موہٹہ پیلس، کراچی

2018 ,اپریل 30



موہٹہ پلیس، حاتم علی علوی روڈ اور موتی لال گوردھن روڈ کے مقام اتصال پر واقع ہے اس عمارت کا مجموعی رقبہ 12ہزار مربع گز کے لگ بھگ ہے۔ موہٹہ پیلس ایک دیدہ زیب عمارت ہے ستر برس کی دھوپ چھاو¿ں اور ایک مدت تک سر بمہرا رہنے کے باوجود عمارت کے اصل حسن پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
موہٹہ پیلس، بنیادی طور پر الشلیر گزری اسٹون

(Ashlar Gizri Stone)

سے تعمیر کیا گیا ہے تاہم جے پور کے سنگ سرخ کے جا بجا استعمال کی وجہ سے یہی تاثر ملتا ہے یہ عمارت سرخ رنگ کے پتھر سے تعمیر کی گئی ہے۔ جے پور کے سنگ سرخ کا استعمال عمارت کے چھجوں، ستونوں، بالکونیوں اور دوسرے آرائشی مقامات پر بڑا نمایاں نظر آتا ہے عمارت کو آرسی سی طریقہ تعمیر سے تعمیر کیا گیا ہے۔
موہٹہ پیلس کی عمارت اگرچہ ایک ہندو خاندان کی ملکیت تھی لیکن اس میں سندھ میں مکلی کے مقام پر موجود سمہ خاندان کے مقابر کے نقش و نگار، محرابیں اور گنبد جا بجا موجود ہیں۔
موہٹہ پیلس کی عمارت ایک مختصر تہہ خانے اور تین منزلوں پر مشتمل ہے پہلی اور دوسری منازل پر رہائشی کمرے میں جبکہ تیسری منزل پر ایک خوبصورت برساتی اور کارنر پویلین موجود ہیں۔ عمارت کو ایک اونچے پلیٹ فارم پر تعمیر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے عمارت کی بلندی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں عمارت کے نیچے ایک سرنگ بھی ہوا کرتی تھی جو اسے ساحل سمندر پر واقع مندر سے ملاتی تھی مگر اب آس پاس بے شمار عمارتیں تعمیر ہو جانے کے باعث یہ سرنگ بالکل بند ہوچکی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جب کراچی کو ملک کا پہلا دارالخلافہ قرار دیا گیا تو وزارت خارجہ کا دفتر بھی موہٹہ پیلس ہی میں قائم کیا گیا۔
اس پیلس کے بالائی منزل پر قائد اعظم او رمادر ملت سے تعلق رکھنے والی اشیاءبدستور سر بمہر تھیں لیکن 1970ءمیں مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے محترمہ شریں بائی کو محترمہ فاطمہ جناح کی تمام املاک کا وارث قرار دے دیا گیا او ریوں قصر فاطمہ مکمل طورپر محترمہ شریں بائی کے تصرف میں آگیا۔
محترمہ شریں بائی نے قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے استعمال میں آنے والی تمام اشیاءکی مفصل فہرست تیار کروائی اور ان میں سے پیشتر محکمہ ءآثار قدیمہ کے حوالے کر دی۔ 1980 ءمیں محکمہ آثار قدیمہ نے ان اشیاءکا ایک کیٹلاگ شائع کیا جس کا نام

(Relies of Quaid)

تھا۔
2دسمبر 1980ءکو محترمہ شریں بائی کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد قصر فاطمہ ایک بار پھر سر بمہر کر دیا گیا اور ان کے وارثوں کے درمیان ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوگیا۔
18نومبر 1982ءکو حکومت پاکستان کے حکم کے مطابق قصر فاطمہ کے دروازے کھولے گئے۔ اس مرتبہ محکمہ ءآثار قدیمہ، محکمہ آر کائیوز اور کراچی کی انتظامیہ کے نمائندوں نے عمارت کا تفصیلی جائزہ لیا اور محکمہ آثار قدیمہ کے جناب ایم اے حیلم نے قائد اعظم اور مادر ملت سے تعلق رکھنے والی اشیاءکی ایک مفصل رپورٹ تیار کی جسے

