کسی قوم کی نفاست طبع کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے باغات میں چلے جائیے اور ویسے بھی اب تو کوئی بات مکمل نہیں ہوتی تحفظ ماحول کے بغیر۔ او رماحول کی حفاظت لازم و ملزوم ہے سبزہ گل سے۔
وطن عزیز او رخصوصاً لاہور اس معاملے میں بڑا خوش قسمت واقع ہے باغات کا شہر، پاکستان کا دل اور شہروں کا یہ شہرہ سبزہ و گل کی دولت سے مالا مال ہے یوں تو شہر لاہور بہت سے خوبصورت اور وسیع باغات سے بھرا پڑا ہے لیکن اپنی گل رنگ خوبصورتی اور تاریخی حیثیت کے اعتبار سے جو امتیاز باغ جناح کو حاصل ہے وہ کسی اور باغ کے حصے کی بات نہیں۔ آج بھی اس دلفریب شہر میں پارکوں کے علاوہ جا بجا خوبصورت فواروں کا اضافہ جاری ہے اس شہر بے مثال میں جو بھی آیا اس کی ”زلف کا اسیر“ ہوگیا انگریز دور میں جہاں لاہور کے لاتعداد باغ اُجاڑ دیئے گئے وہیں چند ایک کا اضافہ بھی ہوا انہیں میں سے ایک ”لارنس گارڈن“ تھا جسے آج ”باغ جناح“ کہا جاتا ہے باغ کے ایک جانب کی معروف شاہراہ اب بھی ”لارنس روڈ“ کہلاتی ہے۔ گورنر ہاوس سے مقابل واقع اس باغ کا شمار بڑے بڑے باغات میں ہوتا ہے۔
باغ جناح کا رقبہ تقریباً 141ایکڑ ہے باغ کی تعمیر سے قبل یہ جگہ بالکل اُجاڑ تھی۔ ایگری ہارٹی کلچرل سوسائٹی نے 1862ءمیں یہاں پر چھوٹا سا باغ بنوایا۔1868ءتک مزید بہت سی جگہ کو ہموار کرکے باغ کو خوبصورت اور وسیع بنا دیا گیا۔ باغ کا ایک حصہ محکمہ زراعت و باغبانی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کو نباتات پہ تحقیق کے لیے دے دیا گیا۔ جبکہ ایک حصہ میں 1872ءمیں زوالوجیکل گارڈن چڑیا گھر قائم کیا گیا باغ کا باقی حصہ عوام کی تفریح کے لیے مختص کر دیا گیا۔ جس کا انتظام کارپوریشن کے ہاتھ میں تھا باغ کو سیراب کرنے کے لیے اپر باری دو آب سے ایک شاخ نکالی گئی باغ کے فالتو ملبے سے تین پہاڑیاں بنائی گئیں ان میں سے ایک پہاڑی سر سکندر حیات خاں اور دوسری سر فضل حسین کے نام سے منسوب ہے جبکہ تیسری پہاڑی پر اوپن ائیر ٹھیڑ قائم ہے اس کے جنوب میں ”گلستان فاطمہ“ ہے جو اپنی سجاوٹ، نفاست، اور دلکشی کے باعث باغ کا دل کہلاتا ہے یہاں گلاب کی اقسام موجود ہیں اس حصے کو شالا مار باغ کی طرح تخت وار بنایا گیا ہے اس کا پہلا قعطہ ساڑھے چار فٹ نیچے ہے یہاں گلاب کے قعطے، مور پنکھ کے تراشیدہ پودے، بیلوں سے ڈھکے ستون، محرابی دروازے، پتوں سے بنا پاکستانی پرچم اور مور کے سروں والی نشتیں مل کر بہت حسین منظر پیش کرتے ہیں اس کے قریب ہی ایک لائبریری اور مسجد دارالسلام ہے باغ کا ایک گوشہ ایک بزرگ ”پیر ترت مراد“ کے مزار سے آباد اور بارونق ہے۔
شاہراہ قائد اعظم کی جانب سے باغ میں دو نہایت پُرشکوہ سفید عمارتیں ہیں جن میں سے ایک لارنس ہال ہے جو 1861-62ہی انگریزوں کے چندے سے بنایا گیا۔ 34000/روپے کی لاگت سے بنی یہ عمارت پنجاب کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر سر جان لارنس کی یادگار ہے اس کا ڈیزائن مسٹر جی سٹون سول انجینئر نے بنایا اس کے ساتھ والی بڑی عمارت جو کہ عین سڑک کے سامنے ہے ”منٹگمری ہال“ کہلاتی تھی یہ عمارت بھی انگریز اور ہندوستانی امراءکے عطیات سے بنائی گئی۔یہ ہال آج کل لائبریری کے طور پر قائداعظم لائبریری کے نام سے زیر استعمال ہیں۔
