ڈرنگ سٹیڈیم ،بہاولپور

2018 ,اپریل 9



بہاول پور، کا ڈرنگ سٹیڈیم ایک منفرد قسم کا سٹیڈیم ہے جہاں ہاکی، فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال، اسکوائش، ٹینس، ٹیبل ٹینس، بلیئرڈ وغیرہ کے علاوہ سوئمنگ، باڈی بلڈنگ اور اتھیلٹیکس کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔ سٹیڈیم میں تین تین ہاکی اور فٹ بال گراونڈز دو دو اسکوائش، ٹینس کورٹس، سوئمنگ پول اور دیسی کشتی کا اکھاڑہ بھی ہے جس کے گرد ہزاروں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
ہاکی اور نیٹ بال کے ٹورنامنٹ کے لیے چار دیواری والا گراونڈ بھی بنایا گیا ہے جس کے گرد سیڑھیوں پر آٹھ دس ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اس میں ایک پویلیئن بھی بنایا گیا ہے۔
ڈرنگ سٹیڈیم، ریاست بہاولپور کے وزیر بلدیات مخدوم زادہ حسن محمود کا منصوبہ تھا جو خود بھی اول درجے کے کرکٹر تھے اور بعد میں ریاست کے وزیر اعظم بھی بنے سٹیڈیم کا سنگ بنیاد 1951ءمیں اس وقت کے ریاست کے وزیر اعظم کرنل اے جے ڈرنگ نے رکھا۔ سٹیڈیم بن جانے کے بعد مخدوم زادہ حسن محمود نے کھیلوں کی ترقی کے لیے سپورٹس ڈائریکیوریٹ بھی قائم کیا اس میں پہلے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید محمد حسین بنائے گئے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے بہاولپور میں آباد ہوئے تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کی اس ہاکی ٹیم میں شامل تھے جس نے 1936ءکے برلن اولمپکس میں سونے کا تحفہ جیتا تھا انہوں نے کرکٹ اور فٹ بال میں بھی انڈیا کی نمائندگی کی تھی۔


امیر بہاولپور کے محلات کے نگران جنرل مارڈن نے باغبانی کے ایک ماہر بنارس خان کو محلات کے لیے پشاور سے بلایا تھا مخدوم زادہ نے بنارس خان کی خدمات سٹیڈیم کے لیے مستعار لے کر انہیں ہیڈ مالی بنا دیا۔ انہوں نے کھیلوں کے میدان کو ہموار کرکے گھاس لگائی کرکٹ گروانڈ میں بین الاقوامی معیار کی پچیں بنائیں۔ نیٹ پریکٹس کے لیے علیحدہ گراونڈ بنایا گراونڈ کے اردگرد کیاریاں بنا کر ان میں رنگ برنگے پھول لگا کر اس طرح سجایا کہ دور دراز سے لوگ صرف اس سٹیڈیم کو دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ مخدوم زادہ نے بیرونی ممالک سے مختلف قسم کے درخت اور پودے لگا کر سٹیڈیم میں لگوائے۔ سوئمنگ پول کے ساتھ ایک گھنٹہ گھر بھی تعمیر کیا گیا جو پورے سٹیڈیم سے نظر آتا ہے اس کے گھنٹے کی آواز آدھے شہر میں سنائی دیتی ہے کرکٹ گراو¿نڈ کے اطراف میں سیڑھیاں بنائی گئیں اور ان کے اوپر دھوپ سے بچنے کے لیے شیڈز بنائے گئے مغربی سمت دیدہ زیب پوئلین تعمیر کیا گیا جس میں ڈریسنگ رومز اور دیگر تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس گراونڈ پر 1952ءمیں ایم سی سی نے بہاول پور کی ٹیم کے ساتھ تین روزہ میچ کھیلا سب سے پہلے ٹیسٹ کھیلنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیم بھارت کی تھی جو 1955میں آئی اس نے پہلا ٹیسٹ ڈھاکہ میں کھیلا اور دوسرا ٹیسٹ 15سے 18جنوری ڈرنگ سٹیڈیم بہاولپور میں ہوا اس طرح موجود ہ پاکستان میں پہلا ٹیسٹ سنٹر ڈرنگ سٹیڈیم بہاول پور تھا یہیں حنیف محمد نے اپنی پہلی سینچری بنائی۔حنیف محمد نے ورلڈ ریکارڈ 499رنز بھی اس گراونڈ پر سکور کیئے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی یہاں تین روزہ میچ کھیل چکی ہے یہاں ٹرافی ٹورنامنٹ کے میچ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ چار دیواری والے گراونڈ پر ہاکی اور فٹبال کے کئی آل پاکستان ٹورنامنٹس اور بین الاقوامی میچ کھیلے جاچکے ہیں۔ سب سے پہلے مخدوم زادہ کے زمانے میں آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ ہوا۔ اس کے بعد 1954ءمیں پاکستان او رمغربی جرمنی ہاکی ٹیسٹ میچ ہوا جو پاکستان نے 3کے مقابلے میں 6گول سے جیتا یہاں نیوزی لینڈ، مغربی جرمنی، آسٹریلیا، ہالینڈ، جاپان، قازقستان، پولینڈ اور کینیڈا کی ٹیمیں میچ کھیل چکی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی جونیئر ٹیموں کا ”ٹیسٹ میچ“ بھی یہاں ہوا۔
آغا خان گولڈ کپ ٹورنامنٹ دو مرتبہ یہاں ہوچکا ہے۔ افغان کلب یہاں دس سال آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ کراتی رہی۔ فٹ بال کے دو بین الاقوامی میچ بھارت اور ایران کی ٹیموں کے خلاف اسی گراونڈ میں کھیلے جاچکے ہیں۔


اس سٹیڈیم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1979ءمیں ٹور ڈی پاکستان سائیکل ریس کا افتتاح یہیں سے ہوا۔ بہاول پور نے ہاکی کے کئی قومی کھلاڑی پیدا کیئے ہیں جنہوں نے اس سٹیڈیم میں کھیل کر مہارت حاصل کی۔ اس سٹیڈیم میں کھلاڑیوں کی ضرورت کا ہر سامان موجود ہے صرف ہوسٹل کی کمی ہے۔
بہاول پور کے شہریوں کی یہ خواہش ہے کہ اس سٹیڈیم کا نام تبدیل کرکے کسی قومی شخصیت، کسی عظیم کھلاڑی کے نام پر یا محض بہاولپور سٹیڈیم رکھ دیا جائے۔“
روزنامہ ”جنگ“ لاہور

( سپورٹس ایڈیشن)
تحریر: شبیرثمن

متعلقہ خبریں