نوٹ کی حرمت

ہم نے کشکول توڑنا اور ایشین ٹائیگر بننا تھا۔ مورکھ مشرف نے آئی ایم ایف سے پاکستان کی جان چھڑا دی تھی اگلے دو ادوار جمہوریت کے شجر سایہ دار میں گزرے، جس کے آغاز میں آمریت کی طویل شب ستم تمام اور ترقی و خوشحالی عام ہونے کی امید پیدا ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سال کے دور میں ملکی وسائل کا بے دردی سے اجاڑہ اور کباڑہ کیا گیا۔ آصف علی زرداری کا سب سے بڑا کریڈٹ پانچ سالہ مدت پوری کرنا ٹھہرا۔ فوج کے بارے میں ایک طبقے کی اٹل رائے ہے کہ وہ جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرتی ہے۔ اگر ڈی ریل نہ کرے تو بریکیں لگا کر جھٹکے ضرور دیتی ہے۔ زرداری نے فوج کو زچ کرنے کے بجائے جنرل کیانی کو یکمشت 3 سال کی ایکس ٹنشن دے کر زیر کر لیا جس سے زرداری کو مدت پوری کرنے کی ٹینشن نہ رہی۔ بینظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کی جمہوریت سے کمٹمنٹ سے متاثر ہو کر فوج کو تمغہ جمہوریت دیا تھا۔ میاں نواز شریف کی تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد آئینی مدت جب لبِ بام پر تھی تو عدالت نے نااہل قرار دے دیا۔ بینظیر بھٹو کی پانچ سالہ مدت لب بام سے بہت دور تھی کہ جنرل اسلم بیگ اور صدر اسحاق خان نے چلتا کیا۔ نوے کے الیکشن میں جیتنے کے آثار نظر آئے تو ”قومی مفادات“ کے محافظوں نے کہا۔ ”کیا دوبارہ آنے کے لئے اسے نکالا تھا۔“ پیسوں کی تقسیم کاری ہوئی، آئی جے آئی بنی اور میاں نواز شریف کے سر پر ہما بیٹھ گیا۔ جنرل بیگ شاید اپنی ایکس ٹنشن کی امید لئے بیٹھے تھے، ان کی تین سال کی مدت پوری ہونے سے کئی ماہ قبل نئے آرمی چیف کا اعلان کرکے اپنی ٹنشن ختم کر لی اور توسیع کی بحث شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو گئی۔
نوے کی دہائی میں لرزتی، ہانپتی کانپتی جمہوریت کا تسلسل جاری رہا۔ 88ء سے 2000ءبارہ سال کی دہائی میں دو شعبوں میں کمال کی ترقی ہوئی ایک تو سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی تک چلے گئے۔ دوسرے کرپشن اقربا پروری، چیلے چانٹوں اور چمچوں پر نوازشات، مراعات اور خیرات کا میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی مختصر مدت کی دو دو بار حکومتوں کے مابین منہ زور مقابلہ نظر آیا۔ دونوں نے ایک کام ایمانداری اور دیانتداری سے کیا گو نیت ایسی نہیں تھی مگر اسے دونوں عظیم اور کرپشن کے لحیم شحیم الزامات کی زد پر رہنے والے لیڈروں کی حب الوطنی کی روشن مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک کی حکومت کے خاتمے کے بعد دوسرے کو موقع ملا تو گزشتہ دور کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے پوری ایمانداری سے مقدمات درج کرائے گئے۔ اس دور میں کرپشن بے ایمانی اور بدعنوانی ایک ناقابل تردید سچ تھا۔ مشرف دور میں بھی اس کے شگوفے پھوٹتے رہے۔ مشرف کے ساتھ وہی لوگ تھے جو پیوستہ دہائی میں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ہمدم تھے۔ نام وہی، کام وہی مگر اب خاکی چھتری تھی، مشرف شاید اس لئے آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے کہ قرضوں کے بجائے امداد کی صورت میں نائن الیون کے بعد سرزمین پاک امریکہ کے حوالے کرنے پر ڈالروں کی برسات ہونے لگی تھی جو ہنوز جاری ہے مگر اشرافیہ کے پیٹ اتنے بڑھ گئے کہ نوٹوں اور ڈالروں سے بھر نہیں پا رہے۔ مشرف کے بعد پھر وہی چہرے جمہوری حکومتوں میں نظر آئے وہی نام وہی کام، کرپشن بے ایمانی، قومی وسائل کا اجاڑہ جاری ہے۔
اسحاق ڈار پر الزام ہے کہ اثاثے پندرہ سال میں نوے گنا بڑھ گئے۔ ضروری نہیں اسحاق ڈار نے کرپشن کے ذریعے اتنی دولت کمائی ہو، ایمانداری سے کام کرتے ہوئے دس پندرہ سال میں اثاثوں میں سو گنا اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسحاق ڈار نے اگر کرپشن نہیں کی تو ان سے اپنی جائیدادوں کی ڈاکومنٹیشن نہ کرنے کی بھول ہوئی، ایسا کیا ہوتا تو منی ٹریل پیش کر دیتے۔
