دنیا کا تاریخ اور جغرافیہ بدلنے والی جاسوسی کی دنیا

ایلی کوہن کی شام جاکر جاسوسی کی تربیت پر موساد کی خصوصی توجہ دی ۔شامی سرحد سے واپسی کے بعد کوہن کو شام کی تاریخ اقتصادی ترقی‘ حکومت‘ جغرافیہ اور معاشرے کے بارے میں ایک کریش کورس کرایا گیا۔ چونکہ شامی عربی کا لب و لہجہ مصری عربی سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ لہذا اسے عربی کا شامی لہجہ سکھانے کے لئے ایک پروفیسر مقرر کیا گیا جو ہر روز اس کے گھر آ کر اسے پڑھاتا تھا۔ تلفظ کی صحیح ادائیگی کے لئے دن رات ریڈیو دمشق سنتا رہا تھا۔
اس کے علاوہ موساد نے اس کے ایک کمرے میں پروجیکٹر لگایا جس پر اسے شام کی فوجی تنصیبات کے متعلق فلمیں دکھائی جاتیں۔ کوہن کو شام کے علاوہ ارجنٹینا سے متعلق بھی اسی طرز کا کورس کرایا گیا۔ اسے ہسپانوی زبان سکھائی گئی۔ وہ اس اضافی کورس سے خاصا پریشان بھی ہوا۔ آخر اس نے ایک دن اپنے باس سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا چکر ہے۔ اسے بتایا گیا کہ شام جانے سے پہلے وہ کچھ عرصہ ارجنٹائن میں گزارے گا کوہن کو یہ منطق سمجھ ہی نہیں آئی کہ آخر اسے ارجنٹائن کیوں بھیجا جائے گا۔ لیکن اسے خاموش رہنا پڑا کیونکہ موساد کے قانون میں ازخود سوالات کرنے کی قطعی گنجائش نہیں ۔
وہ مارچ 1961ءکی پہلی تاریخ تھی زیورخ سے سوئس ائر کی فلائٹ شیڈول کے عین مطابق بیونس آئرز (ارجنٹینا) کے ایزیزہ انٹرنیشنل ائرپورٹ پہنچی۔ مین ٹرمینل پر جب طیارہ رکا تو مسافر نیچے اترنے لگے۔ ان میں ایک خوش لباس اور سمارٹ بزنس مین بھی شامل تھا۔ جہاز کے فرسٹ کلاس کیبن میں وہ دوران پرواز زیادہ تر خاموشی کے ساتھ مختلف اخبارات میں تجارتی خبریں پڑھتا رہا تھا اسے ملنے کوئی نہیں آیا تھا۔ امیگریشن اور کسٹم کے لوازمات پورے کرنے کے بعد وہ ائرپورٹ سے باہر آیا جہاں اس نے ایک ٹیکسی کی طرف اشارہ کیا۔
ٹیکسی نے اسے شہر کے ایک خوبصورت فائیو سٹار ہوٹل میں ڈراپ کیا۔ ہوٹل ریسپشن پر اس نے رجسٹر میں اپنا نام کمال امین اور پیشہ ایکسپورٹر لکھا۔ اس کا پاسپورٹ اسے شامی ظاہر کر رہا تھا اس نے اپنی آمد کے بعد چند ہفتے انتہائی مصروف گزارے۔ کاروبار کے سلسلے میں وہ بیونس آئرز کی تقریباً مشہور پارٹیوں سے ملا اس کے بعد وہ ہوٹل سے ایک خوبصورت کرائے کے مکان میں منتقل ہو گیا جیسا کہ ہر مسافر دیار غیر میں اپنے ہم وطنوں کی محفل تلاش کرتا رہتا ہے۔ کمال نے بھی وہ کیفے اور ریستوران دریافت کر لئے جہاں عرب باشندے گپ شپ کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں تقریباً پانچ لاکھ عرب باشندے ارجنٹینا میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی غالب اکثریت دارلحکومت یعنی بیونس آئرزمیں تھی یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ بہت کم ملتے جلتے تھے۔ ان کی بس ایک الگ دنیا تھی۔
