پاکستان بنا تو اشاعت کے اعتبار سے ”زمیندار“ سب سے بڑا اخبار تھا لیکن سیاسی اثر کے اعتبار سے ”نوائے وقت“ ایک بہت بڑی طاقت کہا جاتا تھا۔ 1949ءمیں ممدوٹ وزارت اپنی بدعنوانیوں کی بناءپر برطرف ہو گئی تو حمید نظامی نے محسوس کیا کہ کسی موثر اپوزیشن کی عدم موجودگی میں صحافت کا فریضہ ہے کہ وہ ایک اپوزیشن کی حیثیت سے حکمران طبقے کا کڑا احتساب کرے۔ اس میں حمید نظامی کو طرح طرح کے مصائب بھی جھیلنے پڑے۔ ان میں میاں ممتاز دولتانہ کے ساتھ کشمکش خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ ”نوائے وقت“ سے ایک ضمانت طلب ہوئی۔ ازروئے قانون اس کی رقم دس دن کے اندر اندر سرکاری خزانے میں جمع کرانی ضروری تھی کسی تکنیکی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا اور جب گیارہویں دن ضمانت کی رقم پیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ازروئے قانون ڈیکلریشن ساقط ہو چکا ہے۔ یہاں تک بات رہتی تو چنداں مضائقہ نہ تھا کیونکہ تازہ ڈیکلریشن داخل کیا جا سکتا تھا اور اس کی منظوری رسمی نوعیت کی حامل تھی لیکن وزارت نے ڈیکلریشن منظور کرنے میں تساہل سے کام لیا بلکہ یہ دھاندلی بھی کی کہ ایک صحافی مظفر احسانی کو اسی نام کا ڈیکلریشن دلا دیا۔ اب ایک طرف ”نوائے وقت“ کچھ دیر کی جبری بندش کے بعد ”جہاد“ کے نام سے نکلنے لگا اور دوسری طرف یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں مظفر احسانی ”نوائے وقت“ نہ جاری کر دیں ”جہاد“ جس پریس سے چھپتا تھا‘ اس پر حکومت نے دباڈالا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا اس پر ”نوائے وقت“ نے ایک مقامی روزنامے ”نوائے پاکستان“ کو اپنا لیا۔ آخر ”نوائے وقت“ اپنی اصل شکل میں نکلنے لگا لیکن اس رگڑے جھگڑے میں خاصا مالی ضیاع ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی ہوئی کیونکہ صحافت سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی مجلوں میں اس جھگڑے کا تذکرہ ہوتا رہا۔ حمید نظامی ان صحافیوں میں شامل تھے جو محض عوام کی ترجمان ہی نہیں‘ بلکہ رہنمائی کے بھی قائل تھے۔ سیاستدانوں نے اس پر کان نہ دھرے اور نتیجہ یہ ہوا کہ مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ مارشل لاءکے دور میں حمید نظامی کے سامنے دو راستے تھے۔ اول: مخالفت اور اس کے نتیجے میں بندش‘ دوم: اعتدال پسندانہ پالیسی اور جمہوریت کی بحالی پر زور۔
انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور صدر ایوب کے بیانات کے ان حصوں پر زور دینا شروع کیا جن میں جمہوریت کی بحالی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں حمید نظامی بہت گھٹن محسوس کرتے اور چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی رنگ میں جمہوریت کے حق میں کوئی تحریک چلے۔ یوں تو حمید نظامی مزاح نگار بھی تھے اور ان کا کالم سرراہے خاصا مقبول تھا لیکن وہ بنیادی طور پر اداریہ نگار تھے اور اس صنف میں انہوں نے بہت کمال پیدا کیا۔ ان سے پہلے کے اداریہ نگار طویل ادارئیے لکھتے تھے“۔
حمید نظامی نے وقتاً فوقتاً نجی ڈائری بھی تحریر کی۔ڈائری دو ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلا دور 2 مئی 1951ء سے 2 فروری1952ء تک ہے۔جس میں چیدہ چیدہ واقعات رقم کئے گئے۔ 2فروری 1952ءکی ڈائری کے اقتباس میں امریکہ کے نمائندوں کے ساتھ کراچی میں ایک معاہدے کا ذکر ہے ”اس معاہدے کی رو سے پاکستان کو ایک کروڑ ڈالر کی امداد ملے گی۔ خدا جانے ہمارے لیڈر غیرت سے اس قدر خالی کیوں ہیں۔ بھیک ہی مانگنی تھی تو یہ کیا بھیک مانگی۔ واشنگٹن کا یہ مشن ہے کہ ہندوستان کے لئے ایک ارب ڈالر مزید امداد کی جائے۔ ایک ارب ڈالر کے تفاوت کے باوجود ہماری حکومت کو یہ امداد قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔امریکی امداد آج بھی پاکستانی قوم کیلئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ایک کروڑ ڈالر کی پہلی امداد پر حمید نظامی کا یہ تبصرہ آج بھی چشم کشا ہے۔نجی ڈائری کا دوسرا دور 9مئی 1954ء سے یکم اگست 1959ء تک محیط ہے اس عرصے میں حمید نظامی نے 82 دنوں کے مشاہدات تحریر کئے۔ جب وہ انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کے تحت یورپی اور ایشیائی ملکوں میں گئے وہاں یورپ کی معاشرت کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا۔ ”نشان منزل“ میں حمید نظامی مرحوم کے چھ مضامین اور ایک خط شامل ہے جو انہوں نے 9جون 1950ءکو وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین کے نام لکھا اور نوائے وقت میں شائع ہوا۔ خط کا عنوان ”کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق“ خط کاایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
عزت مآب! آپ ہمارے محترم اور واجب الاحترام وزیر ہیں۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ہم غلطی پر ہیں اور آپ راستی پر تو روپے کی تھیلیاں دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں نہ تلوار کی نمائش کی ضرورت ہے۔ عقل و دانش کے بوروں‘ تحریک پاکستان کے پرانے دشمنوں‘ عیاروں‘ خود غرض خوشامدیوں اور صبح‘ شام اپنی پالیسی بدلنے والے ضمیر فروش اخبار نویسوں کی مدد سے آپ رائے عامہ کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتے۔