باغ میں جو اونچی اونچی پہاڑیاں نظر آتی ہیں یہ دراصل اینٹیں پکانے کے بھٹے تھے جب یہ باغ وجود میں آیا تو ان بھٹوں کے ملبے کو یکجا کرکے پہاڑیوں کی شکل دے دی گئی اور ان پر پھول بوٹے اگا دیئے گئے۔ انہی پہاڑیوں میں سے ایک اوپن ائیر تھیڑ بھی ہے جسے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک سابق پرنسپل ”مسٹر سوندھی“ نے تعمیر کروایا تھا۔
باغ میں ایک خوبصورت فوارے والا باغیچہ بھی ہے جسے”گلستان فاطمہ“ کہتے ہیں پہلے یہاں گندے پانی کا ایک جوہڑ ہوا کرتا تھا لیکن 1945ءمیں اس زمانے کے سپرنٹنڈنٹ باغات سید عبد العزیز شاہ نے اس گندی جگہ کو پھولوں پودوں سے سجایا۔پھر 1947ءمیں اس کا نام محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر ”گلستان فاطمہ“ رکھ دیا گیا۔
باغ جناح کی حیثیت سے محض ایک باغ ”یا سیر گاہ کی نہیں بلکہ اپنی متنوع نباتاتی شادابی کے اعتبار سے تو یہ باغ اب ایک قومی ورثہ بن گیا ہے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی امریکہ نے آج سے نصف صدی قبل اس باغ کو پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیاءکے لیے اثاثہ قرار دیا تھا اور ایک سروے میں اسے پاکستان کے باغات کا تاج قرار دیا تھا۔
اس وقت باغ جناح کی کل اراضی 141ایکڑ ہے جس میں 18.25ایکڑ پر عمارات، سڑکیں، لائبریری، مسجد اور ریستوران ہیں۔ 14ایکڑ اراضی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو بفرضی بوٹینکل گارڈن دی گئی یہی زمین بعد میں گورنمنٹ کالج کو منتقل ہوگئی اور آج بھی یہاں گورنمنٹ کالج کے بوٹینکل گارڈن قائم ہے۔
باغ جناح دراصل ثمر ہے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر ای براون کی نیکی کا۔ جنہوں نے 1861ءمیں ایگری ہارٹی کلچرل سوسائٹی کے سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد باغ جناح قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ شاہراہ قائد اعظم پر زمین کی موجود قیمتوں کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لارنس گارڈن کی 176ایکڑ اراضی پروفیسر ڈاکٹر ٹی ای براون نے مزنگ لاہور کے زمینداروں سے صرف اور صرف 235روپے میں ہی خریدی تھی۔ اول اول اس باغ کا نام ایگری ہارٹی کلچرل گارڈن رکھا گیا۔
باغ کو لارنس گارڈن کا باقاعدہ نام دینے کی تقریب 6نومبر 1915ءمیں ہوئی اس سال باغ میں پانی کی وافر فراہمی کے لیے پہلا ٹیوب ویل نصب کیا گیا۔ 1921ءمیں پہلی بار باغ کے اندر کولٹاری سڑکیں تیار ہوئیں جبکہ 1925ءمیںباغ کا نظم و نسق محکمہ زراعت کے حوالے کیا گیا اور آج تک یہ باغ محکمہ زراعت کے پاس ہی ہے۔ 1935ءمیں پنجاب کے مسٹر ہیوز نے باغ میں گندے پانی کے جوہڑ کو ایرانی طرز کے گلستان کی شکل دی جسے آج گلستان فاطمہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
باغ کی خوبصورتی کے لیے پورا سال کام جاری رہتا ہے یہاں ایک نئے حصے کا اضافہ ہوا ہے اسے ”مغل گارڈن“ کہتے ہیں یہاں بارہ دریاں فوارے روشیں اور راھداریاں مغل فن تعمیر کی عکاسی ہیں یوں یہ باغ بیک وقت مشرقی اور مغربی تعمیرات کے نمونوں کا مرقع بن چکا ہے۔ باغ جناح میں برطانیہ، چین جاپان شام اسپین مشرق وسطی اور جنوبی یورپ سمیت دنیا کے مختلف براعظموں کے نادر و نایاب پورے موجود ہیں۔ باغ جناح ہی تقریباً 21ہزار درخت ہیں جو 450قسموں پر مشتمل ہیں اپنی خوبصورتی اور سدا بہار ہونے کی وجہ سے باغ جناح صرف پاکستان ہی ہی نہیں بلکہ پورے ایشیاءمیں مشہور ہے۔
