اٹھارویں صدی کے وسط میں انگریزوں نے پنجاب میں لاہور سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر کراچی جانے والی ریلوے لائن کے ساتھ ایک جنگل لگایا۔ جس سے ریل کے ڈبے اور ریلوے لائن کے سیپلر بنانا اور کوئلہ حاصل کرنا مقصود تھا۔ اس جنگل کا نام دو ڈاکووں کے نام سے مشہور ہے چھانگا مانگا، دونوں سگے بھائی تھے اور اس جنگل میں رہتے تھے۔ یہ جنگل دنیا کے اتنے وسیع و عریض رقبے پر انسانی ہاتھ کے لگائے ہوئے جنگلوں میں سے ایک ہے یہ 1866ءمیں لگانا شروع کیا گیا اور اس کا کل رقبہ 12510ایکڑ ہے۔
چھانگا مانگا جنگل کا موسم لاہور کے نزدیک ہونے کی وجہ سے لاہور کے موسم سے بہت ملتا جلتا ہے مگر گرمیوں میں یہاں دوپہر کو مرطوبیت بہت زیادہ ہوتی ہے اور شام کافی خوشگوار۔ گرمیوں میں اوسطاً درجہ حرارت 240اور سردیوں میں 10سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے اور بارش سالانہ تقریباً 400 ملی میٹر ہوتی ہے یہاںپورے ذخیرہ کو بہترین طریقے پر منظم کرنے کے لیے اس چھوٹے چھوٹے مختلف کمپارٹمنٹس میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تعداد 232ہے اور اوسطاً ہر ایک رقبہ قریباً 50ایکڑ پر مشتمل ہے۔ ہر سال قریباً 6000اونس ریشم کے کیڑوں کا بیج فروری سے اپریل تک پالا جاتا ہے جس کا انحصار توت کے پتوں پر ہوتا ہے اور وہ جنگل سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ 6یا 7ہفتوں میں تقریباً 11/2کروڑ روپے کا ریشم فیکٹریوں کو سپلائی کیا جاتا ہے توت کے پتوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر لاہور سرکل میں ایک سکیم بھی جاری ہے۔
آج جبکہ مشینی دور میں آوٹ ڈور تفریح کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ آج کل ایک تو ہر شخص کی زندگی نہایت مصروف اور تیز تر ہوگئی ہے اور انواع و اقسام کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں اپنے آپ کو صحت مند اور دماغ کو ترو تازہ رکھنے کے لیے ہر ایک کو گھر سے باہر تفریح کے لیے نکلنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ چھانگا مانگا لاہور کے نزدیک اور برلب پکی سڑک ہونے کی وجہ سے تفریح کی غرض کے لیے آنے والے سیاحوں میںبہت زیادہ مقبولیت رکھتا ہے یہاں کے سبزہ زار، صحت مند سر سبز درخت حسین نظارے اور سب سے بڑھ کر آلودگی سے پاک اور پرسکون ماحول سیاحوں کے لیے انتہائی دلکشی رکھتا ہے۔
اس جنگل میں شیشم، شہتوت، بکائن، پھلاہی، پاپلر، سمبل اور سفیدے کے درختوں کی تعداد زیادہ ہے یہاں کی شیشم پورے پاکستان میں مشہور ہیں اس کی لکڑی بہت مضبوط اور قیمتی ہوتی ہے شہتوت کی لکڑی سیالکوٹ بھیجی جاتی ہے جس سے کھیلوں کا سامان تیار ہوتا ہے۔ پاپلر اور سمبل سے دیا سلائی، پلائی وڈ اور کاغذ تیار ہوتا ہے سمبل کے درخت سے روئی بھی حاصل ہوتی ہے جو تکیئے گولے اور صوفے سیٹ وغیرہ بنانے کے کام آتی ہے شہتوت کے پتے ریشم کے کیڑے پالنے اور اس کی شاخیں ٹوکریاں بنانے کے کام آتی ہیں۔ محکمہ جنگلات گھاس ایندھن شہتوت کے پتوں اور چھڑیوں کے پرمٹ جاری کرتا ہے اس جنگل سے شہد کے ٹھیکے، تفریحی مقامات کے ٹھیکے اور لکڑی سے سالانہ کروڑوں روپے سے زائد کی آمدن ہوتی ہے۔ چھانگا مانگا جنگل میں حکومت نے مختلف سکیمیں شروع کی ہیں سیر یکلچر ڈیپارٹمنٹ نے جاپانی شہتوت لگائے ہیں یہ ریشم کے کیڑے پالنے کے لیے پتے حاصل کرنے کا منصوبہ ہے یہ جاپانی شہتوت موسم بہار میں بہت جلد پھل دینا شروع کر دیتے ہیں علاوہ ازیں یہاں پر بانس بھی بغرض تحقیق کاشت کیا گیا ہے یہاں پاپلر ورکنگ سرکل کے تحت وسیع پیمانے پر پاپلر کی کاشت کی گئی ہے اس وقت تقریباً دو ایکڑ پر بیڑی پتا موجود ہے کچھ رقبہ پر السی اور سونف بھی کاشت کی گئی ہے یہاں تقریباً تمام قسم کے درختوں کی نرسری لگائی گئی ہے جہاں سے لوگوں کو کم قیمت پر قلمیں اور پودے فراہم کیے جاتے ہیں۔
جنگل کا کل رقبہ بارہ ہزار پانچ سو دس ایکڑ پر مشتمل ہے ایک سال کے دوران تقریباً پانچ، چھ سو ایکڑ درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے کٹائی کے بعد لکڑی کو ڈپو میں لایا جاتا ہے۔ تقریباً بیس سال کے بعد پہلے حصے پر دوبارہ کٹائی کی باری آتی ہے کٹائی والا رقبہ خالی ہونے کے بعد اس پر دوبارہ پودے لگا دیئے جاتے ہیں پہلے پہل جب پودے لگائے جاتے ہیں تو ان کا درمیانی فاصلہ بہت کم رکھا جاتا ہے پھر ہر پانچ سال کے بعد اس میں ناکارہ اور کمزور درختوں کو کاٹ کر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ یہ سارا کام ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت جاری رہتا ہے۔ لکڑی کو خشک کرنے کے لیے یہاں ایک پلانٹ نصب کیا گیا ہے جہاں لکڑی کو ایک خاص درجہ تک حرارت دے کر پکایا جاتا ہے پھر اس لکڑی میں کوئی دراڑ وغیرہ نہیں بن سکتی۔ اسے سیزن کرنا کہتے ہیںاور اس طرح لکڑی بہت مضبوط ہو جاتی ہے ہر ماہ کی یکم اور پندرہ تاریخ کو لکڑی کی نیلامی ہوتی ہے۔
انتظامی لحاظ سے جنگل کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں بلاک کا نام دیا گیا ہے ہر بلاک کا انچارج فارسٹر بلاک افسر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی چار یا پانچ فاریسٹ گارڈ ہوتے ہیں۔ درختوں کو لگانے، کانٹ چھانٹ کرنے اور پانی دینے کے لیے بیلدار ہوتے ہیں ان سب کی رہائش کے لیے ہر بلاک میں کالونیاں ہوتی ہیں ڈی ایف او صاحب کے دفتر کے عملہ کے لیے ایک الگ کالونی ہے۔ملازمین کے لیے ایک فاریسٹ ڈسپنری بھی موجود ہے۔ چھانگا مانگا کا جنگل نہ صرف لکڑی کی فراہمی کا یک بہترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک بہترین سیر گاہ کی حیثیت سے پورے ملک میں بے پناہ شہرت کا حامل ہے مہتابی جھیل اور پارک اس کی اصل وجہ شہرت ہیں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یہاں لوگ سیر کرنے آتے ہیں جن میں غیر ملکی سیاح بھی ہوتے ہیں جنگل میں سیاحوں کے لیے موٹل اور ریسٹ ہاوسز بھی موجود ہے فور سٹار ہوٹل کے برابر فاریسٹ لاج بھی بنایا گیا ہے فاریسٹ لاج کے نزدیک کوئی آبادی نہیں یہاں خالصتاً جنگل کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ فاریسٹ لاج سے ملحقہ کھیلنے کے لیے گراونڈ، سر سبز و شاداب پھولوں کی کیاریاں لمحات کو پرسکون اور خوشگوار بناتی ہیں ہوٹل اور ریسٹ ہاوسز کے اردگرد بھی گھاس کے خوبصورت پلاٹ کثرت سے ہیں۔
