کربلا کے واقعہ کے بعد جب قاتلین حسین رضی اللّہ عنہُ میں سے ایک شخص اپنی جان بچانے کے لیے حضرت زین العابدین رضی اللّہ عنہُ کے گھر آن پہنچا ،پڑھیے کردار کی عظمت کا ایسا واقعہ جو آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گا

2018 ,فروری 22



لاہور (مہرماہ رپورٹ): . حضرت اِمام زین العابدین رضی اللّہ عنہُ واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منوّرہ سے کچھ دُور ایک مقام پر آباد ہو گئے تھے۔ . حضرت اِمام حُسین رضی اللّہ عنہُ کو شہید کرنے والوں میں سے ایک شخص کو یزید نے کسی غلطی کی سزا دینی چاہی تو وہ جان بچا کر بھاگا۔پوری سلطنت میں سے اسے جان بچانے کی کوئی جگہ نہ مِلی تو وہ بالآخر اسی گھرانے کے پاس چلا آیا

جس گھرانے کے خون سے وہ میدانِ کربلا میں ہولی کھیل چُکا تھا .۔وہ شخص حضرت اِمام زین العابدین رضی اللّہ عنہُ کے پاس آیا اور پناہ چاہی۔آپ رضی اللّہ عنہُ اسے تین دن اپنے پاس ٹھہرایا۔اس کی خدمت اور تواضع کرتے رہے اور جب وہ رُخصت ہونے لگا تو اسے رختِ سفر بھی دیا۔یہ حُسنِ سلوک دیکھ کر اس شخص کے باہر جاتے ہوئے قدم جاتے ہوئے قدم رُک گئے،اسے خیال آیا کہ: ” شائد اِمام زین العابدین رضی اللّہ عنہُ نے اسے پہچانا نہیں،اگر پہچان لیتے تو شائد یہ سلوک نہ کرتے اور اِنتقام لیتے۔ ” چنانچہ وہ مُڑ کر واپس آیا اور دبے لفظوں میں کہنے لگا کہ: ” اے عالی مقام! آپ ( رضی اللّہ عنہُ ) نے شائد مجھے پہچانا نہیں ہے۔ ” آپ رضی اللّہ عنہُ نے پوچھا کہ: ” تمہیں یہ گُمان کیونکر گُزرا کہ میں نے تمہیں پہچانا نہیں ہے؟ ” اس نے عرض کِیا کہ: ” جو سلوک آپ ( رضی اللّہ عنہُ ) نے میرے ساتھ کِیا ہے کبھی کوئی اپنے دُشمنوں اور قاتلوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتا۔ ” اِمام زین العابدین رضی اللّہ عنہُ مُسکرا پڑے اور فرمانے لگے کہ: ” ظالم! میں تجھے میدانِ کربلا کی اس گھڑی سے جانتا ہوں جب میرے باپ کی گردن پر تم تلوار چلا رہے تھے،

لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تمہارا کِردار تھا اور یہ ہمارا کِردار ہے۔ ‘واقعہ کربلا کے بعد جب آل رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو قیدی بنا کر دربارِ یزید میں پیش کیا گیا تو امام حسین کے بیٹے امام علی زین العابدین جو قیدیوں میں شامل تھے نے بھرے مجمع میں فرمایا کہ میں فرزند سردار یثرب وبطحا ہوں میں شہسوارِ میدان ہل اتیٰ ہوں میں سبط رسول اکرم امام حسن مجتبی کا فرزند ہوںنورِ دیدهِ محمد مصطفے۔ص۔ سرورِ سینہِ مرتضی، اور خنکئ چشم فاطمہ زہرا مبتلا ئے کرب وبلا حسین شہید کربلا کا بیٹا ہوں ۔میں مکہ و منٰی کا فرزند ہوں، میں زمزم اور صفا کا فرزند ہوں، میں اُس ہستی کا فرزند ہوں جس نے اپنی رداکے ساتھ حجر اسود کو اُٹھایا اور اپنی جگہ پر نصب کیا، میں سب سے بہترین طواف و سعی کرنے والے کافرزند ہوں،میں اُس نبی کا فرزند ہوں جو براق پر سوار ہوا، جسے مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک کی سیرکرائی گئی۔ میں اُس رسول کا فرزند ہوں جسے جبرائیل سدرۃ المنتہٰی تک لے گئے، میں اُس کا فرزند ہوں جومقامِ قاب و قوسین کی ادنٰی منزل تک جا پہنچا، میں اُس کا فرزند ہوں جس نے آسمان کے فرشتوں کو نمازپڑھائی،