اس میں ایک وسیع میدان ہے جس میںکرکٹ کے ٹیسٹ میچ کھیلے جاتے ہیں اس کے علاوہ کئی کلب بھی قائم ہیںاس میں ایک جھولا باغ لیڈیز اینڈ چلڈرن پارک بھی ہے جس میں بارہ برس سے کم عمر بچے جھولا جھولتے ہیں اور بہت خوش ہوتے ہیں۔
باغ کا گرین ہاوس بہت اہم ہے جہاں پر مختلف ممالک سے منگوائے ہوئے پودوں پر تحقیق کی جاتی ہے باغ میں تقریباً آٹھ ہزار سے زائد درخت لاتعداد اقسام کی پھولدار جھاڑیاں، بیلیں اور سینکڑوں اقسام کے پودے موجود ہیں جن میں ہر سال متعددنئی قسموں کا اضافہ ہو جاتا ہے ان کی حفاظت کے لیے بیسیوں بیلدار مالی اور دوسرا عملہ زراعت افسران کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
باغ جناح اس وقت پاکستان کا سب سے قدیم باغ ہے اور یہاں ہزاروں اقسام کے لاکھوں قیمتی اور نایاب پودے ہیں جن میںکئی پودے تو ایسے ہیںجو پاکستان میں کسی اور جگہ نہیں مثلاً : -1دیسی فائیکس اس کو مقامی زبان میں بڑھ کہتے ہیں باغ کا قدیم ترین درخت ہے حتیٰ کہ کچھ ایسے بھی موجود ہیں جو سکندر اعظم کے زمانہ کے ہیں۔
-2آسٹریلین بڑھ یہ بھی سدا بہار درخت ہے اُونچائی 15سے 20میٹر تک جاسکتی ہے یہ بھی سایہ دار درخت ہے اس کا شمار بھی باغ کے قدیمی درختوں میں کیا جاسکتا ہے۔
-3کریزیا انسگنی بدھا یہ نہایت خوبصورت اور تاریخی درخت ہے اس کو بدھا کا درخت کہتے ہیں کیونکہ روایت ہے کہ بدھا اس کے نیچے بیٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے۔
-4سمبل باغ جناح کے سب سے پرانے درختوں میں سے ہے اور اس کا ڈھانچہ بہت بڑا ہے یہ 40میٹر سے بھی اونچا چلا جاتا ہے یہ درخت بھی پت جھڑ ہے اس پر شہد کے چھتے اگتے ہیں۔آج کل یہ درخت اپنی عمر پوری کرکے ختم ہو چکا ہے مگر اس کا دیو قامت ڈھانچہ اب بھی باغ میں موجود ہے۔
-5سڑکولیا الاٹا یہ درخت بہت ہی کمیاب ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پورے پاکستان میں ایک ہی درخت ہے جو باغ جناح کا اثاثہ ہے اس کا تنا نیچے سے صراحی نما ہوتا ہے اونچائی 12سے 15میٹر ہے اور یہ پت جھڑ پودا ہے۔
-6سائنا مومم کیفوراکافور یہ بہت پرانا درخت ہے اور اس سے کافور نکلتی ہے جس کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس کی اونچائی 25سے 30میٹر تک ہوتی ہے۔اور یہ سدا بہار درخت ہے۔
-7کنگھی پام اس کو کنگھی پام اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے پتے بہت باریک اور کنگھی نما ہوتے ہیںبہت قیمتی پودا ہے اور سدا بہار ہے لیکن اس کی بڑھو تری نہایت سست ہے۔
-8 سائیکس رمفی پام یہ آسٹریلین پودا ہے اور یہ بھی پورے پاکستان میں ایک ہی پودا ہے یہ خوبصورت پودا باغ میں حضرت ترت کے مزار کے پاس ہے۔ قیام پاکستان سے قبل باغ جناح لارنس گارڈن کے تربیت یافتہ مالی پورے ہندوستان میں مستند تصور ہوتے تھے ان کا پھولوں اور پھلوں کے بارے میں علم اور تجربہ باٹنی سائنس کے گریجویٹس سے زیادہ ہوتا تھا حالانکہ تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔آج کل بھی یہاں پر پورے ملک سے لوگ پودوں کے بارے میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور چار ماہ کے دو سے تین تربیتی کورس ایک سال میں منعقد ہوتے ہیں۔
پھولوں کے حسن کو دنیا بھر میں خاصی پذیرائی حاصل ہے او ر نباتات کے مطابق پاکستان کی زراعت میں پھولوں کے ذریعے ہی انقلاب لایا جاسکتا ہے اور غیر معمولی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے پھولوں کی افزائش میں اضافے سے ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