شہر کے ان ریستورانوں اور کلبوں میں اتوار کے دن بڑی رونق ہوتی تھی۔ لبنان‘ شام اردن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں کے سفارت کار اور ٹریڈ مشن کے اہلکار یہاں مختلف گیمز اور قہقوں میں شام گزارتے تھے۔ کمال بہت جلد ہی ان لوگوں میں گھل مل کر کلب کا ممبر بن گیا۔
عرب ویسے بھی بہت ملنسار اور مہمان نواز ہوتے ہیں انہوں نے کمال کو فوراً دوست کی حیثیت سے قبول کر لیا۔ اس نے اپنا اور خاندانی پس منظر بیان کرتے ہوئے اپنے دوستوں کو کہا: میرا باپ امین اور ماں سعیدہ سخت غربت کی وجہ سے شام سے بیروت ہجرت کر گئے تھے۔ میں وہاں 1933ءمیں پیدا ہوا ۔ میرے بعد ایک بہن بھی پیدا ہوئی مگر وہ بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ ہم کچھ سال بیروت میں رہے مگر ہمارے معاشی حالات بدستور خراب رہے۔ آخر ہم تنگ آ کر مصر آ گئے جہاں ہم نے سکندریہ میں ایک بوسیدہ مکان میں رہائش اختیار کی ۔شروع میںمیرا سارا بچپن سکندریہ میں گزرا‘ میرے والد کو مرتے دم تک اس بات پر فخر تھا کہ وہ شام کا رہنے والا ہے۔ میں نے اپنے والد کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ایک دن اپنے آبائی وطن ضرور جاﺅںگا۔
میں 1947ءمیں پہلی بار بیونس آئرز آیا تھا۔ یہاں میرے ایک چچا رہتے تھے۔ جو بے حد مالدار تھے۔ ان کا کپڑے کا کاروبار تھا مگر کچھ عرصہ بعد دیوالیہ ہو گئے۔ میرے والد کو مرے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ اب میں ایکسپورٹ کا کاروبار کر رہا ہوں۔ بہت عرصہ یورپ میں کام کیا ہے۔ اب قسمت آزمانے بیونس آئرز آیا ہوں۔ اس نے دوستوںکو اپنے خاندان کی تصویروں کا ایک البم بھی دکھایا۔ کلب کے سارے ممبروں نے اس کی بہت حوصلہ افزائی کی کہ وہ یہاں خوب کامیابی کے ساتھ کاروبار کر سکے گا۔
ایلی کوہن کے اس بھیس کور پر موساد نے بڑی محنت کی تھی۔ تل ابیب میں انٹیلی جنس ایکسپرٹس کو پتہ تھا کہ عرب اتنی آسانی سے کسی کی داستان پر یقین نہیںکرتے لہذا اس کی ”کور سٹوری “ ایک حقیقی شخص جس کا نام کمال امین تھا۔ سے ماخوذ کی گئی، وہ لبنان میں پیدا ہوا تھا۔ اور بعد میں بیونس آئرز منتقل ہو گیا تھا۔
ایلی کوہن ٹرینگ مکمل ہوتے ہی بیونس آئرز کے لئے روانہ ہوا ۔موساد کا ایک نوجوان افسر جو بعد میں اس کا اسرائیل میں ریڈیو لنک آپریٹر مقرر ہوا‘ اسے ائرپورٹ چھوڑنے آیا اس نے کوہن کوسفر کے اخراجات کے لئے پانچ سو ڈالر دئیے۔ وہ چند گھنٹوں بعد زیورخ انٹرنیشنل ائرپورٹ پہنچا۔ جہاں ایک اور اسرائیلی نے اسے ریسیو کیا۔ وہ شخص زیورخ میں موساد کا خفیہ ایجنٹ جو ایک بزنس مین کے روپ میں کام کر رہا تھا۔ اس نے کوہن کو کہا کہ اب وہ اپنی اصلی شناخت بھول جائے۔ وہ ایک مسلمان بزنس میں‘ کمال امین ہے اور بحری اور ائرکار گو کمپنی کا مالک ہے جو جنوبی امریکہ اور یورپ کے درمیان کاروبار کرتی ہے۔
