جب زندگی شروع ہو گی

مجھے سب سے پہلے لیلیٰ نے دیکھا۔ وہ باقی گھر والوں کے ساتھ حوض کے کنارے ایک نشست پر بیٹھی تھی، مگر شاید اس کی متلاشی نگاہیں مجھے ہی ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس نے مجھے دور سے دیکھ لیا تھا۔ وہ نشست سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ وہ کچھ بول نہیں رہی تھی بس روئے جارہی تھی۔ میں دیر تک اس کا کندھا تھپکتا رہا۔ پھر میں نے اسے خود سے جدا کیا اور اس کی شکل دیکھنے لگا۔
میں نے آخری دفعہ جب اسے میدان حشر میں دیکھا تھا تو وہاں وہ بہت بدحال تھی۔ مگر اب میری بیٹی پریوں کی مانند حسین لگ رہی تھی۔ اسے یوں دیکھ کر میں نے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا شکریہ ادا کیا، جس کی بنا پر آج وہ مجھ سے آملی تھی۔ میں نے اس سے کہا:
”لیلیٰ! مصیبت اور تکلیف کے دن ختم، اب خوشی اور راحت ہمیشہ تمھارا مقدر رہے گی۔“
اتنے میں باقی لوگ بھی میرے پاس آچکے تھے۔ میری دیگر دو بیٹیاں عارفہ اور عالیہ دونوں ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھیں۔ جبکہ میرا چھوٹا بیٹا انور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ میں نے سارے بچوں کو گلے لگایا۔ پھر ان سے کہنے لگا:
”میرے بچوں مجھے تم پر فخر ہے۔ تم نے دنیا کی رنگینیوں کے اوپر اپنے رب کے وعدوں کو ترجیح دی۔ تم نے حقیر دنیا کے عارضی فائدوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کی زندگی کا انتخاب کرلیا۔ آج تمھاری ابدی کامیابی کا دن ہے۔ آو اس دن کی کامیابی کا آغاز جام کوثر ایک ساتھ پی کر کریں۔“
یہ کہتے ہوئے میں قریبی موجود ایک نشست پر بیٹھ گیا۔ باقی لوگ بھی میرے اردگرد بیٹھ گئے۔ میں نے بیٹھتے ہی لیلیٰ سے کہا:
”بیٹا میں تمھاری روداد سننا چاہتا ہوں، مگر پہلے انور، عالیہ، عارفہ تم بتاو! تم لوگ خیریت سے اپنی ماں تک پہنچ گئے تھے؟“
تینوں نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ اول وقت ہی سے محفوظ تھے اور مختلف فرشتوں نے روز حشر کے آغاز ہی پر انہیں بحفاظت عرش کے سائے تلے پہنچادیا تھا۔ ان کے بعد لیلیٰ بولی:
”ابو میں نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔ میں صور کی آواز سن کر جب قبر سے نکلی تو عجیب وحشت کا عالم تھا۔ سب لوگ ایک ہی سمت بھاگے جارہے تھے۔ اس وقت کسی کے جسم پر بھی کپڑے نہیں تھے، مگر خوف، دہشت اور پریشانی کا عالم یہ تھا کہ کوئی کسی کو نہ دیکھ رہا تھا اور نہ کسی کو اپنی بے حجابی کی پروا تھی۔ میں نے آپ سب لوگوں کو بہت تلاش کیا، مگر آپ لوگوں کا کوئی اتا پتہ نہ تھا۔ لاچار ہوکر میں بھی اسی سمت دوڑنے لگی جس سمت سب لوگ بھاگے جارہے تھے۔
خبر نہیں اس حال میں مجھے چلتے چلتے کتنا وقت گزرگیا۔ لگتا تھا کہ ہر کسی کو ایک منزل پر پہنچنے کا جنون سوار ہے۔ لوگ دہشت زدہ تھے، پریشان تھے، مگر مجبور تھے کہ ایک ہی سمت بھاگتے چلے جائیں۔ “
میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا:
”یہ صور اسرافیل کا اثر تھا کہ ہر شخص میدان حشر کی طرف دوڑنے پر خود کو مجبور پاتا تھا۔ لوگ دنیا کے کسی حصے میں بھی تھے، مگر سب کا رخ ایک ہی سمت کردیا گیا تھا۔“
