سیکرڈہارٹ کیتھڈرل (چرچ)،لاہور

2018 ,فروری 8



لاہور شہرمیں دو نمایاں اور بڑے کیتھڈرل ہیں۔ ان میں سے ایک سٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت کے سامنے واقع ہے اور دوسرا لارنس روڈ پر موجود ہے لارنس روڑ کے کیتھڈرل کو سیکرڈ ہارت آف جیسز کیتھڈرل کہتے ہیں اس گرجا گھر کا سنگ بنیاد گارڈ فری پلیمکنس نے 4اکتوبر 1903ءکو رکھا تھا۔ اس کی عمارت نومبر 1907میں مکمل ہوگئی اور یہاں ارچ بشپ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد 6نومبر 1956ءکو مقامی آبادی کی خاطر اس گرجا گھر میں پنجابی واعظ کا آغاز کر دیا گیا اس کے روح رواں پادری لڈون تھے اگلے برس یعنی 1957ءکو گرجا گھر کی گولڈن جوبلی دھوم دھام سے منائی گئی۔ 9اکتوبر 1973ءکو کراچی کے پادری ارمانڈو فرنیڈڈ کو یہاں بطور اسقفی نامزد کیا گیا۔


1975ءمیں ٹرتیڈاڈ لاہور کے بشپ اور 23اپریل 1994کو آرچ بشپ مقرر کئے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ پوپ جان پال دوم نے لاہور ڈایوسیز کو آرچ ڈیواسز کا درجہ بھی دے دیا تھا اس ڈیواسیز میں لاہور ڈویژن کے اضلاع قصور، شیخوپورہ، گوجرانولہ اور نارووال شامل ہیں یہ رومن کیتھولک فرقے کا بڑا چرچ ہے اور اس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔
لاہور ڈیواسیز کے تحت 236سکول، دو کالج اور بارہ ہاسٹلز کام کر رہے ہیں پیشہ وارانہ اور فنی تعلیم کے ادارے اس کے علاوہ ہیں۔ اس نے کمیونٹی ہال، گرجا گھر اور مقدس پہاڑیاں بھی بنوائی ہیں۔ ریڈیو ویر قیاس جو ایک بین الاقوامی کیتھولک ریڈیو ہے ڈیواسیز کے اشتراک سے لاہورمیں کام کر رہا ہے۔ ڈیواسیز نے لاہور میں ایک جدید سٹوڈیو بھی قائم کر رکھا ہے جہاں مذہبی گیت ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ ڈیواسیز سے مراد کسی بشپ یا آرچ بشپ کے زیر انتظام موجود مذہبی علاقہ ہوتا ہے۔


سیکرڈہارٹ کیتھڈرل گرجا گھر کا نقشہ انیورپ کے ایک ماہر انجینئر نے تیار کیا تھا اس ماہر فنکار کو بہترین فن تعمیر کا انعام ”پرائز آف روم“ بھی دیا گیا۔گرجا گھر کے بڑے مینار کی بلندی 165فٹ ہے جبکہ گنبد 120فٹ اونچا ہے یہ مخصوص انداز تعمیر گوتھک میں بنایا گیا ہے جو یورپ میں عرصہ  دراز تک رائج رہا اس طرز کو سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں زیادہ فروغ حاصل ہوا تھا۔
برصغیر میں انگریز عہد حکومت کے دوران جہاں گرجا گھر ”گوتھک“ انداز میں تعمیر کیے گئے وہیں شہر کی بعض دوسری عمارات بھی اسی طرز پربنائی گئیں۔ ان میں کراچی کا فرئیر ہال اور لاہور کا گورنمنٹ کالج نمایاں ہیں۔


چرچ کی کل لمبائی 200فٹ ہے جن میں سے 30سے 40فٹ کا حصہ عبادت گاہ کے طور پر مختص کیا گیا ہے چرچ کی چوڑائی 68فٹ ہے عیسائیوں کے مقدس بزرگوں جن میں ہربرٹ، آگسٹائن، مارگریٹ اور میری وغیرہ کے مجسمے بھی اسی چرچ میں موجود ہیں جبکہ چار دوسرے مجسمے سینٹ جوزف اور سینٹ انتھونی کے لیے مخصوص ہیں۔ 1955ءمیں سینٹ انتھونی کی یاد میں ایک عبادت گاہ بنائی گئی جس میں آٹھ شیشوں والی کھڑکیاں ہیں چرچ کا اندرونی حصہ بھی انتہائی دلفریب ہے جتنا قریب سے اس عمارت کو دیکھا جائے تو یہ تعمیرکی ایک نفیس اور عمدہ کڑی معلوم ہوتی ہے اس چرچ کا شمار ملک کے بڑے بڑے چرچوں میں ہوتا ہے 19نومبر 2001ءکو لاہور کا سیکرڈ ہارٹ کیتھڈرل اپنے 94 وی سال پورے کر چکا ہے۔
سیکرڈ ہارٹ کیتھڈرل میں لکڑی کا عمدہ اور نفیس کام کیا گیا ہے علاوہ ازیں جیومیٹری کی شکل کے بعض شاہکار بھی دیکھے جاسکتے ہیں دیواروں پر سنگ مر مر کی تختیاں نصب ہیں جن پر ماضی کے پادری صاحبان کے متعلق تحریریں درج ہیں یہیں ایسی تصاویر موجود ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کو مصلوب کرنے کی داستان بیان کرتی ہیںیہ چرچ لاہور کے خوبصورت ترین گرجا گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ کیتھڈرل ہارٹ کے بڑے بڑے گنبد رومن فن تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔
لاہور کیتھڈرل دی مال 


