شہید میجر کی ننھی بیٹی نے ایک ایسا کام کردیا کہ جو بھی اسکو دیکھے گا بے اختیار اسکا ماتھا چوم لے گا

لاہور(مہرماہ رپورٹ)’’ بابا میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔یہ دیکھیں میں نے آپ کا فوٹو بنایا ہے۔کیسا ہے؟۔آپ کی بیٹی نے خود بنایا ہے ۔ ‘‘
یہ جملے پڑھتے ہی مجھے اس شہید میجر کی بیٹی پر بے تحاشا پیار آیا ہے۔کاش میرے پاس وہ اندمال ہوتا جو میں اسکے ان لفظوں اور آڑھی ترچھی لکیروں کے پیچھے چھپے ہوئے درد کو ختم کرسکتا ،جب سے میں نے اس ننھی سی بچی کی پینٹنگ دیکھی ہے میرا دل ہچکیاں لے رہا ہے ۔ہاتھ دعا کے لئے اٹھے ہیں کہ اے مالک ذوالجلال شہید کی بیٹی زہرہ فاطمہ کو ہمیشہ اپنی رحمت کی چھاؤں میں رکھنا ۔اپنے حبیب کے صدقے اس کو زمانے کی گرم ہواؤں سے بچالینا اور اسکو اپنے بابا کا فخر بنادینا ‘‘
سرگودھا کے سپوت میجرمحمد اکبر اعوان جب ارض پاک کے دشمنوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے تو انکی بیٹی زہرہ فاطمہ صرف دو ماہ کی تھی۔انہوں نے اپنی بیٹی کو جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا جب انہیں ارض پاک کی حفاظت کے لئے پہاڑوں کے اس پار جانا پڑا جہاں انہیں افغان دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ امریکی دہشت گردوں کا بھی مقابلہ کرنا تھا۔

میجر اکبراعوان نے 10 جون 2008 کو جام شہادت نوش کیاتھا۔وہ افغان بارڈرپر گورا پری پوسٹ پر تعینات تھے ۔یہ پاکستان کا علاقہ تھا جس پر افغان فوج کئی بار حملے کرچکی تھی۔نماز مغرب کے بعد جب میجر اکبر اعوان سپاہوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے عین اس وقت افغان سرحد کے اس پار سے امریکی فوج نے انکی پوسٹ پر میزائلوں سے حملہ کردیا ۔حملہ اتنا شدید اور اچانک تھا کہ انکے کچھ سپاہی موقع پر شہید ہوگئے۔اس دوران امریکویں نے دوسرا میزائل بھی داگ دیا جس سے پوسٹ تباہ ہوگئی ۔میجر اکبراعوان بھی شدید زخمی ہوگئے اوراسی عالم میں انہوں نے ایک زخمی سپاہی کو گھسیٹ کر محفوظ مقامتک پہنچایا اورجوانوں کو فوری دفاعی پوزیشن لینے کا حکم دیتے ہوئے پوسٹ خالی کرنے کا کہا ۔ اس دوران امریکی فوج نے تیسرا میزائل داغ دیا ۔یہ حملہ پہلے سے زیادہ خطرناک تھا۔میزائل کی اپنی تباہ کاری ہوتی ہے لیکن جب یہ پہاڑوں پر گرتا ہے تو ساتھ ہی چٹانوں کو بھی روئی کی طرح اڑا دیتا ہے۔ایک بھاری پتھر میجر اکبر اعوان کے سینے پر آگرااوران کا دایاں بازو اور دائیں ٹانگ جسم سے جدا ہوگئی۔ لیکن جوش شہادت سے انہوں نے ہیڈکوارٹر فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا۔انہوں نے اپنی قوت مجتمع کی اور سپاہیوں کو گرجدار اندا میں کہا’’ پوسٹ خالی کردو۔فوراً‘‘

سپاہی انکی طرف لپکے لیکن انہوں نے منع کردیا اور دوبارہ حکم دیا’’ میری فکر چھوڑو۔پوسٹ سے ہٹ جاؤ‘‘
سپاہیوں نے دیکھا کہ ان کے کمانڈر میجر اکبر اعوان کے چہرے پر بڑا ہی سکون ہے اور وہ بلند آواز میں سورہ یٰسین کی تلاوت کررہے تھے۔ پہاڑوں میں دور تک سورہ یٰسین پڑھنے کی آواز گونجتی رہی،اسی کیفیت میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا ۔شہادت کے دو روز تک بھی ان کا چہرہ سورہ یٰسین کے نور سے پُرنور اور مسکرا رہا تھا ۔اللہ اکبر۔۔۔زہرہ فاطمہ جانتی ہوگی کہ اسکے بابا ایک بڑے انسان تھے ،وہ زندہ ہیں اور اپنی بیٹی کی پیاری سی پینٹنگ دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