”جی ہاں ابو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ سب لوگ ایک ہی سمت میں جارہے تھے۔ چلتے چلتے میرے پاوں میں چھالے پڑگئے۔ ان سے خون نکلنے لگا۔ تھکان سے جسم ٹوٹ رہا تھا، مگر اندر کوئی چیز تھی جو رکنے نہیں دیتی تھی۔ پیاس کے مارے حالت خراب تھی، مگر پانی کا قطرہ تک کہیں نہ تھا۔ بلا کی گرمی تھی مگر کہیں کوئی درخت اور سایہ نہ تھا۔ ابو سارے راستے سوائے چٹیل میدان کے کچھ نہیں ملا۔ پہاڑ، دریا، سمندر، درخت، کھائی غرض نہ کوئی نشیب تھا نہ فراز۔ کیا بتاوں کیسا اذیت ناک سفر تھا۔ دنیا ہوتی تو میں تھک کر گرجاتی، مرجاتی۔ مگر یہاں تو نہ گرنا نصیب میں تھا نہ مرنا۔ ناچار دوڑتی رہی۔“
”پھر کیا ہوا؟“، انور نے تاسف آمیز لہجے میں دریافت کیا۔
”اسی طرح چلتے چلتے نہ جانے کتنے عرصے میں میں میدان حشر تک آپہنچی۔ مگر یہاں ایک دوسری مصیبت انتظار کررہی تھی۔ ہر جگہ عجیب خوفناک فرشتے گھوم رہے تھے۔ ان کی شکل دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا تھا۔ میرے ساتھ تو انھوں نے کچھ نہیں کیا، مگر دوسروں کو وہ بے دردی سے مار رہے تھے۔ مگر مار پیٹ کا یہ منظر دیکھ کر ہی میری جان نکلی جارہی تھی۔“
”عاصمہ تمھیں کہاں ملی؟“، میں نے دریافت کیا۔
”وہ بھی میدان حشر میں مجھے ایک جگہ روتی بلکتی مل گئی۔ ابو وہ بڑے ناز و نعم میں پلی ہوئی لڑکی تھی، اسے دیکھ کر تو میں اپنی تمام تکلیفیں بھول گئی۔ اس کے بعد ہم دونوں ساتھ ساتھ رہے کہ کچھ حوصلہ بلند رہے، مگر آپ سے ملنے کے بعد اس کا حوصلہ اور نجات کی امید بالکل دم توڑ گئیں۔“
عالیہ نے پوچھا:
”آخری دفعہ وہ تمھیں کہاں ملی تھی؟“
”جب سجے کا حکم ہوا تھا میں سجدے میں چلی گئی۔ اس وقت وہ میرے برابر میں تھی، مگر وہ سجدے میں نہیں جاسکی۔ وہ دنیا میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ اللہ کوہماری عبادت، ہماری نماز کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ہے بھی تو وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔ وہ ہمیں معاف کردے گا۔ وہ روزہ یہ کہہ کر چھوڑتی تھی کہ میری خوبصورت جلد خراب ہوجائے گی۔“
”تم سجدے سے اٹھی تو وہ کہاں تھی؟“، عارفہ نے پوچھا۔
”وہ میرے برابر ہی میں تھی، مگر جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو الگ کیا جائے تو فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے میرے پاس سے لے گئے۔ پھر مجھے حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا گیا۔“
”وہاں کیا ہوا؟“، اس دفعہ ناعمہ نے دریافت کیا۔
”مجھے تو لگ رہا تھا کہ اب اللہ تعالیٰ میرا نام اعمال میرے بائیں ہاتھ میں پکڑا کر مجھے عذاب کے فرشتوں کے حوالے کردیں گے، مگر میں قربان جاوں اپنے رب کی رحمت کے، اس نے بڑا کرم کیا۔ مجھ سے ایمان، عبادات کے متعلق سوالات ہوئے۔ میں نے بتادیا کہ میں ہر بات پر ایمان
رکھتی تھی اور ساری عبادات بھی کرتی تھی۔ پھر موٹے موٹے اخلاقی معاملات، صلہ رحمی اور حقوق العباد کا سوال ہوا۔ میں نے ان کا جواب بھی دے دیا۔ اس کے بعد مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ عام زندگی میں کی جانے والی نافرمانیوں اور گناہوں سے متعلق متعین سوال نہ کرلیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کوئی سوال ہی نہیں کیا۔“
اس پر میں نے کہا:
