قائداعظمؒ کا کل یوم پیدائش قوم انکا احسان آج بھی نہیں بھولی

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح اُن عظیم شخصیات کی فہرست میں صفحہِ اوّل پر نظر آئیں گے جنہوں نے آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد کی. لیکن قائد اعظم محمد علی جناح بطور لیڈر اس لحاظ سے ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے جنہوں نے گولی چلائے بغیر محض منطق،دلیل اور اصولی موقف کے زور پر آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اسی کی بدولت ایک الگ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حالانکہ برصغیر پر قابض انگریز ہی نہیں بلکہ ہندو اکثریت بھی مسلمانوں کے الگ وطن کے قیام کی مخالف تھی۔اس کے علاوہ مسلمانوں کی کئی سیاسی اور خاص طور پر مذہبی جماعتیں بھی پاکستان کے قیام کی مخالفت میں پیش پیش تھیں مگر ایمان کی دولت اور پختہ ارادے کی وجہ سے قائد اعظم نے پاکستان بنا کر بیسویں صدی کا سب سے عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ ہیکٹر بولائیتھو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ ”سیاسی نا کامی اور ذاتی صدمے کے باوجود ان کی ذہنی صلاحتیوں اور ظاہری ٹپ ٹاپ میں کوئی فرق نہ آیا“ لارڈ جووٹ جو چھ سال برطانیہ کے وزیر قانون رہے کے الفاظ ہیں۔ ”جناح قانونی معاملات میں بڑے ہوشیار تھے اور پریوی کونسل میں اپنے مقدمات کی پیروی میں وہ بڑی فہم و فراست کا ثبوت دیتے تھے۔ انکی ان صلاحیتوں کے باعث ہم سب ان کا بڑا احترام کرتے تھے“قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ آپ جو اقدام کرتے اُس پر پہلے اچھی طرح غور و فکر کر لیتے تھے، اس کے بعد اسے عملی صورت دیا کرتے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران کئی بار ایسے مراحل آئے کے آپ نے فیصلے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ جس سے جزوی طور پر مسلمانوں پر مایوسی پیدا ہوئی، لیکن جب آپ نے فیصلے کا اعلان کیا تو ہر شخص نے آپ کے تدبراور فہم و فراست کی داد دی۔اکتوبر1928ءمیں برطانیہ سے واپسی پر جب آپ سے پرنٹ میڈیا نمائندوں نے اس رپورٹ پر اظہارِ خیال کے لیے کہا تو آپ نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ابھی مجھے اس رپورٹ کے تفصیلی مطالعے کا وقت نہیں ملا۔ لیکن آپ نے اس موقع پر مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پریشان نہ ہوں اور متحد رہیں، کیونکہ مسائل حل ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ پھر31 دسمبر 1928ءکو کلکتہ کے مقام پر کل جماعتی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے آئینی اور قانونی طور پر نہرو رپورٹ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور واضح طور پر کنونشن سے کہا:”نہر و رپورٹ کو جناح کی تائید کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تائید کی ضرورت ہے۔ اگر اقلیتوں کا مسئلہ آپ نے آج حل نہیں کیا تو لازماًََ اسے کل حل کرنا پڑے گا۔ ہندو اور مسلمان اسی ملک کے باشندے ہیں۔ اگر ان کے درمیان باہمی اختلافات ہیں بھی، تو ان اختلافات کی وجہ سے دشمنی اور عداوت مول نہ لیجیے۔ اگر وہ باہم اتفاق اور یگانگت پیدا کرنے سے معذور ہیں تو کم از کم اتنا تو کریں کہ دشمنوں کی مانند ایک دوسرے کا سر پھوڑ کر نہیں بلکہ دوستوں کی طرح آپس میں مصافحہ کر کے جدا ہوں۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو متحد اورمتفق دیکھنا میری زندگی کی ایک بڑی آرزو ہے۔ اس اتحاد کے راستے میں کسی منطق، نا انصافی اور کسی کشمکش کو حائل نہ ہونے دیجیے“. کل جماعتی کنونشن سے واپسی پر قائد اعظم نے اپنے ایک دوست سے فرمایا: ”آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو رہے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی باہم متحد نہیں ہوں گئے“۔ قائد اعظم کا یہ تجزیہ ایک پیشن گوئی ثابت ہوا اور مارچ 1940ءمیں مسلمانانِ ہند نے ایک علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ نہ صرف پیش کیا بلکہ اس مطالبے کی منظوری کے لیے من حیث القوم خود کو وقف کر دیا۔آج اگر ہم پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات پر من و عن عملدرآمد کرنا ہوگا اور حکمرانوں کو قائد اعظم کی طرح کا ہی طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے. یاد رکھنا ہوگا کہ قائد اعظم قومی خزانے کے امین تھے۔ایک دفعہ سرکاری استعمال کے لئے سینتیس (37)روپے کا فرنیچر لایا گیا۔ قائداعظم نے لسٹ دیکھی تو دیکھاسات روپے کی ایک کر سیاضافی آئی ہے، آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہے توکہا گیا کہ آپ کی بہن فا طمہ جناع کے لئے۔ آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لو۔کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتیں تھیں قائد اعظم محمد علی جناع نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کے لئے نہ دیا جائے۔ 1933سے لے کر 1946تک قائداعظم محمد علی جناع نے ایک اندازے کے مطابق 17قراردادیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خوددرایت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا مگر اس کے باوجود آپ امت مسلمہ کے لیے دردِ دل رکھتے تھے.پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کی وحدت کے لیے اہم کردار ادا کیا. آج ہمیں پھر سے متحد ہو کر عالم اسلام کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ دن دور نہیں جب پاکستان عالم اسلام کی حقیقی معنوں میں قیادت کرے گا انشاءاللہ.