حضر ت شاہ عنایت قادری شطاریؒ

لاہور(مہرماہ رپورٹ): لاہور کی بزرگ ترین ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں کہا جاتا ہے لاہور کے چاروں کونوں پر موجود چاروں گدیوں کی وارث آرائیں قوم ہے۔ ان گدیوں کے مالکوں کے نام سے پہلے شاہ کا لفظ آتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے یہ سید نہیں ہیں لیکن انہیں احترام بہت زیادہ حاصل ہے۔ ان جید بزرگوں میں میاں میر، شاہ ابوالمعالی، شاہ حسین، اور شاہ عنایت قادری شطاری شامل ہیں۔
حضر ت شاہ عنایت قادری شطاریؒ بابا بلھے شاہؒ کے پیر و مرشد ہیں‘ ڈاکٹر لاجونتی رام کرشنا اپنی کتاب ’’پنجابی صوفی پوئٹس‘‘ میں رقم طراز ہیں حضرت بابا بلھے شاہ کا شمار عظیم ترین صوفیا میں ہوتا ہے۔ جو تخیل میں جلال الدین رومی اور شمس الدین تبریزی کے ہم پلہ ہیں۔ یہ خیال اور تخصیص اپنی جگہ ہے تاہم اگر یہ بلند مقام بابا بلھے شاہ کو حاصل ہے تو ان کے پیر مرشد کی عظمت کا کیا شمار ہو گا؟
حضر ت شاہ عنایت قادری بلند پایہ مفسر‘ فقہیہ اور پنجاب کے اکابر علماء و صلحا میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے اباؤ اجداد کا تعلق لاہور سے ہے جو پشت در پشت یہاں آباد تھے‘ کاشتکاری اور باغبانی سے وابستہ یہ خانوادہ خدارسیدہ بزرگوں پر مشتمل ہے۔ مفتی غلام سرور قادری کے مطابق ’’شاہ عنایت از قوم باغبان یعنی زمیندار بود‘‘ حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے بزرگ لاہور کے علاقہ مزنگ میں ایک وسیع عریض رقبہ پر کاشتکاری کرتے تھے۔ کھیتی باڑی آپ بھی کا ذریعہ معاش تھا۔
حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے والد گرامی کا نام میاں شیر محمد تھا۔ والد کے وصال کے بعد اراضی کے مالک مختار حضرت شاہ عنایت قادری تھے۔ تاہم آپ کو دادیال اور ننھیال سے دینی ماحول ورثے میں ملا۔ آپ کے ننھیال قصور کے علاقے ’’کچا قلعہ‘‘ میں رہتے تھے جو اب ’’کوٹ پکا قلعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت شاہ عنایت قادری کی کنیت ابوالمعارف ہے جبکہ نام محمد عنایت اللہ ہے۔ تاہم آپ شاہ عنایت قادری کے نام سے معروف ہیں۔
حضرت شاہ عنایت قادری کی کے والد گرمی میاں شیر محمد خلیق‘ متواضع اور صاحب بصیرت بزرگ تھے۔ انہیں عربی فارسی اور دیگر علوم میں بڑی دسترس حاصل تھی۔ حضرت شاہ عنایت قادری کی تربیت اور ابتدائی تعلیم آپ نے والد نے کی۔ حضرت شاہ عنایت قادری نے پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور نو برس کے تھے تو عربی اور فارسی پر عبور حاصل کر لیا اور بارہ برس کے سن میں ظاہری علوم کی دستار فضیلت سے بہرہ مند ہو گئے۔ ماحول اور صوفی منش گھرانے کے اعجاز کے باعث حضرت شاہ عنایت قادری فقر و تصوف اور روحانی علوم کی طرف مائل ہو گئے۔
حضرت شاہ عنایت قادری شریعت و طریقت کے مرکز لاہور سے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کیا۔ حضرت محمد رضا شاہ قادری شطاری کا چشمہ روحانیت جاری تھا‘ اہل دل دور دور سے آتے اور چشمہ روحانیت سے اپنی روحانی تشنگی دور کرتے،حضرت شاہ عنایت قادری،حضرت رضا شاہ قادری کے درس میں داخل ہو گئے، استاد کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے آپ نے انہی کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر ایک طویل عرصہ صحبت شیخ میں رہ کر حقائق،معارف اور سلوک کی منازل طے کیں اور پھر وہ دن بھی آگیا جب آپ نے اپنے مرشد مکرم سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔
حضرت شاہ عنایت قادری کا سلسلہ طریقت قادریہ شطاریہ سے منسلک ہے۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت عبداللہ شطاری 890ھ بمطابق 1485ء کو اپنے مرشدحضرت شیخ محمد عارف طیفوری کے حکم پر ایران سے ہندوستان تشریف لائے،کچھ عرصہ جون پور میں میں قیام کیا اس کے بعد مالوہ میں متمکن ہو گئے انہیں بزرگوں کے سلسلے میں سلطان العارفین حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری ہیں، جن کی ذات بابرکات کی کرامات سے ہندوستان میں نور اسلام کی شمع روشن ہوئی۔ ہر صاحب علم و فہم نے آپ سے استطاعت کے مطابق کسب فیض حاصل کیا یوں سلسلہ قادریہ شطاریہ ہندوستان بھر میں پھیل گیا۔ دہلی، آگرہ، اجمیر شریف، سرہند شریف، کابل، بیجاپور، اجین، سارن پور بہار میں سلسلہ شطاریہ کے بزرگوں نے اشاعت اسلام کی خدمت کی۔
سلسلہ قادریہ شطاریہ کے بزرگوں میں حضرت شیخ وجیہہ الدین گجراتی علومی قابل ذکر ہیں۔ آپ کے خلیفہ سید ابوتراب المعروف حضرت شاہ گدا قادری شطاری شمالی پنجاب لاہور میں روحانیت کے شہباز بلند پرواز مشہور رہے ہیں،حضرت شاہ عنایت قادری اسی چمنستان شطاریہ کے نوشگفتہ پھول تھے جنہیں حضرت شاہ گدا جیسی ہستی عبادت و ریاضت،علم و عرفان کا بحر ذخار بنایا۔ آپ نے سلسلہ سہروردیہ اور چشتہ کے کے بزرگ ابوالنصرعرف سید الیاس سے بھی کسب فیض حاصل کیا جبکہ سلسلہ قادریہ میں حضرت برہان الدین راز الٰہی برہان پوری سے زانوئے تلمندتہہ کیا۔ حضرت شیخ عبداللہ شاہ عیاشی نے اپنے ملفوظات میں کہا ہے سلسلہ شطاریہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ حضرت شاہ عنایت قادری نے تبلیغ اسلام اور تعمیر ملت کے لئے دور دراز کی سیاحت کی،قصور اور لاہور آپ کی آپ کی توجہ زیادہ مرکوز ہے،سکھوں کے دور میں جب بدامنی عروج پر تھی آپ خطے کے لئے امن کا پیغام بنے رہے۔
حضرت شاہ عنایت قادری اپنے مرشد کے حکم پر لاہور سے قصور چلے گئے اور وہاں درس و تدریس اور تلقین و ارشاد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بے شمار لوگ دن بھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حلقہ ادارت میں شامل ہوتے۔ حضرت شاہ عنایت قادری کے علم و عرفان،کشف و کرامات،تصرفات و فضیلت اور علمیت و عقلیت کے چرچے چہاردانگ پھیل گئے۔ لوگ دور دور سے آتے آپ کے درس قرآن و حدیث اور فقہ میں شریک ہوتے تھے اور اپنا دامن علم و فیض سے بھرتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب قصور پر نواب حسین خان افغان کی حکومت تھی۔ نواب حسین احمد خان،سلطان احمد اعظم کا بڑا بیٹا تھا انتہائی متکبر اور ظالم ہونے کے باوجود اس قدر بزدل تھا لوگوں کے عام جلسے اور اکٹھ دیکھ کر گھبرا جاتا اور خوف زدہ ہو جاتا تھا مبادا اس کے خلاف بغاوت نہ ہو رہی ہو،اس حاکم کو کسی نے بھڑکایا کہ شاہ عنایت قادری کے عقیدت مندوں اور مریدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اگر ان کے کہنے پر بغاوت ہو گئی تو تمہارا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ خوف زدہ حاکم قصور شاہ عنایت قادری کو اپنے اقتدار کا دشمن سمجھنے لگا۔ آپ نے اس کی کیفیت دیکھی تو قصور کو خیرباد کہنے کا ارادہ کر لیا،آپ کے ارادت مندوں نے احتجاج کیا،ایک لشکر تیار ہو گیا مگر حضرت شاہ عنایت قادری نے ان سب کو سمجھا بجھا کر خاموش کر لیا اور خود عازم لاہور ہو گئے۔
لاہور میں تشریف لانے کے بعد جس جگہ پر اب حضرت کا مزار ہے اس مقام پر آپ نے درس تدریس کے لئے ایک درس گاہ قائم کی۔ جہاں قرآن،حدیث کی تفسیر،فقہ کے اسباق دیئے جاتے تھے۔ مثنوی مولانا روم،قصوص الحکم اور دیگر کتب تصوف کا درس دیا جاتا تھا۔
ذکر و اذکار کے علاوہ محفل سماع ہی ہوتی۔ اعلیٰ درجے کے قوال مولانا روم،ملا شریں،مغربی،فخر الدین عراقی اور شاہ شمش تبریزی کا کلام سناتے اور لوگوں کی روح کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ حضرت شاہ عنایت قادری بے شمار کتابوں کے مصنف تھے،جبکہ لاتعداد کے مترجم تھے۔ صوفیانہ مسلک پر آپ کی اپنی کتاب دستور العمل قابل ذکر ہے۔ اسکے علاوہ گوالیار کے شاہ محمد غوث کی کتاب جواہر خمسہ،کنزالاحقائق،غائیتہ الحواشی کی شرع بھی آپ نے تحریر کی۔ حضرت شاہ عنایت قادری نے 1114ھ میں 85 سال کی عمر میں وصال فرمایا،جس کی یاد میں ہر سال عرس منایا جاتا ہے علاقے میں میلے کا سماں ہوتا ہے۔