لارنس آف عربیہ کی حقیقی داستان

گذشتہ سے پیوستہ:
لارنس کی ابتدائی سوچ کے مطابق، ان کا نصب العین ترکوں کی جنوبی رگِ جاں کو مستقل طور پر نقصان پہنچانا نہیں تھا، بلکہ سسکتے رہنے دینا تھا تا کہ وہ بمشکل کام کر سکے۔ ایسی صورت میں ترکوں کو مستقل طور پر اپنے وسائل اس کی مرمّت کے لیے مختص کرنے پڑتے، جبکہ ان کے دستے جنہیں مشکل سے ہی رسد مل پاتی، بھٹکتے ہی رہ جاتے۔ ہائی وے – 15 کے ساتھ ساتھ اس حکمتِ عملی کی نشانیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ جہاں بہت سی آبی گزرگاہیں/ کلورٹ اور پلیاں جنہیں عثمانیوں نے راہ میں آنے والے پانی سے نمٹنے کے لیے بنایا تھا، ابھی تک ویسی ہی موجود ہیں، اور اپنی پر پیچ نقوش والی محرابوں کی وجہ سے فوراً نظر میں آجاتی ہیں، وہیں بہت سی جدید فولادی بیموں سے بنائی ہوئی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اصلی تعمیر جنگ کے دوران اڑا دی گئی تھی۔
“عظیم عرب انقلاب منصوبہ” کا ایک غیر ارادی نتیجہ بھی نکلا ہے۔ اردن کے آثارِ قدیمہ کے مقامات عرصے سے لوٹ مار کرنے والوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں، اور یہی چیز اب پہلی جنگ عظیم سے متعلّق آثار کی جگہوں تک بھی پہنچ گئی ہے۔ سینہ بسینہ چلنے والی ان یادوں سے شہہ پا کر کہ ترک فوجی اور عرب باغی اکثر سونے کے سکّوں کی بڑی مقدار ساتھ لے کر چلا کرتے تھے – اور جبکہ لارنس خود بھی اپنے متبعین کو دس بیس ہزار برطانوی پاو¿نڈ کی قیمت کا سونا بطور وظیفہ دیا کرتا تھا – جیسے ہی عرب باغیوں کے کسی نئے ٹھکانے کی بھنک ملتی ہے، مقامی افراد ہاتھوں میں کھدائی کے اوزار لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
“ہاں یقیناً ہم اس مسئلے سے وابستہ ہیں،” سینڈرز کا ماننا ہے۔ “مقامی افراد جب اتنے امیر غیر ملکیوں کو سارا دن جلتے سورج کے تلے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جھکے کھدائیاں کرتے دیکھتے ہیں، تو ان کے ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ یہ مشقّت صرف چند بے قیمت دھات کے ٹکڑوں کے لیے ہرگز نہیں ہو سکتی، یہ لوگ یہاں سونے کی تلاش میں آتے ہیں”، سینڈرز چبھتے ہوئے لہجے میں کہتا ہے۔
نتیجے کے طور پر منصوبے کے ماہرین کسی بھی جگہ پر کھدائی شروع کرنے کے بعد اس وقت تک وہاں موجود رہتے ہیں جب تک ان کو یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ ان کے کام کی تمام چیزیں مل چکی ہیں۔ پھر وہ اردن کی حکومت کی اجازت سے جگہ کو برابر کر کے ہر چیز اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کیونکہ پچھلے تجربوں سے وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ کام ادھورا چھوڑنے کی صورت میں دوبارہ آنے پر ان کو مٹی کے ڈھیر ہی ملیں گے۔
***
موسمی اور پستے کے درختوں کی دولت سے لدی بل کھاتی بھوری پہاڑیوں کے درمیان واقع کرکمیز گاو¿ں جنوبی ترکی کے کئی دیہی قصبوں کی مانند ایک غنودگی کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی کم کم چلتی ہوئی راہوں پر دکاندار ویران راستوں کو تکتے رہتے ہیں، جبکہ ایک چھوٹے سے درختوں کے سائے تلے واقع پلازا میں بیکار لوگ ڈومینوز یا تاش کھیلتے رہتے ہیں۔