”لیلیٰ بیٹا! اگر اللہ تعالیٰ تم سے اگلا سوال کرلیتے تو تم ماری جاتیں۔ وہ جس کو معاف کرنے کا فیصلہ کردیتے ہیں، اس سے کوئی ایسا سوال نہیں کرتے جس کا جواب نفی میں آنا یقینی ہو۔ یہ کام صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کو پکڑنا مقصود ہوتا ہے۔ انہوں نے تم سے صرف وہ پوچھا جس کا صحیح جواب تمھارے نام اعمال میں موجود تھا۔ باقی تمھارے گناہ گرچہ نام اعمال میں موجود تھے، مگر انہوں نے جان بوجھ کر نظر انداز کردیے۔“
”ہاں ابو انہوں نے ایک بات مجھ سے آخر میں کہی تھی۔ وہ یہ کہ تم عبد اللہ کی بیٹی ہو۔ تمھیں تو اس کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد انھوں نے فرشتوں سے کہا کہ اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دے کر اس کو اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دو۔ اس وقت میری خوشی کا جو عالم تھا میں اسے بیان نہیں کرسکتی۔“
صالح جو میرے برابر ہی میں بیٹھا تھا اس کی بات سن کر کہنے لگا:
”تمھاری بخشش عبد اللہ کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔ البتہ تمھارے درجات تمھارے والد کی وجہ سے بلند ہوگئے ہیں۔ تم اس وقت حوض کوثر کے ڈبلیو آئی پی لاونج میں بیٹھی ہو۔ جانتی ہو تم پر اور تمھارے بھائی بہنوں اور والدہ پر یہ مہربانی صرف تمھارے باپ عبد اللہ کی وجہ سے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ کامیاب لوگوں میں سے جس شخص کا درجہ سب سے بلند ہوگا اس کے قریبی اعزا کو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جمع کردیں گے۔“
اس پر عالیہ نے کہا:
”جبھی ہم بھائی بہنوں کے خاندانوں کے کسی فرد کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ملی۔ صرف ہم بہن بھائیوں اور امی کو فرشتوں نے یہاں آنے دیا ہے۔ باقی لوگ بھی یہاں ہیں مگر انہیں پیچھے ٹھہرایا گیا ہے۔“
یہ سن کر ناعمہ کے چہرے پر کرب کے گہرے آثار طاری ہوگئے۔ اس کے اندر کی ماں بولی:
”سوائے جمشید کے۔“
یہ بات سن کر ایک خاموشی چھاگئی۔ آخر انور نے خاموشی کے اس پردے کو یہ کہہ کر توڑا:
”ابو مجھے تو آپ کے استاد فرحان صاحب کی اس تحریر نے بچالیا جو میں نے آپ سے اکثر سنی تھی۔ اس تحریر کو میں نے اپنی زندگی بنالیا تھا۔“
عارفہ بولی:
”بھائی! وہ تحریر کیا تھی؟ ہمیں بھی سناو۔“
انور نے آنکھیں بند کیں اور بولنے لگا:
”ہمارے دور کے مصلحین لوگوں کے اندر سے ترقی کی اس فطری خواہش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ خدا ایسا نہیں کرتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس خواہش کا رخ دنیا کے بجائے آخرت کی طرف مڑ جائے۔ دنیا کی اشرافیہ اور اہل ثروت گروہ میں شامل ہونے کے بجائے لوگوں میں یہ خواہش پیدا ہوجائے کہ وہ خدا کے مقربین اور جنت کی اشرافیہ میں شامل ہوں۔ آپ پورے قرآن کی دعوت پڑھ لیں وہ اس کے سوا انسان میں کوئی ذہن پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن کے اولین مخاطبین صحاب? کرام اسی ذہن کی حامل ہستیاں تھیں۔ ابوبکر و عمر کا انفاق، عبدالرحمن و عثمان کی سخاوت اور علی و بو ذر کی سادگی آخرت پر اسی ایمان کے مختلف مظاہر تھے۔ آخرت پر ایمان آدمی میں جو تبدیلی لاتا ہے اسے سمجھنے کے لیے قرآن کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں:
”تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سر و سامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے دن سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟“،
(القصص ۲۸:۶۱۔۶۰)
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