لاہور کا یہ سب سے بڑا اور خوبصورت گرجا گھر شاہرا قائد اعظم پر واقع ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ یہ سٹیٹ بینک کی لاہور شاخ کے عین سامنے واقع ہے شروع میںیہ ”ککڑ گرجا“ کے نام سے معروف تھا۔ اس کی وجہ اس کے مینار پر نصب مرغ بادنما تھا۔ اس لیے لوگ اسے اس نام سے موسوم کرنے لگے مگر 1911ءکے زلزلے میں یہ مرغ گرگیا اور لوگ اسے رفتہ رفتہ اس نام سے پکارنا بھولنے لگے آج شاید بہت کم لوگ اس نام سے واقف ہوں گے اب اسے لاہور کیتھڈرل کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔لاہور کیتھڈرل، الجلیکن فرقے کا بڑا گرجا گھر ہے یوں مال روڈ پر بھی دونوں بڑے عیسائی فرقوں کے نمایاں کیتھڈرل موجود ہیں۔ کیتھڈرل اس گرجا گھر کو کہتے ہیں جہاں بشپ یا آرچ بشپ خدمات سر انجام دیتے ہیں اور ان کی رہائش بھی اس کے احاطے میں ہوتی ہے۔
انجلکین چرچ میں آرچ بشپ سب سے بڑا مذہبی رہنما ہوتا ہے جبکہ رومن کیتھولک میں پوپ کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے اس کے بعد کارڈنیل اور پھر آرچ بشپ صاحبان ہوتے ہیں یوں مسیحی مذہبی دنیا اس طریقے سے اپنا نظام چلاتی ہے۔


لاہور کیتھڈرل کی نبیاد بشپ تھامس والپی فرنچ کے ہاتھوں مال روڈ کی تعمیر کے وقت ہی رکھ دی گئی تھی اور یہ 1887ءمیں مکمل ہوا اس کے لیے انگریز گورنر نے 50ہزار روپے کی امداد دی جبکہ پچاس ہزار پونڈ کے عطیات بھی جمع کیے گئے اس کا ڈیزائن آرنلڈسکارٹ کا بنا ہوا تھا جو اپنے زمانے کا نمایاں ماہر تعمیرات تھا اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نے چرچ کی تکمیل کا فریضہ سرانجام دیا۔
کیتھڈرل کی عمارت 225فٹ طویل اور 152فٹ چوڑی ہے اس کے مینار نما کمروں کی اونچائی 65فٹ ہے گرجا مال روڈ سے قدرے اونچا ہے۔یہ اندر سے بھی اتنا دلکش ہے جتنی اس کی عمارت باہر سے دیکھنے میں خوبصورت ہے اس میں ایک سنگ مر مر کا حصہ سکاوٹنگ تحریک کے بانی لارد بیڈن پاول کا عطیہ کردہ ہے گر جے پر گھنٹیاں 1904ءمیں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں لگائی گئی تھیں۔


چرچ کی عمارت قدیم برطانوی محلات کی یاد دلاتی ہے اس میں رنگ برنگے کھڑکیوں کے شیشے عجب بہار دکھا رہے ہیں جو برطانیہ کے پرانے گرجا گھر وں کی یارگار ہیں یہ کھڑکیاں انگلستان سے ہی بنوا کر لائی گئی تھیں۔ ایسی کھڑکیاں صرف انگریز عہد کے گرجا گھروں میں ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد تو گرجا گھروں کی تعمیر کا انداز بھی خاصا بدل چکا ہے ایسے میں اس قسم کی لکڑی کی کھڑکیاں تو اب بالکل ہی خواب ہوچکی ہیں۔ اس کیتھڈرل کے احاطے میں صلیب بھی دیکھی جاسکتی ہے جو انارکلی کے مقبرے پر اسی وقت لگائی گئی تھی جب اسے گرجا کی شکل دی گئی تھی۔ 1925ءمیں صلیب یہاں لا کر رکھ دی گئی۔ علاوہ ازیں یہیں پنجاب کے انگریز گورنر ڈونلڈ میکلوڈ کی یاد میں بنائی گئی سنگ مر مر کی یادگار بھی موجود ہے۔


یہ یادگار ایک صلیب کی شکل ہے کبھی یہ لوئر مال روڈ پر پنجاب سول سیکرٹریٹ کے قریب نصب ہوا کرتی تھی تاہم جب استعماری دور کے بت اور یادگاریں شہر سے ہٹالی گئیںتو یہ یادگار بھی اتار کر کیتھڈرل کے احاطے میںرکھ دی گئی یوں مال روڈ کیتھڈرل دو تاریخی یادگاروں کو بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔
اس گرجا گھر کی تعمیر کلکتہ کی ایک فرم میسر برن اینڈ کمپنی نے کی تھی۔ گرجے میں پتھر کا کام مذکورہ کمپنی نے بلامعاوضہ کیا تھا۔ یہاں ایک کتب خانہ بھی قائم کیا گیا تھا جس میں دینی کتب رکھی گئی ہیں یہ کتابیں پروٹسٹنٹ فرقے کے نقطہ نظر سے تحریر شدہ ہیں۔ گرجے کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ یہ گرمی کے شدید موسم میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔

متعلقہ خبریں