اگر ایسا لگتا ہے کہ یہی وہ مخصوص ماحول رہا ہوگا جہاں نوجوان لارنس سب سے پہلے دنیائے عرب سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے آا ہوگا تو درست جواب یہاں سے تقریباً ایک میل مشرق میں واقع ایک گاو¿ں میں ملے گا۔ یہاں دریائے فرات کے درمیان واقع ایک ابھری پہاڑی پر انتہائی قدیم شہر کارکیمش کے کھنڈر ملتے ہیں۔ گو اس پہاڑی پرانسانی آبادی کی تاریخ کم سے کم 5000 سال قدیم ہے، مگر 1911 میں 22 سالہ نوجوان لارنس کو ہتّیوں کی تہذیب کو، جو گیارہ سو سال قبل مسیح اپنی اوج پر تھی، غیر مقفّل کرنے کی تمنّا سب سے پہلے یہیں کھینچ لائی تھی۔
لیکن کارکیمش آنے سے پہلے بھی اس بات کی علامات واضح تھیں کہ دنیا لارنس کا نام کسی نہ کسی حیثیت میں واضح طور پر سنے گی۔ 1888 میں برطانیہ کے ایک متوسّط گھرانے میں پانچ بیٹوں میں دوسری باری پر پیدا ہونے والے لارنس کی مفلوج کرنے کی حد تک شرم کے پیچھے ایک بیحد ذہین دماغ اور ایک وحشت مائل خود مختار مزاج چھپا ہوا تھا-
آکسفرڈ میں اپنے تھیسس کے لیے لارنس نے شام میں واقع صلیبی جنگوں کے قلعوں کو چنا، جہاں اس نے مشرق وسطیٰ کی خونخوار گرمی میں تن تنہا اور پیدل یہ مطالعہ کیا۔ یہ ایک 1200 میل کا پیدل سفر تھا جو اسے ان دیہاتوں میں لے گیا جہاں اس سے پہلے کسی یوروپین نے، کم از کم کسی حفاظت کے بغیر اکیلے آنے والے یوروپین نے، قدم نہیں رکھا تھا، جو 5 فٹ 4 انچ کے قد کے ساتھ 15 سال کا لگتا تھا۔ اور یہیں اس کا مشرق سے لگاو¿ شروع ہوا۔ “میرا دوبارہ انگریز بننا بہت مشکل ہوگا”، لارنس نے اس سفر کے دوران اپنے گھر والوں کو ایک خط میں لکھا۔ یہ بات کسی بھی جدّت پسند نوجوان طالب علم کے دل کی آواز ہو سکتی تھی جو کالج کے ابتدائی سالوں میں ملک سے باہر گیا ہو، فرق صرف یہ رہا کہ لارنس کے معاملے میں یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔
اس تغیّر کی تصدیق اس وقت ہو گئی جب آکسفرڈ سے گریجویٹ کرنے کے بعد، اس نے برٹش میوزیم کی کفالت سے کارکیمش میں لگائے جانے والے ایک آثار قدیمہ کے تحقیقاتی کیمپ میں اپنی لیے جگہ بنائی۔ اس کھدائی کی جگہ پر بطور ایک جونیر اسسٹنٹ کے اور صرف دو مستقل تعینات مغربی باشندوں میں سے ایک کے، لارنس نے اپنی سائنسی ذمّہ داریاں نبھائیں- یہ بنیادی طور پر کھدائی سے ملنے والی چیزوں کی تصویریں اور فہرستیں بنانے کا کام تھا، مگر ساتھ ساتھ اس نے عرب معاشرے کے شب و روز سمجھنے میں بھی گہری دلچسپی اختیار کر لی۔
عربی سیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ مقامی کارکنوں سے ان کی خاندانی تاریخ، اور علاقے کی پرپیج برادریوں اور قبائل کی باہم وابستگیوں کے بارے میں بھی معلومات جمع کرتا رہتا تھا، اور اکثر ان مزدوروں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کے لیے ان کے گھروں میں بھی جاتا رہتا تھا۔ اس سے پہلے ان مزدوروں کا جس حد تک بھی مغربیوں سے واسطہ پڑا تھا وہ آقا اور ملازم کے رشتے سے تھا۔ ایک ایسے شخص کو اپنے درمیان پا کر جو ان کی تہذیب میں گہری دلچسپی رکھتا تھا، انہوں نے اس کی غیر-مغربی سختی کی برداشت اور سخت محنت میں اس کا ساتھ دیا، اور وہ نوجوان لارنس کو اپنے گھر کا ایک فرد سمجھنے لگے۔ “غیر ملکی یہاں ہمیشہ سکھانے آتے ہیں، جبکہ بہت بہتر ہو اگر وہ یہاں کچھ سیکھیں”، لارنس نے اپنے گھر والوں کو ایک خط میں لکھا۔