جنرل راحیل شریف کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑنے کا عزم ظاہر کرتے رہے۔ ان کے استاد جنرل امجد جیسے خودرو اساتذہ نے انہیں کرپشن کے خاتمے کی بات کرنے سے روک دیا۔ جنرل راحیل شریف کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ کوئی ان کو ایکس ٹنشن دینے کوئی فیلڈ مارشل بنانے کی بات کرتا تھا۔ ان کا اپنا دل بھی فیلڈ مارشل بننے کو مچلتا تھا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ اس کا انہوں نے اظہار بھی کیا تھا۔ جنرل راحیل کے متبادل پر بڑی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہا جاتا تھا کہ جنرل راحیل نے جو معیارات قائم کر دئیے ہیں اس پر کسی جنرل کا پورا اترنا ناممکن ہے مگر ان کے جانے کے بعد کسی کو جنرل راحیل کی یاد نہیں آئی۔ ان کی خدمات قابل قدر ہیں مگر کہیں سے یہ آواز نہیں آتی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جنرل راحیل شریف اچھے تھے۔ ن لیگی حلقوں کے مطابق جنرل راحیل نواز شریف کی چھٹی کرانا چاہتے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ جنرل قمر باجوہ نے سات ماہ میں وہ کام کر دکھایا اور ان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا، خود میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ قمر باجوہ اچھے اور پروفیشنل ہیں ان کے ساتھی ان کے کہنے میں نہیں۔ میاں نواز شریف اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں اور کہے جا رہے ہیں۔
لودھراں میں بھاری اکثریت سے الیکشن جیتا جس پر مسرور ہیں۔ ووٹ کی حرمت کی مدت سے بات کر رہے ہیں اپنی نااہلیت کا خاتمہ میاں نواز شریف کا بیانیہ اور اعلانیہ بن چکا ہے۔ ووٹ کی حرمت اور تقدس پر ایمان کی طرح یقین رکھتے ہیں۔ ووٹ کی حرمت اور تقدس پر یقین اکمل کیا ہوا؟ چھانگا مانگا سیاست ووٹ کے تقدس کی ”روشن مثال“ ہے۔ تازہ ترین گفتگو میں فرمایا ووٹ کے تقدس کا بیانیہ عوام کے دلوں میں گھر کر چکا۔ گالی گلوچ، الزام تراشی کرنے والوں کو صادق اور امین قرار دینے والے سوچیں اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ میاں صاحب خود اور وہ لوگ بھی سوچیں جو اپنی دولت ملک سے باہر لے گئے وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ حکومتی اداروں کے اعداد و شمار اور سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹوں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دعوﺅں کے مطابق پاکستانیوں کی ناجائز کمائی سے سوئس اور دیگر بنکوں میں کھربوں ڈالر جمع ہیں۔ پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور کاروباروں کا تخمینہ بھی کھربوں ڈالر کا ہے۔ یہ رقوم پاکستان سے باہر نہ جاتیں اور باگ ڈور دیانتدار قیادت کے ہاتھ میں ہوتی تو پاکستان ترقی و خوشحالی کی معراج پر ہوتا۔ یوں پاکستانی کبھی ایران میں، کبھی ترکی اور کبھی لیبیا میں لاوارثوں کی طرح مارے نہ جاتے۔ گزشتہ روز گیارہ پاکستانیوں کی لاشیں لیبیا سے پاکستان لائی گئی ہیں۔ یہ روشن مستقبل کی تلاش میں تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ایسے یہ صرف 11 ہی موت کی وادی میں جانے والے نہیں ہیں ہر سال سینکڑوں اس قیامت سے گزرتے ہیں مگر ایجنٹوں کو کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا اس پر بھی اللہ کو جواب دینا ہو گا۔حکومت سازی کے لئے ووٹ کا تقدس بجا مگر اس سے بھی زیادہ نوٹ کا تقدس ہے۔ نوٹ کی حرمت سے جو چند لوگوں کی تجوریوں میں جا کر کروڑوں پاکستانیوں کو پسماندگی اور درماندگی کا باعث بن رہا ہے۔