Relies of the Quaid -e- Azam Housed in Qasrr-e-Fatima

کا نام دیا گیا۔ اس رپورٹ میں ان تمام نوادرات کی تصاویر بھی شامل تھیں۔پلاٹ کی تیاری کے بعد عمارت کو ایک مرتبہ پھر سر بمہر کر دیا گیا۔
1994ءمیں ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے شیریں جناح چیری ٹیبل ٹرسٹ کو قصر فاطمہ کا قانونی وارث قرار دیا اور حکومت سے کہا کہ وہ عمارت کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے خود خریدے۔ سندھ ہائی کورٹ نے عمارت کی قیمت 6کروڑ 11لاکھ 88ہزار روپے متعین کی۔ حکومت نے یہ رقم شریں جناح چیری ٹیبل ٹرسٹ کو ادا کر دی اور یوں وہ اس عمارت کی مالک بن گئیں۔
اگست 1994ءمیں ایک طویل عرصہ کے بعد عمارت کے دروازے ایک مرتبہ پھر کھولے گئے مگر اب یہ عمارت بہت ہی خستہ حال ہوچکی تھی حکومت نے ایک کروڑ روپے سے عمارت کی از سر نو آرائش اور زبیائش کا فیصلہ کیا اور یہ کام داود کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی کے آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کر دیا۔ 
یہ 1920ءکا واقعہ ہے جب ایک صاحب ثروت کروڑ پتی ہندو شیورتن موہاٹا نے موہاٹا پیلس 
 تعمیر کرایا یہ ایک ایسی جگہ پر اس زوائیے سے تعمیر کیا گیا تھا کہ اس سے بحیرہ عرب کا مسحور کن نظارہ ہوتا تھا آپ نے وہ کہاوت ضرور سنی ہوگی کہ کچھ عمارتیں اور کچھ گھر ایسے ہوتے ہیں جو انتہائی شوق سے تعمیر کیے جاتے ہیں مگر وہ بنانے والے کے نصیب میں نہیں ہوتے کچھ ایسا ہی معاملہ موھاٹا پیلس کے ساتھ ہوا۔ شیورشن موھاٹا نے انتہائی ذوق و شوق سے اس محل کو تعمیر کروایا جو اس وقت بھی آج کی طرح کراچی کی محبوب ترین اور خوبصورت عمارتوں میں سے ایک تھا مگر شیورتن کو زیادہ عرصہ اس محل میں رہنا نصیب نہ ہواکیونکہ محض دو دہائیوں کے بعد برصغیر میں تقسیم کی لہر اٹھی اور رشیورتن کو مجبوراً یہ محل چھوڑنا پڑا۔ نہ صرف شیورتن بلکہ تقسیم کے کافی سال بعد جب کلیم کے عوض اسے محترمہ فاطمہ جناح کو دے دیا گیا تو بذات خود فاطمہ جناح کو اس میں رہنا نصیب نہ ہوسکا ان کی موت بھی پراسرار حالات کا شکار رہی اکثر و بیشتر یہ کہا جاتا ہے کہ اس خوبصورت محل پر ”سایہ“ ہے جو کسی کو بھی مستقل ٹھہرنے کا موقع نہیں دیتا۔ موھاٹا پیلس کو ”قصر فاطمہ“ بھی کہا جاتا ہے۔
موھاٹا پیلس 18500مربع گز کے رقبے پر محیط ہے جبکہ احاطے سمیت اس کا کل رقبہ 12000مربع گز ہے موہاٹا پیلس میں آمدروفت کے لیے تین بڑے گیٹ ہیں بیرونی دیوار کسی فصیل کی طرح سے گھومتی ہے اندر اصل عمارت سے پہلے کافی جگہ اوپن ہے جہاں درخت ہوا کرتے تھے جواب کاٹ دیئے گئے ہیں گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر دفاتر نما عمارت کا حصہ ہے۔ موھاٹا پیلس کو احمد حسین آغا نے تعمیر و ڈیزائن کیا جو پہلے مسلمان آرکٹیکٹ تھے موھاٹا پیلس کے کمرے بہت کشادہ ہیں گراوند فلور پر موجود کمرے تفریح طبع و مہمان نوازی کے لیے ہیں پہلی منزل پر خواب گاہیں اور ایک استقبالیہ کمرہ ہے پہلی منزل پر بہت بڑا ٹیرس ہے جہاں سے بحیرہ عرب کا نظارہ ہوتا ہے موھاٹا پیلس مغل انداز کی عمارت ہے جسے بہت احتیاط کے ساتھ منتخب کردہ خام مواد سے تیار کیا گیا ہے۔