شام کے علاقے میں کھدائی جس کی ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے مالی کفالت کی گئی تھی، چار سال پر پھیل گئی۔ لارنس نے 1913 میں اپنے ایک دوست کو خط میں کارکمیش میں اپنی پر لطف زندگی کی مدح سرائی کرتے ہوئے لکھا کہ جب تک اس کام کو جاری رکھنے کے لیے پیسے ملتے رہیں گے، میں یہیں رہنا چاہوں گا۔ اور اس کے بعد کسی اور مزیدار چیز کی طرف نکل جاو¿ں گا اور پھر کسی اور کی طرف۔ جنگ عظیم اوّل کے شروع ہونے کی وجہ سے اگست 1914 میں یہ پلان اچانک ختم ہو گیا، اور لارنس کے مقدّر میں، جو ان دنوں اپنے گھر چھٹّی گیا ہوا تھا، پھر کبھی کارکیمش لوٹنا نہ لکھا گیا۔
شام میں گزارے ہوئے وقت کی مدد سے لارنس نے اپنے ذہن میں عثمانی سلطنت کا ایک واضح، گو سادہ سا سا، تاثّر بٹھا لیا تھا۔ عربوں کی آزاد منش زندگی کی تحسین، ان کے ترک بالادستوں کی بدقماشیوں، بے ایمانیوں اور نا اہلیوں سے بیزاری، اور عثمانی “جوا” عربوں کے کاندھے سے اترنے کے دن کا انتظار۔ یہ خوش بختی جب آئی اور لارنس کو اس میں کردار ادا کرنے کا موقع اس وقت ملا جب ترکی جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کی جانب سے جنگ میں شامل ہوا۔ اس علاقے میں اس کے تجربے کے سبب لارنس کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ مصر بھیج دیا گیا، جو ترکوں کے خلاف مستقبل میں کی جانے والی کارروائیوں کے لیے برطانویوں کا بیس کیمپ تھا۔
اس بات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کہ لارنس اور انٹیلی جنس برانچ کے دوسرے ممبر اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ برطانویوں کو ان عربوں کے ساتھ اشتراک عمل کرنا چاہیے جو ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے تلے بیٹھے تھے، قاہرہ میں براجمان جنرل اس بات پر قانع نظر آتے تھے کہ یہاں بھی وہی روائتی کھلے محاذوں کی جنگ لڑی جائے جو اس سے پہلے یورپ میں بیحد تباہ کن ثابت ہو چکی تھی۔ اس سوچ کا جو فوری نتیجہ سامنے آیا وہ 1915 میں اتحادیوں کی گیلی پولی کی شرمناک شکست تھی، جس میں برطانوی دولتِ مشترکہ کو پسپائی سے قبل تقریباً ڈھائی لاکھ جانوں کا ضیاع برداشت کرنا پڑا۔ میز کرسی سنبھالے ہوئے لارنس کے لیے یہ بات اس لیے اور بھی تکلیف دہ تھی کہ اس دوران مغربی محاذ پر اس کے دو چھوٹے بھائی پے در پے لقمہئ اجل بن گئے تھے۔ اس نے ایک دوست کو خط میں لکھا، “وہ دونوں مجھ سے چھوٹے تھے، اور یہ اچھا نہیں لگتا کہ وہ جان سے جائیں اور میں قاہرہ میں پر امن زندگی گزارتا رہوں۔”
اس کی مصر آمد کے دو سال بعد تک، یعنی 1916 تک وہ وقت نہیں آیا تھا کہ لارنس خود کو اپنے مقدّر میں لکھی جگہ پر پھینکا ہوا پائے۔
***
جزیرہ نما عرب میں سمندر کے راستے سے جانا قدرتی جغرافیائی مظاہر میں سے ایک زیادہ تتر بتر کر دینے والی چیز کو دعوت دینا ہے، کیونکہ جس لمحے سمندر کی ٹھنڈی کی ہوئی ہوا صحرا کی جھلسی ہوئی ہوا سے ٹکراتی ہے اس وقت درجہئ حرارت چند سیکنڈ میں 20 ڈگری سے 30 ڈگری تک چھلانگ لگا سکتا ہے۔ اس بات کا شاید لارنس سے بہتر کسی نے اظہار نہ کیا ہو، جب اس نے 16 اکتوبر 1916 کی صبح بحر احمر کے راستے جّدہ کی بندرگاہ پہنچنے کی کیفیت کو یاد کرتے ہوئے کہا “صحرائے عرب کی گرمی ایک ننگی تلوار کی طرح آئی اور ہم کو کچھ بھی کہنے سے معذور کر گئی۔”
