جب زندگی شروع ہو گی

میں نے گردن گھما کر صالح کی طرف دیکھا۔ اس کا چہر ہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا اور وہ مستقل مجھے دیکھے جارہا تھا۔ میری توجہ اپنی طرف مبذول پاکر وہ بولا:
”عبد اللہ! تم میدان حشر کے احوال جاننے کے شوق میں اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آئے ہو تو ایسے بہت سے مناظر ابھی تمھیں اور دیکھنے ہوں گے۔ میں تمھیں مزید صدمات سے بچانے کے لیے ابھی سے یہ بات بتارہا ہوں کہ تمھاری بیوی، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں میں سے تمھاری ایک بیٹی لیلیٰ اور ایک بیٹا جمشید اسی میدان میں خوار و پریشان موجود ہیں۔“
صالح کی یہ بات سن کر میرے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے چکر سا آیا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ صالح میرے ساتھ ہی زمین پر خاموش بیٹھ گیا۔
میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر یہاں کسی کو کسی کی کوئی پروا نہیں تھی۔ کوئی کیوں بیٹھا ہے؟ کیوں کھڑا ہے؟ کیوں لیٹا ہے؟ کوئی کیوں رو رہا ہے؟ کیوں چیخ رہا ہے؟ کیوں ماتم کررہا ہے؟ یہ کسی کا مسئلہ نہیں تھا۔ آج سب کو اپنی ہی پڑی تھی۔ ایسے میں کوئی رک کر مجھ سے میرا غم کیوں پوچھتا؟ لوگ ہمارے پاس سے بھی بے نیازی سے گزرتے چلے جارہے تھے۔ کچھ دیر بعد میں نے صالح سے پوچھا:
”اب کیا ہوگا؟“
”ظاہر ہے حساب کتاب ہوگا۔ پھر اس کے بعد ہی کوئی حتمی بات سامنے آئے گی۔“
اس وقت شدید گرمی سے چہرے تپ رہے تھے۔ ہر طرف گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ لوگ گروہوں کی شکل میں اور تنہا ادھر سے ادھر پریشان گھوم رہے تھے۔ میری متلاشی نظریں اپنے کسی شناسا کو تلاش کررہی تھیں، مگر کہیںکوئی شناسا صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اچانک ایک طرف سے ایک لڑکی نمودار ہوئی اور قبل اس کے کہ میں اس کی شکل دیکھ پاتا وہ میرے قدموں پر گرکر بے بسی سے رونے لگی۔ میں نے قدرے پریشانی سے صالح کی سمت دیکھا۔
اس نے سپاٹ لہجے میں لڑکی سے کہا:
”کھڑی ہوجاو!“
اس کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ لڑکی بھی سہم کر کھڑی ہوگئی۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ یہ چہرہ خوف، اندیشے اور غم کے سایوں سے سیاہ پڑچکا تھا۔ چہرے اور بالوں پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔ پیاس کے مارے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں اور وحشت زدہ آنکھوں میں خوف و دہشت کا رنگ چھایا ہوا تھا۔
کرب کی ایک لہر میرے وجود کے اندر اترگئی۔ میں نے اس چہرے کو جب پہلی دفعہ دیکھا تھا تو بے ساختہ چشم بد دور کہا تھا۔ میدہ شہاب گورا رنگ،کھڑا کھڑا ناک نقشہ، کتابی چہرہ، گلابی ہونٹ،نیلی آنکھیں اور گہرے سیاہ بال۔ خدا نے اس چہرے کو قدرتی حسن سے اس طرح نوازا تھا کہ زیب و زینت کی اسے حاجت نہ تھی۔ مگر آج یہ چہرہ بالکل بدل چکا تھا۔ ماضی کا جمال روزِ حشر کے حزن و ملال کی تہہ میں کہیں دفن ہوچکا تھا۔ سراپا حسرت، سراپا وحشت، سراپا اذیت اور مجسم ندامت یہ وجود کسی اور کا نہیں میرے چہیتے بیٹے جمشید کی بیوی اور اپنی بڑی بہو ھما کا تھا جو حسرت و یاس کی ایک زندہ تصویر بن کر میرے سامنے کھڑی تھی۔
”ابو جی مجھے بچالیجیے۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ یہاں کا ماحول مجھے مار ڈالے گا۔ میں نے ساری زندگی کوئی تکلیف نہیں دیکھی، مگر لگتا ہے کہ اب میری زندگی میں کوئی آسانی نہیں آئے گی۔ اللہ کے واسطے مجھ پر رحم کیجیے۔ آپ اللہ کے بہت محبوب بندے ہیں۔ مجھے بچالیجیے۔۔۔ “
یہ کہتے ہوئے ھما ہچکیاں لے کر رونے لگی۔
”جمشید کہاں ہے؟“، میں نے ڈوبے ہوئے لہجے میں دریافت کیا۔
”وہ یہیں تھے۔ وہ بھی آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے اور اتنے سارے لوگ ہیں کہ کسی کو ڈھونڈنا ناممکن ہے۔ ان کا حال بھی بہت برا ہے۔ وہ مجھ سے بہت ناراض تھے۔ انہوں نے ملتے ہی مجھے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ تمھاری وجہ سے میں برباد ہوگیا۔ ابو میں بہت بری ہوں۔ میں خود بھی تباہ ہوگئی اور اپنے خاندان کو بھی برباد کردیا۔ پلیز مجھے معاف کردیں اور مجھے بچالیں۔ اللہ کا عذاب بہت خوفناک ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کرسکتی۔“
ھما فریاد کررہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوو¿ں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں۔ میرے دل میں پدری محبت کا جذبہ جوش مارنے لگا۔ وہ بہرحال میری بہو تھی۔ مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، صالح اسی سپاٹ لہجے میں بولا:
”یہ بات تمھیں دنیا میں سوچنی چاہیے تھی ھما بی بی۔ آج تمھاری عقل ٹھکانے آگئی ہے۔ مگر یاد ہے دنیا میں تم کیا تھیں؟ تمھیں شاید یاد نہ آئے۔۔۔ میں یاد دلاتا ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے صالح نے اشارہ کیا اور یکلخت ایک منظر سامنے نظر آنے لگا۔ یہ جمشید اور ھما کا کمرہ تھا۔ مجھے لگا کہ میرے اردگرد کا ماحول غائب ہوچکا ہے اور میں اسی کمرے میں ان دونوں کے ہمراہ موجود ہوں اور براہ راست سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