موھاٹا پیلس کی تعمیر میں زیادہ تر مقامی طورپر گذری سے حاصل کردہ پتھر استعمال کیا گیا ہے بریکٹ، چھجے، بالکونی وغیرہ کی تعمیر میں جودھ پور کا پتھر استعمال میں لایا گیا اور اس تعمیراتی انداز سے پوری عمارت گلابی رنگ کی ہوگئی۔ احمد حسین آغا نے موھاٹا پیلس کی تعمیر میں ان بہت سے کاموں کو بہت کامیابی کے ساتھ اختیار کیا جنہیں وہ اس سے قبل بنائے جانے والی عمارتوں میں استعمال کرچکے تھے اس سے قبل احمد حسین آغا نے اپنی ہندو جم خانہ کی عمارت میں کشادگی کو مدنظر رکھا تھا، اسے موھاٹا پیلس میں اختیار نہیں کیا بلکہ اس میں گھر کی خلوت فراہم کی گئی ہے اس عمارت سے قبل بنائی جانے والی عمارتوں میں کھڑکیاں بنانے کا جو ہنر اختیار کیا گیا تھا اسے یہاں زیادہ وضاحت و ترتیب کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے اس طرح سے عمارت کی تعمیر کی غرض سے منقش آرائشی پتھر اور محرابی (مکلی) سندھ کے قبرستان سے حاصل کی گئی جہاں سمہ دور حکومت کے مقابر ہیں۔
موھاٹا پیلس کے مرکزی گیٹ سے داخل ہوتے ہی طویل مخی نما کمرہ32.6ایکس32 ملتا ہے جو انٹرنس کے بعد واقع ہے اس کھلے کمرے میں لکڑی کا خوبصورت کام کیا گیا ہے یہ کام ایسے کیا گیا ہے جیسے الماریاں دیواروں میں نصب ہوتی ہیں۔ آتش دان بھی ایک کونے میں واقع ہے اس کے دائیں جانب استقبالیہ روم ہے جبکہ اس استقبالیہ کمرے سے آگے سائیڈ انٹری گیٹ ہے جو ایک طویل صحن میں کھلتا ہے۔
لیونگ روم کے بائیں طرف بیڈ روم، ڈائننگ روم، باتھ، پینٹری روم اور سائیڈ انٹری گیٹ ہے لیونگ روم سے آگے رئیل لوبی اور گیمز روم واقع ہیں اوپر جانے کے لیے 3سیڑھیاں ملتی ہیں اوپر کی تعمیر بھی تقریباً گراونڈ فلور سے ملتی جلتی ہے اوپر دائیںجانب واقع کمرے میں محترمہ فاطمہ جناح کا قیام رہا ہے عمارت میں کھڑی کے دروازے اور کھڑکیاں ملتی ہیںجو اپنی جگہ خوبصورتی پیدا کرتی ہیں اوپر پہلی منزل پر دو چھوٹی گیلریاں اور ایک بڑی گیلری واقع ہے جس کا رخ ساحل سمندر کی طرف ہے۔
چھت پر چاروں اطراف چار خوبصورت دل کش سایہ دار کھلے گنبد واقع ہیں دو گنبدوں کے درمیان ایک تعویذ یا کیپسول نما جگہ بنائی گئی ہے یہ بھی غالباً بیٹھنے کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہوگی انہی گنبدوں اور تعویذ نما بیٹھک کے اطراف سیدھے اور الٹے ہاتھ پر سیمنٹ کی صوفہ نما بینچیں بھی ملتی ہیں ان چاروں گنبدوں کے درمیان مزید ایک پرشکوہ قلعہ نما چھوٹی سی عمارت ہے یہ اپنی تعمیر کے لحاظ سے تو متاثر کرتی ہے لیکن اس میں نصب نیلے رنگ کے شیشے اس کے حسن کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں جو ماحول کو تازگی بخشنے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں دونوں اطراف ویسٹ اوپن کمرے واقع ہیں۔