جب زندگی شروع ہو گی

2018 ,فروری 8



جنت کی اس بادشاہی میں آہستہ آہستہ میرے جاننے والے لوگ بھی آتے جارہے تھے۔ مختلف مجالس میں ان سے ملاقاتیں ہورہی تھیں۔ ان میں میری دعوت پر تبدیل ہوکر اعلیٰ ایمانی اور اخلاقی زندگی اختیار کرلینے والے لوگ بھی تھے اور خدا کے دین کی نصرت میں میرا ساتھ دینے والے میرے رفقا بھی۔ ان میں سے ہر شخص سے مل کر یوں لگتا تھا کہ زندگی میں خوشی اور محبت کا ایک در اور کھل گیا ہے۔ تاہم وہ ابھی تک نہیں آئی تھی جس کا مجھے انتظار تھا۔ گرچہ اس انتظار میں کوئی زحمت یا پریشانی نہیں تھی بلکہ مزہ ہی تھا۔ پھر ایک روز، گرچہ اس نئی دنیا میں شب و روز نہیں رہے تھے، صالح میرے پاس آکر کہنے لگا:
”سردار عبدا للہ! تمھارے لیے ایک بری خبری ہے۔“
مجھے حیرت ہوئی کہ اب جنت میں مجھے یہ کیا بری خبر سنائے گا۔ تاہم اس کا لہجہ ایساتھا کہ میں پوچھنے پر مجبور ہوگیا:
”کیوں بھائی! یہاں کیا خبر بری خبر ہوسکتی ہے؟“
”سردار عبدا للہ! بری خبر یہ ہے کہ تمھارے عیش کرنے کے دن ختم ہوگئے۔ تم نے ناعمہ کے پیچھے آزادی کے بہت دن دیکھ لیے۔ اب تمھاری نگرانی کے لیے ناعمہ خود آرہی ہے۔“
”کیا سچ؟“، میں نے شدت جذبات سے مغلوب ہوکر صالح کو گلے لگاتے ہوئے کہا:
”اور کیا میں جھوٹ بولوں گا؟“
پھر میرے سر کو سہلاتے ہوئے بولا:
”مجھے چھوڑدو۔ میں نے ناعمہ کے آنے کی خوش خبری دی ہے۔ مگر میں خود ناعمہ نہیں ہوں۔“
”تم ہو بھی نہیں سکتے۔“، میں نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا۔
”لیکن یہ بتاو¿ کہ اتنی اچھی خبر تم مجھے دھمکی کے انداز میں کیوں سنارہے ہو۔ ویسے تمھیں ناعمہ سے اگر یہی توقعات ہیں تو مجھے یقین ہے کہ تمھیں بہت مایوسی ہوگی۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ میں ناعمہ کے آنے پر اسے ایک بہترین تحفہ دینا چاہتا ہوں۔“
”کیا تحفہ دینا چاہتے ہو؟“
”ایک بہترین گھر۔“
”بھائی تمھارے پاس تمھارا گھر ہے اور اس کے پاس اس کا گھر ہوگا۔ اب اس نئی دنیا میں خاندانی نظام تو ہوگا نہیں کہ گھر دینا تمھاری ذمے داری ہو، نہ اسے تمھارے بچوں کو گھر بیٹھ کر پالنا ہے۔ پھر ایک نیاگھر کیوں بناتے ہو؟“
”مجھے معلوم ہے کہ ہر جنتی کی اپنی رہائش اور اپنی سلطنت ہوگی، لیکن میری خواہش ہے کہ اپنی پسند سے ناعمہ کے لیے ایک گھر بناوں جو میری سلطنت میں ہو۔ اور پھر اس گھر کا ناعمہ کو گفٹ کروں۔“
”جانتے نہیں اللہ تعالیٰ نے اسراف کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا ہے؟“، وہ اس وقت مجھے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔
”جنت میں شیطان نہیں آسکتا، مگر اس کے بعض شاگرد ضرور موجود ہیں جو میاں بیوی میں محبت پیدا کرنے کے بجائے دوری پیدا کرتے ہیں۔“، میں نے مصنوعی غصے کے ساتھ اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔“، وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا:
”مجھے بتاوکیا کرنا چاہتے ہو؟“
اس کے بعد میں نے اسے ساری تفصیلات سمجھائیں۔ میری بات ختم ہوئی تو وہ بولا:
”چلو محل دیکھنے چلو۔“
میں نے حیران ہوکر پوچھا:
”کیا مطلب؟ کیا محل بن گیا؟“
”تم کیا سمجھتے ہو تم دنیا میں کھڑے ہو کہ پہلے زمین خریدوگے، پھر نقشہ پاس کراو¿گے، پھر ٹھیکیدار ڈھونڈو گے اور پھر کئی ماہ میں محل تعمیر ہوگا۔ سردار عبد اللہ! یہ تمھاری بادشاہی ہے۔ خدا کی قوت تمھارے ساتھ ہے۔ تم نے کہا اور سب ہوگیا۔ یہی یہاں کا قانون ہے۔“ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم وسیع و عریض سمندر کے سینے پر سفر کررہے تھے۔ صالح اور میں سمندری جہاز جیسی کسی چیز میں سوار تھے۔ سفر کا یہ طریقہ صالح کے کہنے پر ہی اختیار کیا گیا تھا۔ بقول اس کے جنت میں جتنا خوشگوار منزل پرپہنچنا ہوتا ہے اتنا ہی مزیدار وہاں تک پہنچنے کا راستہ ہوتا ہے۔ اس کی بات ٹھیک تھی۔ مجھے دنیا کی زندگی میں سمندری سفر کبھی پسند نہیں آیا تھا۔ مگر اس سفر کی بات ہی کچھ اور تھی۔ یہ جہاز ایک تیرتا ہوا محل تھا جس کے عرشے پر ہم دونوں کھڑے تھے۔ دھیمی ہوا اور خوشگوار موسم میں آگے بڑھتے ہوئے ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ رہے تھے۔
