جیپ ریلی سے تلور ویلی

2018 ,مارچ 1



قلعہ دراوڑ کے قریب دھول اُڑاتے دلوش سٹیڈیم میں جیپ ریلی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔مرکزی وزارت سیاحت اور ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب تھوڑی سی توجہ دے کر اور محنت کر کے اس ریلی کو بلندیوں کی معراج تک لے جا سکتی ہے۔ تیرہ سال سے جاری ریلی میں صرف تین غیر ملکیوں کی شرکت کو محکمے کی مایوس کن کارکردگی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ عربوں ا ور انگریزوں کو اس ریلی میں دلچسپی نہیں وہ یقیناً آنا چاہتے ہیں مگر ان کو آپ کیا سہولت دے رہے ہیں؟ ان کو کہاں ٹھہرائیں گے؟ غیر ملکیوں میں ایسی مہم جوئی کا شوق کم ہے نہ ان کے پاس پیسے کی کمی ہے۔ ایک مارخورکی ٹرافی ہنٹنگ پر وہ ایک کروڑ خرچ کر دیتے ہیں۔ آپ ان کو مطلوبہ ، معیاری اور عالمی سطح کی سہولتیں تو دیں۔ ڈیزرٹ کی پاکستان میں کمی نہیں، ریلی چولستان سے تھر میں داخل ہوکر کراچی کے سمندر تک جا سکتی ہے۔ ایسے ایونٹس کی کامیابی کے لئے متعلقہ محکمے کے افسروں اور اہلکاروں کا متحرک، فعال اور رضاکار ہونا بھی ضروری ہے۔ریلی کے روڈ ٹی ڈی سی پی کے پانچ چھ رکنی عملے سے کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو ایسے لگا کہ یہ لوگ ایٹم بم بنا رہے اور ہمیں سوال پوچھنے پر جاسوس سمجھ لیاہے۔ ریلی کے علاوہ بھی محکمے کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔ پاکستان میں کتنے قلعے اور پیلس ہیں جو بھائیں بھائیں اور سائیں سائیں کرتے ہیں۔ افسراں مادر وطن سے نمک خواری کا حق ادا کریں تو یہی ایک محکمہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔ حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ ٹی ڈی سی پی نے ریزورٹ/ہوٹل کے لئے 16 ایکڑ اراضی خریدی ہے یاہتھیالی ہے۔ اب اسکی تعمیر میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی قلعہ کی تزئین اور اس کے حقیقی خدوخال واضح کرنے کے لئے بھی یہ محکمہ جاگ جائے۔ 
اوپن دلوش سٹیڈیم سے شروع ہونیوالی ریس سات میل فنشنگ پوائنٹ تک ٹریک بھی اوپن ہے۔ فنشنگ پوائنٹ سے آگے بھی پیدل بائیک اور گاڑیوں پر لوگ ٹریک کراس کرتے ہیں جو بدترین حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ کم از کم دس کلومیٹر تک باڑ لگانے کی اشد ضرورت ہے۔تیرہ سال میں یہ کام ہوجانا چاہیے تھا۔
چولستان کا ڈیزرٹ ہزاروں میل پر محیط ہے۔ مگر سڑکوں کے ساتھ حدنظر تک لہلہاتی فصلیں حسیں نظارہ پیش کرتی ہیں۔ گنے کی فصل جوبن پر تھی۔سر سبزو شاداب گندم پکائی روتھی۔ سرسوں کے سبز پودوں کے سرپر زرد پھولوں کے تاج عجب نظارہ پیش کرتے ہیں۔ جہاں حکومت کی طرف سے انعام میں فوجی و سول افسروں کو زمینیں الاٹ کی گئی ہیں جو اپنے اثر رسوخ اور وسائل کو بروئے کار لا کر جلد آباد کر لیتے ہیں۔اس علاقے میں ایک مربع 25ایکڑ اراضی کی قیمت دس بارہ لاکھ ہے۔یہ زمینیں ا یک حد سے زیادہ بھی آباد کرنے کی ضرورت نہیں۔ صحرائے چولستان کا حسن برقرار رہنا چاہئے۔ مقامی لوگوں کے روزگا اور آمدن کے مواقع دستکاری انڈسٹری لگاکرگائے ،بکریوں، اونٹنیوں کے دودھ کی برآمدات اور اون کی مصنوعات سے پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ 