اس کی وہاں آمد تقریباً اتّفاقیہ ہی کہی جانی چاہیے۔ چار ماہ پہلے، مرکزی عرب کے علاقے حجاز کے حاکم امیر حسین نے برطانوی حکّام سے طول طویل خفیہ مذاکرات کے بعد ترکوں کے خلاف بغاوت کا آغاز کر دیا تھا۔ شروع میں تو کام ٹھیک جا رہا تھا۔ ترکوں کو اچنبھے میں ڈالتے ہوئے، حسین کے باغیوں نے جدّہ کے ساتھ ساتھ مقدّس شہر مکّے پر تو قبضہ کر لیا تھا، مگر پھر بغاوت ڈوب سی گئی۔ اکتوبر تک ترک مدینہ سمیت عرب کے اندرونی علاقوں پر مضبوطی سے قابض، اور بغاوت کو کچل دینے پر تلے بیٹھے تھے۔ جب لارنس کو پتا چلا کہ قاہرہ سے اس کے ایک دوست کو اس بحران کے سلسلے میں عرب بھیجا جا رہا ہے تو اس نے اپنی میز کرسی کی ملازمت سے عارضی چھٹی لے لی تاکہ اس کے ساتھ نتھی ہو سکے۔
دس دن کے اس قیام میں لارنس خود کو عرب بغاوت کے نصب العین میں پوری طرح ملوّث کرنے اور حسین کے میدانِ جنگ کے سالار اس کے تیسرے بیٹے فیصل کا بھروسہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مختصراً لارنس کو عارضی طور پر فیصل کے ساتھ برطانوی فوج کا رابطہ کار مقرّر کر دیا گیا۔ ایک تعیناتی جو جلد ہی مستقل ہو گئی۔
کارکیمش میں اپنا وقت عرب معاشرے کے قبائلی اور برادری نظام کے مشاہدے میں گزارنے کے سبب، لارنس نے الہامی طور پر قبائل کے نازک مذاکراتی عمل کو، جو بغاوت کے مقصد کے لیے قبایلی لیڈروں کی حمایت حاصل کے لیے لازم تھا، اخذ کر لیا۔ اس پر مستزاد، بیسویں صدی کے آغاز میں عرب میں جنگ کا ڈول ڈالنا انہیں بنیادی مسائل کے گرد گھوم رہا تھا — ایک حرکت کرتی ہوئی فوج کو اس کے جانوروں کے لیے دانہ پانی کہاں سے ملے گا – جو چودھویں صدی کے یورپ کی جنگوں کے تھے اور جن کا لارنس آکسفرڈ میں انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کر چکا تھا۔ بہت جلد فیصل نے اس نوجوان برطانوی افسر کو اپنے انتہائی معتمد مشیر کا درجہ دے دیا، اور لارنس نے ایک عرب شیخ جیسا لباسِ عبا پہنے حکمت عملی طے کرنے کی قبائلی مجلسوں میں اپنے لیے ایک معزّز جگہ بنا لی۔ برطانوی نیوی کی مدد سے عربوں نے بحر احمر کے ساحل پر واقع ترکی کے زیرِ نگیں قصبوں کے ایک سلسلے پر قبضہ کر لیا، جبکہ لارنس نے اندرون ملک حجاز ریلوے پر گورلّا حملوں کو منظّم کرنے کا کام کیا۔
لیکن فیصل کا نوجوان رابطہ افسر اپنے ذہن میں ایک احساس جرم جگانے والا راز بھی چھپائے بیٹھا تھا۔ قاہرہ میں گزارے ہوئے زمانے کے سبب لارنس ان بڑھا چڑھا کر کیے جانے وعدوں سے بخوبی واقف تھا جو برطانوی حکومت نے حسین سے عرب بغاوت کو ابھارنے کے ضمن میں کیے تھے: یعنی فی الواقع پوری عرب دنیا کے لیے مکمّل خود مختاری۔ ساتھ ہی ساتھ لارنس یہ بھی جانتا تھا کہ حسین سے معاہدہ پختہ کرنے کے چند ماہ کے اندر اندر برطانیہ نے اپنے جنگ کے سب سے بڑے حلیف فرانس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی کر لیا تھا۔ سائکس – پیکو معاہدے کے تحت مستقبل کی آزاد عرب قوم کو عرب کا غیر زرخیز علاقہ ہی دیا جانا تھا، جبکہ تمام کام کے علاقوں — عراق، عظیم تر شام – کو سامراجی برطانیہ اور فرانس کے بیچ بانٹا جانا تھا۔ جیسے جیسے لارنس مزید اور مزید عرب قبائل کو مستقبل کے آزاد عرب کے نصب العین کے لیے بھرتی کرتا جاتا تھا، اس کا ضمیر اس کو ان کبھی پورے نہ ہونے والے وعدوں کے ضمن میں بڑھ چڑھ کر کچوکے دیتا تھا، یہاں تک کہ لارنس اس ضمیر کے دباو¿کے آگے ٹوٹ گیا۔ اس کا پہلا بے وفائی کا اقدام، جو ہر لحاظ سے اپنے وطن سے غدّاری کے زمرے میں آتا ہے، یہ تھا کہ اس نے فیصل کو سائکس – پیکو کے وجود کے بارے میں مطلع کیا۔ جبکہ اس کا دوسرا اقدام اسے اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کی طرف لے گیا، یعنی عقبہ پر قبضہ۔