اس جنگل کے درمیان سے ایک نہر گزرتی ہے جسے ”مین برانچ لوئر“ کہتے ہیں جنگل کو بھی اسی نہر کا پانی سیراب کرتا ہے اسی نہر کے کنارے 1962ءمیں ایک مہتابی جھیل بنائی گئی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے جھیل کی شکل چاند جیسی بنائی گئی ہے اس نہر کا پانی جھیل میں ڈالا جاتا ہے لیکن ہنگامی صورتحال کے لیے ایک ٹیوب ویل بھی لگایا گیا ہے جھیل کی سیر کرنے والوں کے لیے دو چیزیں از حد دلچسپی کا باعث ہیں ایک تو جھیل پر جھولا نما پل اور دوسرا جھیل کے درمیان پانی میںکھڑا دو منزلہ مہتاب محل، کناروں پر سدا بہار درخت ہیں جن کی شاخیں جھک کر جھیل کے پانی کو چھوتی ہیں اور حسین منظر پیش کرتی ہیں جھیل کے سبزی مائل پانی پر تیرتی ہوئی سفید بطخیں اور بھلی لگتی ہیں جھیل میں چپو اور موٹر والی کشتیاں سیاحوں کے لیے مزید تفریح مہیا کرتی ہیں جھیل کے پاس کار پارکنگ اور چائے خانے، بچوں کے کھیلنے کے لیے جھولے بھی موجود ہیں جھیل کے پاس ایک خوبصورت مسجد بھی بنائی گئی ہے چھ سات کے قریب لاگ ہٹ بھی تعمیر کیے گئے ہیں چھوٹی ٹرام ( ریل گاڑی) جنگل کی سیر میں مددگار ثابت ہوتی ہے سڑک کے کنارے نہر اور ٹرام لائن کے ساتھ ساتھ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے سفیدے اور پاپلر کے درخت ایک سیدھ میں کھڑے سیر کرنے والوں کا استقبال کرتے ہیں جھیل کے کنارے ایک خوبصورت تیراکی کا تالاب بھی ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے بھی جنگل کو خوبصورت بنانے میں بھر پور حصہ لیا ہے جھیل کے قریب ٹرام لائن کے ساتھ ایک مرکز نسل کشی بنایا گیا ہے جس میں ہرن، نیل گائے، چنکارہ، اڑیال، پاڑہ، ہرن وغیرہ موجود ہیں۔انہیں بالکل جنگلی ماحول فراہم کیا گیا ہے مرکز نسل کشی تقریباً 5ایکڑ رقبے پر محیط ہے محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے تقریباً دو سو کے قریب فیز نٹ ( جنگلی مرغ) پال کر جنگل میں آزاد کیے تاکہ پاکستان میں فیز نٹ کی نسل کو بڑھایا جاسکے اس وقت جنگل میں ایک اندازے کے مطابق چودہ یا پندرہ نیل گائے موجود ہیں علاوہ ازیں خوگوش، تیتر، تلیئر اور بٹیر وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں تلیئر مارچ اپریل میں ایشیائے کوچک سے چھانگا مانگا آتے ہیں یہ مہمان پرندے ہیں کافی تعداد میں مور بھی موجود ہیں یہاں دو تین قسم کے باز بھی پائے جاتے ہیں۔ 1975-76کے سیلاب کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں جنگلی سور بھارت سے پاکستان میں داخل ہوئے اور اس جنگل کو اپنی پناہ گاہ بنا لیا یہ جنگل میں ٹولیوں کی شکل میں پھرتے نظر آتے ہیں اور اردگرد کی فصلوں کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں ان سوروں کو تلف کرنے کے لیے محکمہ تحفظ جنگلی حیات اور محکمہ زراعت پنجاب کو اپنی کاروائیاں جلد از جلد عمل میں لانی چاہئیں۔ ملک میں سوئی گیس کی فراہمی سے قبل چھانگا مانگا ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کا بڑا ذریعہ تھا 1960ءمیں اس جنگل کو قومی پارک کا درجہ دے کر اسے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا اس مقصد کے لیے یہاں کچھ تبدیلیاں او راضافے بھی ہوئے۔
