بلہڑ پہلوان : اس پہلوان کا تذکرہ جو اپنے مخالف کے سر کو اپنی انگلیوں میں قابو کرکے کچل دیتا تھا ، جب اس کا مقابلہ گاما پہلوان سے ہوا تو کیا واقعہ پیش آیا؟

لاہور(مانیٹرنگ رپورٹ)علیا خاندان کی بھی سنی گئی تھی ۔ حمیدا پہلوان رستم ہند کا گرز ایک بار پھر اپنے خاندان میں لے آیا تھا۔ حمیدے کی فتح پر بھولو نے خوب جھومر ڈالے۔ اس نے اپنے ماموں کی فتح پر سب سے زیادہ خوشی منائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھولو گونگے کے ہاتھوں اپنے باپ امام بخش کی شکست کو اپنے ذہن سے یکسر فراموش کرنا چاہتا تھا۔
اگرچہ بعد میں امام بخش گونگے کو چار بار گرا چکا تھا مگر پہلی شکست کا داغ مٹنے نہ مٹتا تھا۔ بھولو نے حمیدا پہلوان کی اس فتح کے بعد اپنے پرکھوں سے کہا کہ اب وہ خود گونگا کا مقابلہ کرے گا۔ 1942ء میں تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی اور یہی سال بھولو پہلوان کیلئے خوشیاں لے کر آیا تھا۔ وہ روبہ صحت ہو چکا تھا۔ انہی دنوں ہندوؤں کا دیوتا سمان شاہ زور بلہڑ انگڑائیں لینے لگا۔ وہ مسلم شاہ زوروں کو للکارنے لگا اور خاص طور پر بھولو کے بارے میں تو خوب لاف زنی کرتا۔ اس کا بھولو کے بارے میں تبصرہ بڑا تعلّی نما ہوتا۔
’’وہ بوہل!‘‘ بلہڑ بھولو کا تمسخر اڑاتا۔’’ارے چھوڑو، میں جانتا ہوں وہ کتنے پانی میں ہے۔اس سے گرنے والوں کو اس کے پرکھوں کا لحاظ تھا ورنہ وہ اس قابل کہاں‘‘۔بلہڑ پہلوان، گونگا، حمیدا پہلوان اور جیجا جیسے شاہ زوروں سے ٹکرا چکا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی کو کھوپڑی سے پکڑ لیتا تو اسے پچکا کر رکھ دیتا۔ اس کی انگلیوں میں عجیب سی مقناطیسیت تھی۔ حمیدا پہلوان نے بلہڑ پہلوان کی لاف زنی سے فائدہ اٹھایا اور اسے بھولو سے مقابلہ کرنے کا چیلنج دے دیا۔
ٹھیکیداروں نے فضا سازگار دیکھی اور پھر بھولو اور بلہڑ کے درمیان مارچ 1942ء میں لاہور میں کشتی طے کرا دی۔ طرفین کی جانب سے اپنے اپنے پہلوانوں کی جیت کیلئے مندروں اور مساجد، درباروں، مزاروں پر چڑھاوے دئیے گئے۔ ان دنوں لاہوریوں اور امرتسریوں نے ایک ہو کر بھولو کی فتح کیلئے دعائیں کیں۔ بلہڑ پہلوان چونکہ خلیفہ غلام محی الدین کا پٹھا تھا لہٰذا امکان تھا کہ اہل لاہور بلہڑ کا ساتھ دیں گے مگر اب تو تحریک پاکستان نے لاہوری اور امرتسری مسلمانوں کو ہندوؤں کے خلاف ایک کر دیا تھا۔ بلہڑ بہاولپور دربار سے منسلک تھا۔ اس کی فتح کیلئے مندروں میں باقاعدہ پوجا پاٹ ہوئی اور دیوی دیوتاؤں کو نذرانے پیش کئے گئے۔
کشتی کا دن آیا تو دونوں شاہ زور اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ دنگل گاہ میں پہنچ گئے۔ مذہبی اور سیاسی تصادم کے پیش نظر انتظامیہ نے کڑے انتظامات کئے تھے۔ سب سے پہلے بلہڑ اکھاڑے کو سلامی دینے آیا۔ چالیس سالہ بلہڑ بڑھاپے کی طرف گامان تھا مگر اس کی اترائی میں بھی شیروں جیسی لپک جھپک تھی۔ تماشائیوں نے دل کھول کر اس کا استقبال کیا۔ بھولو ریشمی جانگیہ میں جب اکھاڑے میں اترا تو مسلمانوں نے نعرہ اسلام سے اس کا استقبال کیا۔ پھر بیس سالہ بھولو جب بلہڑ کے مقابل ہوا تو ایک بجلی سی گرتی نظر آئی۔ بھولو نے اپنے تایا گاماں کی طرح حریف کے پٹ کھینچ لئے اور بلہڑ دھڑام سے گرا اور چت ہو گیا۔ یہ سب آناً فاناً ہوا۔ بلہڑ کو کچھ سجھائی نہ دیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ مسلمان تو دیوانے ہو گئے۔
