چکوال سے سرگودھا جانے والی سڑک پر 26کلومیٹر کے فاصلے پر خوبصورت وادی واقع ہے جنرل کنگھم (برطانوی عہد کے نامور ماہر آثار قدیمہ) کے بقول کلر کہار کا پرانا نام شاہ کار تھا۔ ابوظفر ندوی اپنی کتاب تاریخ سندھ میں رقم طراز ہے کہ محمد بن قاسم 712ئ۔714 ء سے شکست کے بعد راجہ داہر مارا گیا اور اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے جے سنگھ نے ملتان کے مضافات میں محمد بن قاسم سے جنگ کی اور شکست کھائی وہ وہاں سے سیدھا کشمیر کی راجدھانی پہنچا اور پناہ کی درخواست کی۔ کشمیر دربار نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے اسے کشمیر میں رہنے کی اجازت دے دی اور گذارہ کے لیے کشمیر کی جنوبی سرحد پر جاگیر عطاءکی جس کا صدر مقام کلر کہار تھا اس جاگیر کے انتظام وانصرام کے لیے اس نے حمیم بن سامہ شامی کو اپنا مختار کار بنا کر بھیجا۔ حمیم بن شامہ نے کلر کہار کو اپنا انتظامی مرکز بنا کر اس جاگیر کا انتظام چلایا۔ اس زمانے میں ضلع چکوال ریاست کشمیر کا حصہ تھا اور کوہستان نمک، کشمیر اور ملتان میں حد فاضل تھا۔ حمیم بن سامہ شامی نے اس کی سرحد پر چنار کے درخت لگائے اور کلر کہار میں مساجد اور حویلیاں تعمیر کروائیں۔
کلر کہار کے بارے میں ظہیر الدین بابر توزک بابری میں لکھتا ہے کہ کلر کہار پہنچنے کے پہلے مرحلے میں بھیرہ پہنچا۔ ملک ہست نے میری اطاعت قبول کرنے سے کی وجہ سے بھی اور اس لیے بھی کہ یہ علاقہ بھیرہ خوشاب چناب اور چنیوٹ پر مشتمل ہے نماز ظہر کے وقت کلاہ کنار میں جا پہنچے جس کے قریب ایک بڑا سا تالاب ہے۔ تالاب تقریباً تین میل کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے جو بارش کے پانی سے عموماً بھرا رہتا ہے اس تالاب کے نزدیک ایک مرغزار بھی ہے اور دامن کوہ میں ایک چشمہ بھی پھوٹتا ہے یہ جگہ اور اس کا ماحول مجھے بہت پسند آیا اس لیے میں نے یہاں ایک باغ لگوایا اور اس کا نام باغ صفا رکھا۔ کلر کہار سطح سمندر سے تقریبا چار ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ابتدائی نام شاہکار اور کلاہ کنار بھی بتایا جاتا ہے ضلع خوشاب ضلع چکوال، پنڈ داد نخان، اور تلہ گنگ کی سڑکوں کا مرکز ہے ضلع خوشاب سے 75کلومیٹر، چکوال سے 35کلومیٹر، چواءسیدن شاہ سے 28کلومیٹر سون سکیسر سے 25کلومیٹر یعنی وادی کہون، دھنی و نہار کا مرکزی علاقہ ہے کوہستان نمک، دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور دریائے سندھ پر کالا باغ تک جاتا ہے کھیوڑہ کے مقام پر اس سے نمک نکالا جاتا ہے۔
حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر (593ھ ، 611ھ) کا بھی اس علاقے سے گذر ہوا جو سیرو سیاحت، تزکیہ نفس و تبلیغ اسلام کے سلسلے میں آئے اور بعد ازاں اجودھن چلے گئے تھے۔ حضرت سخی سلطان باہو 1102ئ1038--ءچلہ کشی کے لیے کلر کہار کی اس پہاڑی پر آئے تھے پہاڑی سے ملحقہ مشرقی جانب چھوٹی سی کوٹھری یہاں اب بھی موجود ہے جس میں آپ نے چلہ کشی کی تھی۔ اونچی پہاڑی پر ایک مزار سخی آہو باھو بھی ہے یہ حضرت غوث عبد القادر جیلانی کے دونوں پوتوں کا بتایا جاتا ہے جو تبلیغ دین کے سلسلے میں اس علاقے میں آئے تھے اور کٹاس نامی قصبہ میں ہندووں کے ہاتھوں 544ھ میں شہید ہوئے۔ کٹاس 19کلومیٹر مشرقی جانب چواءسیدن شاہ کے قریب واقع ہے۔ محکمہ اوقاف کی سنگ مر مر کی تختی پر عبارت کندہ ہے شہیدان بغدای الحسنی و حسینی شہادت حضرت سید محمد یعقوب عرف فیض عالم حضرت سید محمد اسحاق عرف نور عالم ابن حضرت نور انوار سر المد پیر سید عبد الرزاق۔“