جنگل کے نام کی نسبت سے بتایا جاتا ہے کہ 18ویں صدی میں دو بھائی چھانگا مانگا اس جنگل میں رہتے تھے برطانوی حکومت انہیں ڈاکو قرار دیتی تھی تاہم عام لوگوں میں ان کی بہت قدر تھی وہ امیروں کو لوٹ کر مال غریبوں میں تقسیم کر دیتے تھے وہ سامراجی حکومت کے خلاف کاروائیوں میں بھی شامل رہے مقامی لوگ انہیں ہیرو کی طرح خیال کرتے تھے یہی نہیں یہ لوگ ان کے متعلق لوک گیت بھی گاتے تھے کہتے ہیں کہ انہیں میں سے ایک بھائی نے غریبوں کے لیے ایک گاوں بسایا تھا اور اس کا نام مانگا منڈی رکھا تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ چھانگا مانگا کا کل رقبہ 12510-39ایکڑ ہے اس میں رکھ شاہ اور موجوکی کا رقبہ 1671ایکڑ ہے۔ 1921میں یہاں منی ایچر ریل یا چھوٹی ٹرام چلائی گئی تھی۔ اس کی پٹری 24انچ چوڑی ہے مستقل پپڑی کی چوڑائی ساڑھے سولہ میل اور عارضی پپڑی چار میل ہے اسے چلانے کے لیے ڈیزل اور بھاپ دونوں انجنوں سے چلایا جاتا ہے یہ 25بوگیاں کھینچ سکتے ہیں جن پر بیک وقت 35ٹن لکڑی لادی جاسکتی ہے اس ریل کا مقصد لکڑی کی بار برداری تھا آج کل اسے سیاحوں کو جنگل کی سیر کرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جنگل کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے والی مہتابی جھیل تقریباً 70ستر سال کے لیے بنائی گئی تھی چھانگا مانگا میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔جنگل کی سیر کے دوران ایک چیز جو خاص طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہاں لکڑی کا بے انتہا استعمال کیا گیا ہے پکی، عمارتیں، شلسٹرز اور دیگر اشیاءلکڑی سے بنی ہیں جس سے جنگل کا حسن متاثر ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوا ہے۔
بے پناہ آبادی، گاڑیوں کے دھوئیں، کارخانوں کی زہر اگلتی چمنیوں نے فضائی ماحول کو بہت آلودہ کر دیا ہے جس سے کرہ ارض کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (اوزون) میں سوراخ ہوگئے ہیں یہ انسانی جسم کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اس فضائی جھلی سے سورج کی کرنیں چھن کر آتی ہیں اگر سورج کی کرنیں براہ راست انسان پر پڑیں تو کینسر جیسی موذی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے پوری دنیا فضائی جھلی کے سوراخوں کو پر کرنے کی فکر میں ہے جس کا حل صرف صاف ستھرہ ماحول ہے ہمیں چاہیے کہ ماحول کو صاف ستھرہ رکھیں زیادہ سے زیادہ سبزہ زار درخت لگائیں کسی بھی ملک کا 26فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا بے حد ضروری ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت صرف پانچ فیصد رقبہ پر جنگلات ہیں درخت دفاع میںبھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔اور جنگلی حیات کو بھی تحفظ ملتا ہے پاکستان کے ہر فرد کو کم از کم ایک سال میں ایک درخت ضرور لگانا چاہیے درخت لگانے سے درخت کی حفاظت کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
چھانگا مانگا کا اعلان بطور ریزرو جنگل بذریعہ نوٹیفیکشن نمبر 115مورخہ 6مارچ1979زیر دفعہ 34ایکٹ جنگل 1878میں عمل میں آیا۔ نہری پانی کی سہولت مہیا ہونے کے بعد 1886میں باقاعدہ نہری ذخیرہ بنانے کے پروگرام پر عمل شروع کیا گیا ہے 1886تا 1888ءتک صرف شیشم لگائی گئی جس کا مقصد صرف ایندھن حاصل کرنا تھا۔ مقامی لوگ توت کے پتوں سے ہر سال تقریبا ً 2500اونس ریشم کے کیڑوں کے انڈے پالتے ہیں جس سے تقریباً چار ہزار من خام ریشم حاصل ہوتا ہے۔