جس کی طرف ربِ جلیل نے وحی فرمائیمیں علی مرتضٰی کا فرزند ہوں جس نے بڑے بڑے سر کشوں کی ناک زمین پر رگڑی جس نے رسول اللہ ۔ص۔کے سامنے دو تلواروں اور دو نیزوں سے جنگ کی، جس نے دو بار ہجرت اور دو بار بیعت کی جو بدر و حنینمیں کافروں کے ساتھ لڑےاور پلک جھپکنے کی دیر کے لیے بھی کبھی کفر نہیں کیا میں صالح المومنین امامحسین کا فرزند ہوں میں وارث انبیاء کا فرزند ہوں میں ملحدین کو تباہ کرنے والے اور مومنین کے سردار کا بیٹاہوں، میں اُس حسین کا بیٹا ہوں جسے کربلا کی گرم ریت پر بھوکا پیاسا زبح کر دیا گیا جس کے غم میں جناتنے گریہ کیا جس پر فضا میں پرندوں نے نوحہ پڑھا جو مجاہدوں کا نُور ہے عبادت گزاروں کی زینت ہے گریہکرنے والوں کے سر کا تاج ہے، سب صابروں میں سے بڑا صابر ہے، تمام نمازیوں سے افضل ہے رب العالمینکے رسول کی آل سے ہے میں اُس کا فرزند ہوں کہ جبرائیل نے جس کی تائید کی اور میکائیل نے جس کینصرت کی میں اُس کا بیٹا ہوںجس نے مسلمانوں کے حرم کی حفاظت کی اور ماقین و ناکثین و قاسطین کےساتھ جنگ کی اور دشمنان خدا کے ساتھ لڑتے رہےمیں قوم قریش کی قابلِ فخر ترین شخصیت کا فرزند ہوں میں اُس علی کا بیٹا ہوں

جس نے سب سے پہلے اللہ اوراُسکے رسول کی دعوت پر لبیک کہا اور نبوت کی تصدیق کی میں اُس کا فرزند ہوں جو سابقین میں سب سےپہلا اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی کمر توڑنے والا ہے، مشرکین کو تباہ کرنے والا ہےمیں اُس علی کا فرزند ہوں جو منافقین کے سروں پر خدا کے برسنے والوں تیروں میں سے ایک تیر ہے جو خداکے عبادت گزاروں کی زبان حکمت ہے جو دین خداوندی کا ناصر و مددگار ہے جو اللہ کے امر کا ولی ہے حکمت الٰہی کا بستان ہے، اللہ کے علم کا حامل ہے میں اُس کا بیٹا ہوں جو جوانمرد اور سخی ہے تمام خوبیوں کامجموعہ ہے، سید و بزرگوار ہے، راضی برضائے الہٰی ہے، مشکلات میں آگے بڑھنے والا، ہمیشہ روزے سےرہنے والا اور بہت بڑا نمازی ہے جس نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی جس نے کفر کی تمام جماعتوں کوشکست دے کر تتر بتر کر دیا جس کا دل ثابت و استوار جس کا ارادہ محکم اور پائیدار ہے جس کا وار بہت کاریہے جو شیر کی مانند شجاع ہےعلی ابن حسین اِسی طرح آپ اپنا تعارف کرواتے رہے یہاں تک کہ دربار میں کہرام مچ گیا لوگوں کی دھاڑیںبلند ہو کر یزید کے تاج و تخت اور قصر و محل پر برقِ اجل بن کر گرنے لگیں

کہ فوراً موذن کو حکم ملا کہعلی ابن حسین کے کلام کو قطع کیا جائے اور اذان دی جائےجب موذن نے کہا اللہ اکبر، اللہ اکبر تو امام نے کہا بے شک اللہ سے بالا تر کوئی نہیں جب موذن نے کہا اشھد اناللہ الہ الا اللہ تو فرمایا میرا گوشت و پوست اور خون و جلد اِس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ذات وحدہ لاشریک ہے جیسے ہی موذن نے اشھد ان محمد ار رسول اللہ کہا علی ابن حسین نے روتے ہوئے فرمایا اے یزید یہمحمد مصطفٰی میرے نانا ہیں یا تیرے؟ اگر تو کہتا ہے کہ تیرے ہیں تو صریح جھوٹ ہے اور اگر مانتا ہے کہمیرے جد ہیں تو پھر تو نے اُن کی عترت کو کیوں تہہ تیغ کیا۔ میرے بابا حسین کو تو نے کیوں ظلم کی تلوارسے شہید کیا؟ کیوں ہم اہل بیت کو رومیوں کی مانند قیدی بنایا؟اے یزید اِس قدر عظیم جرم کے ارتکاب کے بعد پھر تو کہتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور قبلہ کی طرفمنہ کرتا ہے؟ افسوس ہے تجھ پر، قیامت کے دِن میرے جد محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآل وسلم تیرے دامن گیر ہوں گے تو اُنہیں کیا جواب دے گا ۔

متعلقہ خبریں