2019 ,جنوری 8
لاہور(سید اسامہ)تخلیقِ عالم کے بعد پہلا انسانی قتل اور اولین موت حضرت آدم کے بیٹے ہابیل کا مقدر بنی تھی، جسے اس کے بڑے بھائی قابیل نے مار ڈالا تھا۔ اپنے بیٹے ہابیل کی جواں مَرگی کا غم نسلِ انسانی کا پہلا غم قرار پایا اور یہیں سے موت پر گریہ و بین کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
دنیا کے مختلف خطوں میں آج بھی صدیوں سے سوگ منانے اور کسی کی موت پر غم کے اظہار کے مختلف طریقے رائج ہیں، اپنے کسی عزیز یا محبوب شخصیت کے دنیا سے رخصت ہوجانے پر سوگ منانا ایک فطری عمل ہے۔ جن میںآج کے دور میں لوگ اس طرح عمل کرتے ہیں کہ جیسے چین کے دیہات میں کسی بزرگ کے وفات پاجانے کی صورت میں سوگ بہ اندازِ خوشی منایا جاتا ہے، جہاں کسی کی موت کی اطلاع دینے کے لیے بندوق سے گولی چلائی جاتی ہے۔
عورت کے وفات پا جانے کی اطلاع کے لیے گولیوں کی تعداد طاق رکھی جاتی ہے، جب کہ اگر مرنے والا مرد ہو تو اِن گولیوں کو جفت تعداد میں چلایا جاتا ہے۔ گولی چلنے کی آواز س±ن کر دیہاتی ایک مقام پر جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر سب کے جمع ہونے کے بعد مرنے والے شخص کا نام بتایا جاتا ہے۔ وفات پاجانے والا کوئی معمر شخص ہو تو اس کی تدفین کی پہلی رات سے متوفی کے اپنے دیہات اور قریبی دیہات سے لوگ اس کے قریب جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر یہ سب لوگ اپنا مخصوص ”رقصِ سوگ“ مردے کے لواحقین کے ساتھ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ رقص کئی دنوں تک جاری رہتا ہے اور جتنے دن یہ جاری رہتا ہے، مردے کے لواحقین کے لیے اتنی ہی مسرت و انبساط کا سبب ہوتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق اس رقص کے ذریعے وہ اپنے دیہات کو بد ارواح اور آفات سے بچاتے ہیں اور مرنے والے کی روح کو اِس سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