انہوں نے بھولو کو کاندھوں پر اٹھایا اور شہر بھر میں جلوس فتح نکالتے رہے۔ میدان سیاست میں شاہ زوروں کے خلاف ایک سازش کی تیاریاں ہونے لگیں۔ بھولو نے بلہڑ کو چت کر کے لاہوریوں کے دل جیت لئے تھے مگر ہندوؤں کو یہ اتحاد ایک پل چین نہ لینے دے رہا تھا۔ ہندوؤں اور سکھوں نے غونثہ پہلوان کو بھولو کے خلاف ابھارا۔ غونثہ بڑی جوڑوں کا شاہ زور تھا۔ وہ ریاست ہزارہ سے وابستہ تھا۔ غونثہ پہلوان ایک طرف سے لاہوری اکھاڑوں کی آبرو تھا۔ اس نے بھولو کو چیلنج دے دیا اور یوں چند ماہ بعد ہی بھولو اور غونثہ ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ 28جون 1942ء اتوار کا دن تھا۔ گڑھی شاہو لاہور ریلوے سٹیڈیم میں ہندو، سکھ اور مسلمان اپنے اپنے پہلوانوں کے ساتھ موجود تھے۔سکھوں اور ہندوؤں کی ہمدردیاں غونثہ پہلوان کے ساتھ تھیں۔ فساد کے پیش نظر انتظامیہ نے سٹیڈیم کے گرد پولیس کو مسلح حالت میں کھڑا کیا ہوا تھا۔
ڈی آئی جی پنجاب پولیس مسٹر جے اے سکاٹ اور ڈپٹی کمشنر مسٹر کے ایچ ہنڈرسن بنفس نفیس دنگل میں موجود تھے۔ چھوٹی جوڑوں کے بعد غونثہ اور بھولو سپاٹے لگاتے اکھاڑے کی سلامی کیلئے آئے۔ دونوں کا جوش دیدنی تھا۔ کشتی کا آغاز ہوا اور بھولو نے برق رفتاری سے غونثہ کے پٹ کھینچ لئے۔ غونثہ داؤ کی تاب نہ لا سکا اور چت ہوگیا۔ لمحوں میں ایک طویل سردجنگ اختتام کو پہنچنے والی تھی کہ سکھوں اور ہندوؤں نے اکھاڑے میں آ کر غونثہ کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور اس کی جیت کا اعلان کر دیا۔ ادھر بھولو کے حواری بھی موجود تھے۔ انہوں نے اسے کاندھے پر اٹھایا اور بھولو کی جیت کا اعلان کیا جس کا خطرہ تھا آخر وہی ہوا۔ سکھ اور ہندو غونثہ کی جیت منوانے کیلئے مرنے مارنے پر تل گئے۔ انہوں نے نعرے لگائے۔اوئے اج فیر لاہوریوں نے میدان مار لیا جے‘‘۔
انتظامی مشینری حرکت میں آئی اور فساد پر قابو پا لیا گیا مگر کشتی فساد کی نذر ہو چکی تھی۔ بھولو کی کشتی مشکوک قرار دے دی گئی۔ بڑے شاہ زور جنہوں نے یہ جیت اپنی آنکھوں سے دیکھی، ہندوؤں کی چال کی گہرائی میں پہنچ گئے۔ گاماں، امام بخش اور حمیدا پہلوان اس دھاندلی پر تلملا رہے تھے۔ اسی اثناء میں کریم بخش پیلڑے والا ان کے پاس آیا اور انہیں ضبط کی تلقین کی۔ آخر فیصلہ ہوا کہ چھ ماہ بعد دوبارہ کشتی کرائی جائے۔ سب کی رضا مندی کے بعد اسی مقام پر 7 دسمبر 1942ء کو کشتی قرار پائی۔ دونوں طرف خوب تیاریاں شروع ہو گئیں۔ گاماں، امام بخش اور حمیدا پہلوان بھولو کو تیار کرنے کیلئے پٹیالہ لے گئے اور چھ ماہ تک اس کی خوب تیاری کی گئی۔ ادھر غونثہ لاہوری استادوں کے ہاتھوں کندن بننے کے مراحل طے کر رہا تھا کہ اچانک کشتی سے چند ہفتے قبل اس کے گھٹنے میں درد جاگ اٹھا اور وہ عضو معطل کی طرح ناکارہ ہو کر رہ گیا۔ لاہور استادوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ انہوں نے یہ خبر عام نہ ہونے دی اور کشتی سے دو روز قبل وہ غونثہ کو لے کر استاد کریم بخش پیلڑے کے آستانے پر حاضر ہو گئے اور حرف مدعا بیان کیا۔ استاد نے انہیں دیکھا اور ناگواری سے کہا۔ ’’کم بختو! اب کوئی وقت نہیں رہا ہے۔ تم لوگوں نے یہ کیا کیا ہے کہ ’’بوہے آئی جنج، ونوں کڑی دے کن‘‘ ۔ جاؤ اس کو کہیں اور لے جاؤ، میں کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ استادوں نے اکھاڑوں کی آبرو بچانے کی لاتجا کی۔ ’’خلیفہ جی! اگر غونثہ کا گھٹنا درست نہ ہوا اور اسے بچاؤ کیلئے کوئی مشورہ نہ دیا گیا تو ہماری پگڑیاں سروں سے ڈھلک کر گردن کا پھاہ بن جائیں گی‘‘۔استاد کریم بخش نے غور کیا اور غونثہ کو چند مفید مشورے دئیے۔ غونثہ کے تو بھاگ جاگ اٹھے۔ استاد وقت کے مشوروں نے واقعی معذوری کا ایک داغ مٹا دیا تھا۔ (بشکریہ ڈیلی پاکستان)