ہماری منزل وہ پہاڑی جزیرہ تھا جسے ایک محل کی شکل میں ناعمہ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ محل بالکل ویسا ہی تھا جیسا میں صالح کو بتارہا تھا۔ بیچ سمندر میں ایک بہت بڑا جزیرہ، جہاں سرسبز پہاڑ، دریا، ندیاں، آبشاریں، سمندر کے ساتھ چلنے والے پہاڑی راستے، گھاس کے بڑے میدان اور ان سب کے درمیان ایک گھر۔ جس کا فرش شفاف ہیرے کا بنا ہوا۔ ایسا فرش جو ہیرے کی طرح چمکدار اور شیشے کی طرح شفاف ہو، اتنا شفاف کہ اس کے نیچے بنے حوضوں میں بہتا پانی اور ان میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں صاف نظر آئیں۔ جس کی دیواریں شفاف چاندی کی بنی ہوں جن سے باہر کا ہر منظر نظر آئے اور جس کی بلند و بالا چھت سونے کی ہو اور چھت پر موتی، جواہرات اور قیمتی پتھر جڑے ہوں۔ یہ محل کئی منزل بلند ہو۔ اتنا بلند کہ اردگرد کے پہاڑوں سے بھی بلند ہوجائے۔ جس کی ہر منزل سے فطرت اور اس کی صناعی کا ایک نیا زاویہ نظر آئے۔
یہاں آکر جو کچھ میں نے سامنے دیکھا وہ میرے بیان اور اندازے سے بھی زیادہ حسین تھا۔ اس کا سبب شاید یہ تھا کہ میرے الفاظ ان نعمتوں کو بیان کرنے کے لیے بہت کم تھے جو مجھے حاصل تھیں۔ میں نے تو ایک عمومی نقشہ یا خیال بیان کیا تھا، مگر اس نقشہ میں ڈیزائن، رنگ و روپ، روشنی و آرائش اور دیگر مواد کی جورنگ آمیزی ہوئی تھی وہ میرے بیان اور تصورات دونوں سے کہیں زیادہ تھی۔ صالح نے میری بات کو اصول میں سمجھا اور اس کے بعد وہ محل بنوادیا جو حسن تعمیر کا ایک ایسا شاہکار تھا جو تصور سے زیادہ دلفریب تھا۔ یہ محل اتنا بڑا تھا کہ اسے پورا دیکھنے کے لیے بھی بہت وقت درکار تھا۔ میں نے صالح سے کہا:
”میرا اطمینان ہوگیا۔ ایسا ہے کہ ابھی چلتے ہیں۔ ناعمہ آئے گی تو اس کے ساتھ۔۔۔ “
میرا جملہ یہیں تک پہنچا تھا کہ موسیقی اور نغمگی سے بھرپور ایک آواز آئی:
”مگر میں تو یہاں آچکی ہوں۔“
میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ ناعمہ تھی اور ناعمہ نہیں بھی تھی۔ حشر کے دن میں نے ناعمہ کو نوجوان اور بہت خوبصورت دیکھا تھا۔ مگر یہاں میرے سامنے جو لڑکی کھڑی تھی اس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے حسن، خوبصورتی، نوجوانی، شباب، روپ، کشش جیسے الفاظ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ میں ابھی اسی کیفیت میں تھا کہ صالح کی آواز آئی:
”آپ سے ملیے۔ آپ سردار عبد اللہ! ہیں۔ یہ ناعمہ ہیں۔ اور یہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔“
”تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ ناعمہ پہلے سے یہاں ہوگی۔“، میں نے قدرے ناراضی کے ساتھ صالح کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ناعمہ صالح کی صفائی پیش کرتے ہوئے بولی:
”انھیں میں نے منع کیا تھا۔ میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔“
”یہ بھی آپ کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ دیکھا آپ نے، آپ کے لیے کتنا غیر معمولی گھر بنوایا ہے انہوں نے۔“
”ہاں میں نے دیکھ لیا۔ مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آتا۔“
”اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا۔“، میں نے ناعمہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر صالح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”آپ کی بیگم تو ہیں نہیں۔ آپ رخصت ہونے کا کیا لیں گے؟“
اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا:
”میں دنیا میں بھی ہمیشہ تمھارے ساتھ رہا تھا۔ ابھی بھی چاہتا ہوں کہ ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں۔“
”مگر بھائی اس وقت آپ نظر نہیں آیا کرتے تھے۔“
وہ شرارتی انداز میں بولا:
”یہ اب بھی ممکن ہے کہ میں غائب رہ کر یہاں موجود رہوں۔“
یہ کہتے ہی وہ ہماری نظروں سے غائب ہوگیا اور پھر اس کی آواز آئی:
”ایسے ٹھیک ہے؟“
”نہیں بھئی نہیں۔ ایسے نہیں چلے گا۔“، ناعمہ ایک دم بولی۔
صالح دوبارہ ظاہر ہوگیا۔ ناعمہ نے اسے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور بولی:
”آپ وعدہ کریں کہ جب بھی آئیں گے انسانوں کی طرح سامنے آئیں گے اور جائیں گے تو انسانوں کی طرح جائیں گے۔“
”اچھا بھئی اچھا! “، اس نے سر ہلاکر جواب دیا، مگر اس کی آنکھوں میں بدستور شرارت چمک رہی تھی۔ وہ بڑی معصومیت سے بولا:
”مسئلہ یہ ہے کہ میں انسان تو ہوں نہیں۔ پھر انسانوں والے ضابطے مجھ پر کیسے اپلائی ہوسکتے ہیں؟“
”سوچ لو! میری پہنچ تمھارے سردار تک ہے۔ میری ایک شکایت پر وہ تمھیں واقعی انسان بناسکتے ہیں۔“، میں نے مسکراکر کہا تو وہ لہجے میں اداسی لاتے ہوئے بولا:
”یار دھمکیاں کیوں دیتے ہو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آوں گا اور جاو¿ں گا تو اجازت لے لیا کروں گا۔ اور اگر تم کہو تو میں ابھی چلا جاتا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ پیٹھ پھیر کر مڑا، دو چار قدم چلا پھر گھوم کر ناعمہ سے بولا:
”گرچہ میرے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ تم دونوں کے بچے یہاں آچکے ہیں اور ان کا فیصلہ ہے کہ ہم اپنی ماں کی شادی خود کریں گے۔ اس کے بعد ہی تم عبد اللہ کے گھر آسکتی ہو۔“
”صالح نے بالکل صحیح کہا۔“، لیلیٰ اندر آتے ہوئے زور سے بولی۔ اور تیر کی طرح بھاگ کر میرے پاس آگئی۔ اس کے پیچھے ہی انور، جمشید، عالیہ اور عارفہ بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر میری خوشی کئی گنا بڑھ گئی۔ میں نے سب کو اپنے گلے لگا کر پیار کیا۔ملنے ملانے سے فارغ ہوئے تو ناعمہ نے قدرے غصے کے ساتھ ان سے کہا:
”یہ کیا بچپنے والی بات تم لوگ کررہے ہو کہ ہماری دوبارہ شادی ہوگی؟“
عالیہ نے کہا:
”امی پچھلی دنیا میں ہم میں سے کوئی بھی آپ کی شادی میں موجود نہیں تھا۔ اس لیے ہم سب بہن بھائیوں کی متفقہ رائے ہے کہ ہم آپ لوگوں کی شادی بڑے دھوم دھام سے کریں گے۔ ہم آپ کو خود دلہن بناکر رخصت کریں گے اور اس وقت تک آپ کا ابو سے پردہ ہوگا۔“
انور نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:
”پردے والی بات تو بڑی سخت ہے۔ بس اتنی شرط لگادو کہ تنہائی میں نہیں ملیں گے۔“
”اس مہربانی کا بہت شکریہ۔ یہ بتادو کہ شادی کب ہوگی۔“، میں نے بے بسی سے پوچھا۔
”جب تیاریاں ہوجائیں گی۔“، عارفہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”اور کیا تیاریاں ہوں گی۔“، میں نے دریافت کیا۔
”میں بتاتی ہوں۔“، لیلیٰ بولی۔
”جگہ تو یہی ٹھیک ہے۔ بس کپڑے، زیورات وغیرہ کا انتظام کرنا ہے۔“
”اور مجھے بھی اپنے ذرا اچھے کپڑے بنوانے ہیں۔۔۔ ابو جیسے۔ مجھے تو ابو کے کپڑے دیکھنے کے بعد اپنے کپڑے اچھے ہی نہیں لگ رہے۔“، جمشید نے بھی مطالبات میں اپنا حصہ ڈالا۔
”اچھا یہ سب تیاریاں ہوگئیں تو شادی ہوجائے گی؟“، میں نے پوچھا۔
”کیوں نہیں۔“، سب نے مل کر کہا۔
”چلو پھر ابھی ہی چلو۔ میں تمھیں جنت کے سب سے بڑے شاپنگ کے علاقے میں لے چلتا ہوں۔ ویسے تو تم لوگ وہاں گھس بھی نہیں سکتے، لیکن میری طرف سے جو دل چاہے آج شاپنگ کرلو۔“
اس پر سارے بچوں نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا۔ پھر ہم شاپنگ کے لیے روانہ ہوگئے۔

(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

متعلقہ خبریں