تجارتی اسرار و رموز سیکھنے کے لئے کوہن کو بزنس سائنس کا بھی ایک کورس کرایا گیا تھا تاکہ وہ بآسانی تجارتی اصلاحات میں گفتگو کر سکے۔ موساد کے آدمی نے اسے ایک سوئس بینک اکاﺅنٹ کی چیک بک دی جہاں اس کے استعمال کے لئے وافر مقدار میں ڈالر جمع کرا دئیے گئے تھے۔ اس کے بعد اسے زیورخ کی مختلف گارمینٹ سٹورز سے قیمتی ملبوسات خرید کر دئیے گئے تاکہ جسے پہن کر وہ واقعی ایک خوشحال تاجر لگے۔ اسے زیورخ کا ایک پوسٹ بکس نمبر بھی دیا گیا۔ اس نے اپنی تمام خط و کتابت اسی نمبر سے کرنی تھی وہ کوئی خط جس پر ارجنٹینا کا ڈاک ٹکٹ لگا ہو اپنی بیوی کو اسرائیل نہیں بھیج سکتا تھا۔ بیونس آئرز پہنچنے کے فوراً بعد کوہن کو موسادکا ایک اور ایجنٹ ابراہم ملا۔ اس نے کوہن کو اپنا نیا بزنس یہاں سیٹ کرنے کے لئے کرائے کے مختلف دفاتر‘ سٹیشنری اور دیگر ساز وسامان مہیا کیا اس نے رقم کے علاوہ شہر میں رہنے والے بااثر عرب سفارت کاروں کی ایک لسٹ بھی فراہم کی۔
بیونس آئرز آتے ہی وہ شامی تارکین وطن کی محفلوں میں شیر و شکر ہو گیا وہ نئے دوستوں کو خوب کھلاتا پلاتا تھا۔ کوہن ان سے کہتا کہ اس کے دل میں برسوں سے ایک حسرت ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن شام جائے۔ وہ ہر ایک کو اپنا فیملی البم دکھاتا‘ جو موساد نے بڑی مہارت سے ترتیب دیا تھا۔ کوہن کو پتہ چل گیا تھا کلب آف اسلام ریستوران میں عرب دنیا کی انتہائی بااثر شخصیات گپ شپ کے لئے آتی رہتی ہیں۔ لہذا اس نے وہاں آنا جانا شروع کیا وہ وہاں اکثر دمشق اور قاہرہ کے اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا۔ یہاں ایک روز اس کی ملاقات ایک شامی نثراد شخص‘ عبداللہ لطیف سے ہوئی وہ ایک مقامی عربی اخبار کا ایڈیٹر تھا ،کوہن نے اس سے بھی اپنے دل کی بات بتائے ہوئے کہاکہ وہ کسی نہ کسی طرح دمشق جانا چاہتا لیکن وہ وہاں کسی کو جانتا نہیں ہے۔ عبداللہ لطیف نے کوہن کو کئی اعلیٰ عرب سفارت کاروں اور تاجروں سے ملوایا۔
ایک دن ایک کاک ٹیل پارٹی میں اس کی ملاقات میجر امین الحافظ سے ہوئی جو شام کے سفارت خانے میں ملٹری اتاشی تھا۔ حافظ بھی دوسرے عربوں کی طرح کوہن (کمال امین) کے جذبہ حب الوطنی سے بے حد متاثر ہوا۔ مجھے سیاسی گفتگو تو نہیں کرنی چاہئے ایک سفارتی ڈنر کے موقع پر میجر حافظ نے کہا کہ کتنا اچھا ہوگا گر تم ہماری بعث سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے ہمیں تقویت فراہم کرو‘ ویسے اس سال کے آخر میں میرا یہاں ملازمت کا دورانیہ ختم ہونے والا ہے‘ کیوں نہ تم میرے ساتھ ہی دمشق چلو، وہاں ایک ساتھ پارٹی کے لئے کا م کریں گے۔ ہمیں تم جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور محب وطن نوجوانوں کی سخت ضرورت ہے۔ کوہن نے بڑی گرم جوشی سے اس کے ساتھ جانے کاوعدہ کیا۔