مزار آہوبا ھو پر خوبصورت ترین پرندہ مور ہزاردوں کی تعداد میں موجود ہیں اور صبح و شام حاضری دیتے ہیں۔ موروں کا رقص دیدنی ہوتا ہے ان موروں کو سرکاری تحفظ بھی حاصل ہے یعنی کوئی بھی موروں کو نہیں پکڑتا وادی کلر کہار کو وادی طاو¿س بھی کہا جاتا ہے جہاں آج بھی موروں کا راج ہے ملکانہ اور سونی کے باغات میں اب موروں نے ہجرت شروع کر دی ہے کیونکہ آئے دن سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ دور کا پہلا باغ صفاءجو بابر نے 1529میں یہاں لگوایا تھا بندوبست اراض میں اس باغ کو سرکاری باغ بھی کہا گیا ہے اس کا رقبہ 111کنال 5مرلے ہے جس میں خوبانی، انار، لوکاٹ، کیلا آلوچہ شہتوت اور ناشپابی کے پھلدار درخت موجود ہیں۔ یہاں تخت بابری جو بھاری چٹان تراش کر بنایا گیا تھا بابر نے اپنی فوج کو اس تخت پر کھڑے ہو کر خطاب کیا تھا یہ تخت اپنی اصلی حالت میں پولیس ریسٹ ہاوس سے مشرقی جانب موجود ہے تخت کے ساتھ سیڑھیاں بھی ہیںجس پر چڑھ پر اردگرد کی خوبصورت وادی کا بخوبی نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ پوٹھوہار کے باسیوں کی واحد تفریح گاہ قدیم جھیل ہے جس کے کنارے اب حکومت پنجاب نے خوبصورت ٹوریسٹ لاج اور ریسورنٹ تعمیر کیا ہے سینک بار، واٹر سپورٹس کی دلچسپ تفریح بھی ہے۔ خالص پہاڑی گلاب کا عرق بھی کشید کیا جاتا ہے جڑی بوٹیوں کو کشید کرکے چوعرقہ بھی تیار کیا جاتا ہے جو پیٹ کی بیماریوں کے لیے بے حد مفید ہے۔
باغات میں خوبصورت ریسٹ ہاوس بھی تعمیر کئے گئے ہیں ضلع کونسل، ائیر فورس، محکمہ جنگلات او رپولیس کے دیدہ زیب ریسٹ ہاوسز نے پہاڑی حصوں کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔ روشنی کے شاعر سید مصطفی زیدی مرحوم جب 1961میں ڈپٹی کمشنر جہلم تھے تو ریسٹ ہاوس کے مین گیٹ پر ”نشمین“ کندہ کرایا تھا جو مرحوم کی شاعرانہ صلاحیتوں کی یاد دلاتا ہے۔ سابقہ فوجیوں کے علاج کے لیے 1973ءمیں فوجی فاونڈیشن ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا جس کا 1975ءمیں افتتاح ہوا۔ علاقے بھر کے فوجیوں کے لیے علاج گاہ کے ساتھ خوبصورت بلڈنگ اور سیر گاہ بھی ہے۔ پی اے ایف کی رہائشی کالونی بھی ہے اس سب تحصیل میں تمام بنیادی سہولتیں میسر ہیں۔ سیاحوں کی رہنمائی کے لیے ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی سابق ڈپٹی کمشنر چکوال نے یہاں سنگ مر مر کی تختیاں بھی نصب کرائی تھیں۔ کلر کہار فوجی اور دفاعی نقطہ نگاہ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے زیادہ تر افراد پاک فوج میں ملازمت کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے سیاح حضرات بہار کے موسم میں کئی کئی دن یہاں قیام کرتے ہیں تعطیلات کے دوران بھی یہاں کافی رونق اور گہاگمی ہوتی ہے۔ کلر کہار ایک بے نظیر پہاڑی خطہ ہے جو حساس دلوں کے لیے تسکین بھی ہے اس کے مناظر تصویروں کی طرح خوبصورت ہیں جبکہ جھیل کے شفاف پانی میں پہاڑوں کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قدرتی ٹھنڈے میٹھے چشمے، لوکاٹ اور جنگلی جڑی بوٹیوں کی خوشبووں کی دھرتی میں اصلی گلاب کا عرق، قلاقند اور چوعرقہ کی تیاری علاقائی پروڈکشن ہے گلاب کا عرق ملک کے دور دراز علاقوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ موٹر وے کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر وطن عزیز کے دور دراز کے شہروں سے فوٹو گرافی کے شائقین بھی بڑی تعداد میںیہاں کا رخ کرتے ہیں۔ بیرونی سیاحوں کے طے شدہ پروگرام کے مطابق سال بھر آمدروفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاریخی نقطہ نگاہ سے بھی یہ قدیمی گذرگاہ ہے۔ قلعہ سمرقند قلعہ ملوٹ اور کٹاس راج مرکزی قصبہ ہے مختلف پہاڑوں کی رنگ برنگی قیمتی مٹی و معدنیات قدرتی نعمتوں کی عکاس ہے۔ کلر کہار، واقعتاً خوبصورت نظاروں سے بھر پور قدرت کا ایک انمول شاہکار ہے۔ حکومت پنجاب، مستقبل قریب میں یہاں ایک عجائب گھر کے قیام کے منصوبے پر بھی عمل درآمد کر رہی ہے جس میں اس علاقے کی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور روایتی اشیاءکے بیش قیمت نادر نمونے اور تصاویر آویزاں کی جائیں گی۔