سفید ماربل کا 139فٹ 6انچ اونچا یہ سمٹ مینار 1974کی دوسری اسلامی سربراہی کانفرس کی یادگار ہے۔ ”سمٹ“ کا مطلب ”چوٹی کانفرنس“ ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے اسلامی حکمران شرکت کرتے ہیں۔ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس یا سمٹ 1969ءمیں مراکش کے دارالحکومت رباط میں منعقد ہوئی تھی۔ 1974ءکو لاہور میں ہونے والی چوٹی کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی اس موقع پر دنیا کے تقریباً سبھی اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ان میں شاہ فیصل، معمر قذافی، یاسر عرفات، عیدی امین اور دیگر حکمران شامل تھے۔ لاہو رمیں یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے سب سے بڑی اور اہم کانفرنس تھی اس کا انعقاد پنجاب اسمبلی میں ہوا تھا اس کی تیاری میں کئی ماہ صرف ہوئے اور پورے لاہو رمیں ایک جشن کا سا سماں تھا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کے بعد پاکستان کی شناخت اور اہمیت اسلامی دنیا پر مزید بڑھ گئی تھی لوگ پاکستان کے وجود سے پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر واقف ہوئے تھے۔
دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی یاد کے طور پر اسمبلی ہال کے سامنے واقع پارک میں ایک مینار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ماہرین تعمیرات سے گفتگو بھی کی۔ میناروں کے ڈیزائن کے مقابلے میں ترکی کے ماہر تعمیرات ویدات الود کے بنائے ہوئے ڈیزائن کو سراہا گیا۔ یا د رہے کہ شاہ فیصل مسجد، اسلام آباد کا نقشہ بھی ویدات الود نے ہی تیار کیا۔ دونوں عمارات میں ترک طرز تعمیر کا رنگ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسلامک سمٹ مینار کے نقشے کے متعلق ویدات کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مینار کے ڈیزائن کو تیار کرتے ہوئے اس جذبے کو پیش نظر رکھا کہ یہ پاکستانی ثقافت و تہذیب کا آئینہ دار ہی نہ ہو بلکہ لاہور میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شریک اسلامی ممالک کی تہذیب و ثقافت کو بھی اس تعمیر میں سمو دیا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمٹ مینار کی تعمیر میں مغلیہ، ترکی، عربی، افریقی اور یورپی فن تعمیر کو شامل کیا گیا ہے مینار کو اسلامی طرز دینے کی بھر کوشش کی گئی ہے تاکہ اسلامی کانفرنس کی حقیقی یادگار معلوم ہو۔
اسلامی سمٹ مینار کا سنگ بنیاد کانفرنس کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 22فروری 1975ءکو رکھا گیا اس سلسلے میں ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی جس میں شمولیت کے لیے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، لاڑکانہ سے خصوصی طور پر لاہور پہنچے تھے۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں 29ممالک کے سفیروں نے شرکت کی اس موقع پر حکومت پاکستان نے خصوصی سکے بھی جاری کئے تھے ایک روپے کا یادگاری سکہ تانبے اور نکل کا تھا۔ اس کا وزن 7.5گرام تھا اور اس کے ایک جانب مینار کی شبیہ اور کانفرنس کا طغرا بنا ہوا تھا۔ یہ طغرا کانفرنس کے دوران سرکاری طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ جو بالترتیب سونے اور چاندی کے نکل شدہ تھے سونے چاندی کے سکے سٹیٹ بنک اور تانبے کے نکل شدہ سکے نیشنل بنک آف پاکستان نے جاری کیے تھے۔ افتتاحی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ریڈیو پاکستان نے براہ راست نشر کیا اس موقع پر اس وقت کے وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت شیخ رشید نے مینار کا مختصر تعارف پیش کیا۔
تعمیر کے کام کا سلسلہ جولائی 1975ءمیں شروع ہوا۔ یہ پراجیکٹ نیشنل کنسٹرکشن کمپنی کو سپرد کیا گیا اس پر ترک اور پاکستانی انجینئروں کے علاوہ ملک بھر سے 200سنگ تراشوں اور 500کارکنوں نے شب و روز محنت کی۔ سید امجد حسین جعفری نے پراجیکٹ مینجر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ مینار کی تعمیر کے لیے ترکی سے مخصوص ٹائلیں اور وادی سون سے 1000ٹن سرخ پتھر منگوایا گیا۔ عمارت کا رقبہ تقریباً ڈھائی ہزار مربع میٹر ہے باقی رقبے پر گھاس کے قطعات ہیں مینار کا حجم 5مربع فٹ ہے اس کی تعمیر میں کنکریٹ او ر لوہے کا استعمال کیا گیا ہے اور باہر سنگ مر مر لگا ہوا ہے جس پر 20فٹ اونچا لفظ ”اللہ اکبر“ کندہ ہے مینار کی اونچائی فٹ ہے۔ محرابی کمروں کے دروازے نہیں ہیں بقول چیف آرکیکٹ ”ہال کمروں کو اس لیے بے در رکھا گیا کہ اسلام کے دروازے ہر فرد وبشر پر کھلے ہیں اور تا قیامت کھلے رہیں گے مینار کے ہالوں میں آنے کے لیے ایک سیڑھی رکھی گئی ہے جو اسلام کے یکساں راستے کی علامت ہے۔ مینار کے ساتھ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت کے مطابق ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا یہ ساری عمارت اس لیے زیر زمین رکھی گئی ہے کہ آس پاس کی عمارتوں کا حسن متاثر نہ ہو۔ زمین سے اُٹھنے والے بڑی مخروطی پتھر سے مینار اوپر کو اٹھتا ہے اس میں تالاب بنایا گیا ہے یہ مخروطی پتھر اور تالاب ایک چوکور راستے کی مانند کھڑے ہیں جس پر مخروطی چھت ہے مینار کی تعمیر کے سلسلے میں آفات سماوی آنے والے طوفانوں اور آندھی کی تباہ کاریوں کو بطور خاص مد نظر رکھا گیا ہے مینار بنانے والوں کا دعوی ہے کہ اگر زلزلہ او رطوفان ایک ہی سمت سے آئیں اور طوفان کی رفتار 200میل فی گھنٹہ ہو اور زلزلے کے جھٹکے ( خدا نخواستہ) مکانات تو زمین بوس کر دیں تو بھی یہ مینار نقصان سے بچا رہے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مینار کی تعمیر کے سلسلے میں مغل عہد کی کاریگری کے طریقے پہلی بار دوبارہ آزمائے گئے یوں ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے مینار کی تعمیر کا کام بیس ماہ میں مکمل ہوگیا اور یہ عالم اسلام کے اتحاد کی علامت بن کر اُبھرا۔ مینار کے تہہ خانے میں چار کمرے ہیں جنہیں اسلامی ممالک کے میوزیم کی شکل دی گئی ہے اس میں اسلامی ملکوں سے متعلق اشیاءشیشے کے شو کیسوں میں رکھی گئی ہیں یہیں چاروں کونوں میں انتظامیہ کے دفاتر ہیں دو ہالوں میں لیکچر دینے کے لیے نشتوں اور اور ڈائس کا انتطام بھی ہے۔ شیشے کے شو کیسوں میں جو اشیاءسجائی گئی ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے مصر کی مورتیاں، ملائشیا، مور یطانیہ، فلسطین کی اشیاءبیت المقدس کا پتھر سے بنا ماڈل، پی ایل او کے مجاہدوں کے ملبوسات کے نمونے، فلسطین کا دھاتی نقشہ، ایران کی مورتیاں اور شاہی طغرا، قطر عدن اور عرب ممالک کے بھاری بھر کم چاندی کے زیورات، انڈونیشا کی مورتیاں، ناخن نگاری کے پاکستانی نمونے، ترکی کے ٹیکسٹائل اور ٹائلوں کے ڈیزائن، اومان کی کشتی کا ماڈل، چادریں اور گھوڑے کی زین، صومالیہ کی ٹوپیاں، لبنان کے ظروف اور چاقو، اومان کی روایتی زیورات اور ظروف موریطانیہ کا قالین، سعودی عرب کی تنکوں کی چٹائی،افغانستان کی پینٹنگز، ملائیشیا کا تاریخی پتھر جس پر قدیم زبان کندہ ہے ترکی و عراق کے قالین، افغانی قالین، تغلق، سوری اکبر اور شاہجہان کے دور کے سکے، مثنوی مولانا روم کا نسخہ ابن سینا کی کتاب ”القانون“ کا نسخہ، خطاط محمد نعیم لاہور کا خط نسخ میں لکھا 180ھ کا طلائی قرآنی نسخہ اور خانہ کعبہ کے غلاف کا حصہ شامل ہے یہاں مینار کا ماڈل بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مینار سے متصل پارک میں انگریز دور کی یادگار ایک برجی یا کسنیوپی ہے کبھی اس میں ملکہ وکٹوریہ کا بت رکھا ہوتا تھا قیام پاکستان کے بعد ملکہ کے بت کو یہاں سے ہٹا کر لاہور عجائب گھر میں منتقل کر دیا گیا۔ اسکے بعد عرصہ تک برجی خالی رہی۔ سمٹ مینار تعمیر ہوا تواس کی مناسبت سے ایک مخیر خاتون عائشہ بیگم خالد مرزا نے 27رمضان المبارک 1401ھ 1980ءمیں قرآن پاک کا لکڑی کا ایک ماڈل لگوایا جس پر طلائی الفاظ ابھرئے ہوئے ہیں۔
بعد ازاں 1981ءمیں اس ماڈل کو گردو غبار سے محفوظ رکھنے کے لیے بیگم ثریا شاہ محمد چوہدری نے اس پر شیشے کا بکس لگوایا۔ اس مینار کا ایک حصہ تالاب کی شکل میں سڑک کے پار تیار کیا گیا ہے نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنا ہوا یہ تالاب گول شکل کا ہے اس میں چھوٹے چھوٹے فوارے نصب ہیں سنگ مرمر کی ان سلوں پر ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر جو انہوں نے 22فروری 1974ءکو کانفرنس کے موقع پر کی تھی عربی فارسی اردو اور انگریزی میں درج ہے۔ کتبوں کا سنگ مر مر اٹلی سے منگوایا تھا اور ایل ڈی اے نے اس کی تیاری پر تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے صرف کیئے۔ تالاب کی تیاری ڈیڑھ ماہ میں عمل میں آئی اس پر یہ عبارت کندہ ہے۔ ”صدیوں سے ہم بھی تقدیر بدلنے کی آس لگائے بیٹھے تھے اب وہ منزل آپہنچی ہے ایک نئی صبح کی آمد اور اب کوئی موہوم امید نہیں ہے اب یہ ضروری نہیں کہ غربت و ناداری ہمارا مقسوم ٹھہرے یا ذلت و خواری کو ہم اپنا ورثہ سمجھیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دنیا میں ہم محض جہالت اور ناخواندگی کی وجہ سے پہچانے جائیں۔“