شامی سفارت خانے کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے فنکشن میں کوہن کو بطور خاص مدعو کیا جاتا تھا۔ میجر حافظ اور کوہن ایک ساتھ شراب پیتے اور قہقے لگاتے نظر آتے تھے۔ اس سب کچھ کے باوجود شامی سیکرٹ سروس
Deuxieme Bureau
کو کوہن کے زبردست قومی نظریات سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے خفیہ طور پر اس کے خاندانی پس منظر کی مکمل تحقیقات کی‘ لیکن انہوں نے کوہن کا ہر ایک دعویٰ بالکل حقیقت پر مبنی پایا۔ واقعی کمال امین نامی شخص جس کے والدین شام سے ہجرت کر کے لبنان آئے تھے‘ بیروت میں پیدا ہوا۔ بچپن سکندریہ میں گزرا اور پھر یورپ اور بیونس آئرز گیا۔ انکوائری کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ وہ ایک دن اس کی غیر موجودگی میں اس کی گھر کی بھی تلاشی کر گئے۔ انہوں نے کوہن کے فیملی البم سے بھی چند تصاویر نکال کر اس کی کاپیاں بنائیں۔ جب کوہن کو اس واقعہ کا علم ہوا تو اسے بے خد خوشی ہوئی کیونکہ وہ چاہتا ہی یہ تھا کہ وہ اس البم کو ضرور دیکھیں۔ آخر کار شامی سیکرٹ سروس اپنی زبردست تحقیقات مکمل کر کے اس نتیجے پر پہنچی کہ کمال امین واقعی ایک جذباتی نیشنلسٹ نوجوان ہے جو دمشق میں پارٹی کے لئے ایک بہترین سرمایہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اُدھر تل ابیب میں موساد کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ کوہن نے یہ مشکل مرحلہ بھی بآسانی طے کر لیا ہے۔
مئی 1961ءمیں کوہن نے اپنے تمام دوستوں کو اچانک آگاہ کیا کہ وہ بالآخر اپنے باپ دادا کی سرزمین کی طرف لوٹنے والا ہے۔ اس کے تمام احباب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہر ایک نے اسے دمشق میں بااثر سرکاری عہدیداروں‘ تاجروں اور ذاتی دوستوں کے نام تعارفی خط دئیے۔ اسے خوب تسلیاں دیں کہ اسے دمشق میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ رخصت سے ایک رات قبل تمام دوستوں نے اس کے اعزاز میں ایک شاندار الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا۔ بیونس آئرز سے دمشق روانگی کا یہ سگنل اسے چند دنوں پہلے تل ابیب سے موصول ہوا تھا۔ وہ سفرکے پہلے مرحلے میں میونخ سے ہوتا ہوا زیورخ (سوئزرلینڈ) پہنچا۔ یہاں موساد کا وہی افسر جس نے پہلی بار اسے یہاں سے ارجنٹینا رخصت کیا تھا اسے ملا۔ شہرکے وسط میں ہوٹل کے ایک کمرے میں وہ کمال امین کے بھیس سے نکل کر ایک بار پھر ایلی کوہن بن گیا۔ موساد کے آدمی نے سے اسرائیلی پاسپورٹ دیا کوہن نے اسے بیونس آئرز میں اپنی تمام کامیاب کارروائیوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ ”دی ملین ڈالر سپائی کتاب“ میں مشتاق جدون صوابی والی نے خوبصورت انداز میں عرب دنیا میں سرایت کرنے والے جاسوس کی روداد تحریر کی ہے ،ایلی کوہن نے تل ابیب جانے سے پہلے اپنی بیوی اور بچوں کے لئے ڈھیر ساری شاپنگ کی اسرائیل پہنچتے ہی اسے ائرپورٹ پر موساد کا ایک افسر ملا جو اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر تک چھوڑ آیا۔ کوہن نے بیوی کو کہا کہ وہ پورپ میں ڈیفنس منسٹری کے لئے کام کرتا رہا تھا۔ بیوی نے یقین کر لیا کیونکہ اسے برابر ہر مہینے یورپ کے مختلف ملکوں سے اس کے پوسٹ کارڈ ملتے رہے تھے۔ جنوبی امریکہ جانے سے قبل زیورخ میں کوہن نے یہ سارے پوسٹ کارڈ لکھ کر موساد کے ایجنٹ کے حوالے کر دئیے۔ تھے۔ اب اسے مزید تربیت کے لئے موساد نے اکیڈمی بلا لیا تھا۔ اُس نے مسلسل کئی ہفتے ان ریڈیو آپریٹروں کے ساتھ کام کیا۔ جنہوں نے بعد میں اس کے دمشق سے نشرہونے والے پیغامات موصول کرنے تھے۔ کوہن کو ایک مخصوص سپیڈ پیغامات بھیجنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ ان کے درمیان یہ طے ہوا کہ اگر اس سپیڈ میں ذرا بھی فرق آیاتو تل ابیب میں بیٹھے آپریٹرسمجھ جائیں گے کہ وہ زیر حراست ہے۔ بالآخر دسمبر 1961ءمیں اسے دمشق کے لئے روانہ کیا گیا۔ کوہن کے انسٹرکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا جیسے وہ چھٹیاں منانے جا رہا ہو حالانکہ وہ ایک ایسے ملک میں سرایت کرنے والا تھا جہاں اس کی زندگی ہر لمحہ سخت خطرات سے دوچار ہونے والی تھی۔ وہ تل ابیب سے ایک اسرائیل ائر لائن کے ذریعے میونخ پہنچا۔ جہاں اسے موساد کا وہی پرانا ایجنٹ ملا۔ اس نے کوہن کے سامان میں قیمتی سوٹ اور گھریلو سامان کے علاوہ بھی کچھ چیزیں پیک کیں وہ ایک انتہائی چھوٹا ریڈیو ٹرانسمیٹرتھا تھا جسے ایک فوڈ مکسر کے پیندے میں فِکس کیا گیا تھا۔ کوہن کے الیکٹرک شیور کی تار نے بطور لانگ رینج اینٹینا کے کام کرنا تھا۔ پوٹاشیم سائنائڈ کی گولیاں‘ دشمن کو ختم کرنے یا بوقت ضرورت خود کشی کرنے کے لئے، اسپرین کی گولیوں کے رنگ اور پیکنگ میں ساتھ رکھی گئی تھیں۔ طاقتور دھماکہ خیز مواد بنانے کے لئے کیمیکل‘ ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبوں اور شیونگ کریم کے ڈبوں میں چھپایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک جدید جاپانی کیمرے کے پرزے بھی سامان میں شامل تھے۔ میونخ سے کوہن اٹلی روانہ ہوا جہاں سے وہ یکم جنوری کو ایک بارپھر کمال امین کا روپ دھار کر بیروت کے لئے ایک سمندری جہاز میں بیٹھا یوں وہ تنہا ایک خطرناک جاسوسی مہم پر روانہ ہوا۔