نیچے واقع کمروں میں ہوا اور روشنی پہنچانے کی غرض سے اس عمارت کے چھجے اور کھڑکیاں نصب ہیں جو اوپر سے ہوا لے کر نیچے پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہیں ان کھڑکیوں کے اوپر سیمنٹ کی شلٹر ہے جو دھوپ کی تمازت و سختی کو نیچے جانے سے روکنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
یہ آرام دہ کمرے سکون عطاءکرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو چاروں اطراف کا نظارہ فراہم کرکے سکون بہم پہنچاتے ہیں۔ موھاٹا پیلس کے تہہ خانے میں ایک وسیع سوئمنگ پول بھی قائم ہے اس سوئمنگ پول سے چند قدم آگے ایک سیف تجوری نما کمرہ بھی ہے جس میں مضبوط لوہے کا دروازہ نصب ہے موھاٹا پیلس کو قصر فاطمہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عمارت مادر ملت سے بھی منسوب رہی ہے۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 1967ءتک ( انتقال ہونے تک) اسی محل میں رہیںان کی وفات کے بعدعمارت کی پہلی منزل سیل کر دی گئی تھی چونکہ اس میں محترمہ فاطمہ جناح کے قیمتی زیورات و اشیاءکے ساتھ ساتھ حضرت قائد اعظم کی قیمتی یادگار موجود ہیں یہ یادگاریں محترمہ فاطمہ جناح فلیگ اسٹاف ہاوس ( حالیہ قائد اعظم میوزیم ) کے ساتھ لے آئی تھیں۔ فاطمہ جناح کی ہمشیرہ محترمہ شیریں بائی کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ صرف گراونڈ فلور استعمال کر سکتی ہیں بعد ازاں ایک عدالتی حکم کے ذریعے 1970ءمیں پہلی منزل بھی ان کے استعمال کے لیے کھول دی گئی۔ 1980ءمیں شریں بائی کے انتقال کے بعد یہ عمارت پھر بند رہی سنا ہے کہ اس عرصے میں قائد اعظم کی بہت سی اشیاءیہاں سے غیر قانونی طور پر ہٹا دی گئیں یا ان کو نقصا ن پہنچا باقی ماندہ یادگاروں کو 1990ءمیں قائد اعظم ھاو¿س میوزیم کراچی میں منتقل کر دیا گیا۔ کراچی کے لوگوں کو یہ عمارت بہت پسند ہے بذا ت خود آرکٹیکٹ آغا کے کیرئیر میں یہ ایک شاندار کارنامہ ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ عمارت ایک عرصے تک نظر اندازی کی جاتی رہی ہے جس سے اسے نقصان پہنچا اس عمارت کی اہمیت و افادیت کو محسوس کرنے کے بعد گورنر سندھ کی ہدایات پر اسے سندھ کے محکمہ ثقافت نے اپنی زیر نگرانی لے کر میوزیم و پارک بنانے کے مقصد سے اس پر کام شروع کر دیا اس کی تزئین و آرائش، بجلی کی فٹنگ، دروازوں، کھڑکیوں، چھتوں کی مرمت سمیت وسیع پیمانے پر کام ہورہا ہے۔ موھاٹا پیلس موجود نسل بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک تہذیبی تمدن کی علامت ہے۔
ہفتہ روزہ ”فیملی میگزین“۔ تحریر:انجم جاوید
23تا29مئی1999ئ

متعلقہ خبریں