رحیم یار خان سے دو دن دراوڑ آنے جانے کی آٹھ دس گھنٹے روز کی مسافت کی اذیت سے بچنے کے لئے شعیب مرزا اور افتخار خان سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ آخری روزکی ریلی کے بعد بہاولپور چلے جائیں۔ چنانچہ اگلے روز شام کو ٹرین میں لاہورکی بکنگ کرا دی گئی۔ ہم لوگ دراوڑ سے تین بجے بہاولپور کیلئے روانہ ہوئے۔ زیادہ تر سڑکیں لاہور کی سڑکوں کی طرح لش بش کرتی ہیں تاہم مُٹھرا بنگلہ تک آنے والی سڑک کے گرد کنواں نما کھڈے سے یہ کسی ’’رُٹھڑا بنگلہ‘‘ کو جاتی معلوم ہو رہی تھی۔ یہ مقامی محکمے کی نالائقی ہے، کیا جان لیوا اور گاڑی توڑ کھڈے بھی وزیر اعلیٰ شہباز نے وہاں کھڑے ہو کے پُر کرانے ہیں۔ 
سرِشام ہم لوگ لال سوہانڑہ پہنچ گئے۔ جہاں ایک جھیل زیر تعمیر ہے جو خشکی مائل ہے شاید بارشوں میں لبریز ہوتی ہے، آبی پرندے جہاں اُڑتے پھرتے چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ وائلڈ لائف محکمے کے کالے اور چنکارہ ہرن کی افزائش کا مرکز دیکھنے کا بھی موقع ملا۔کالا ہرن اس علاقے میں قدرتی طور پر پایا جاتا تھا،جس کا شکاریوں نے ’بی‘ ماردیا۔اب امریکہ سے کچھ جوڑے جہاں لائے گئے ہیں۔ مرکز کے اندر گئے تو یہ ہرنوں کو خوراک دینے کا وقت تھا۔ سٹاف نے تسلوں میں صبح سے پانی میں بھگوئے کالے چنے ڈالے، یونہی یہ لوگ وہاں سے ہٹے تو ہرن قلانچیں بھرتے ہوئے اپنی خوراک پر لپکے اور چند منٹ میں تسلے خالی کر دیئے۔اس جگہ اب تین سو کے قریب یہ جانور موجود ہیں۔ جہاں ہرنوں کو نیچرل ماحول فراہم نہیں کیا جا سکا بہرحال ان کی حفاظت اور خوراک کا مناسب انتظام ہے۔ 
نواز شریف کا صحرا میں تعمیرکردہ آرڈی 50 ریسٹ ہائوس نہر کے اوپر ہے۔ نہر کے دونوں طرف گھنے جنگلات ہیں، اسی ریسٹ ہائوس کے قریب سے ہوبارہ فائونڈیشن کے زیرانتظام شیخ محمد بن زاید چنکارہ افزائشی اور تلور تحقیقی مرکزکوراستہ جاتا ہے۔ گھنے جنگل کے کچھ حصے کو فولادی باڑ سے کور کر کے نیل گائیں رکھی گئی ہیں، جہاں کبھی شیر بھی محصور تھے تاہم اب ناپید ہیں۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں تین لاکھ میل پر محیط صحرائے تکلا مکن صحرا ہے اس کی شہرت اور سیاحوں کے لئے دلکشی کی وجہ ریگستان ا ور جنگل کا حسین امتزاج ہے جنگل میں چلتے چلتے ایک دم سے صحرا شروع ہوجاتا ہے۔ لال سوہانڑہ نیشنل پارک اور چین کے تکلا مکن صحراکو جڑواں صحرا قرار دیا جا سکتا ہے۔جہاں بھی جنگل کے ساتھ ہی صحرا شروع ہو جاتا ہے۔ شیخ محمد بن زاید چنکارہ افزائشی اور تلور تحقیقی مرکز صحرا کے دس کلومیٹر اندر ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ دور سے کیمپ کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں لائٹ کا انتظام جنریٹر سے کیا گیا ہے۔کیمپ اب بستی کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ سٹاف نے خود اپنے لئے لکڑی کی چھتیں ڈال کر مکان بنائے ہیں۔ 
رات گیارہ بجے تک شیخ محمد بن زاید چنکارہ افزائشی اور تلور تحقیقی مرکز کے کمانڈر میجر خالد لئیق نے لیپ ٹاپ کے ذریعے ٹی وی سکرین پر بریفنگ دی۔ 
شیخ محمد بن زاید چنکارہ افزائشی اور تلور تحقیقی مرکز کے 64 کلومیٹر ایریا کولوہے کی بارہ فٹ اونچی باڑ سے کور کیاگیا ہے۔ 16 بائی چار کلومیٹر کے اس ایریا میں چنکارہ اورکالے ہرن بھی افزائش کے لئے چھوڑے گئے ہیں۔ یہ رحیم یار خان میں ہرنوں کی افزائش کیلئے 50 ہزار ایکڑ سے الگ ایریا ہے۔ باڑ کے ساتھ ساتھ ہر دو کلومیٹر کے فاصلے پر ٹاور چوکی بنائی گئی ہے جہاں رائونڈدی کلاک پہرہ ہے۔ اس کے ساتھ جیپ اور بائیک کی گشت بھی جاری رہتی ہے۔ غیر قانونی شکار کو ناممکن بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر شکاری بھی قسمت آزمائی کے لئے جان جوکھوں میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایک تلور پچاس ہزار میں پاکستان میں فروخت ہوتا ہے۔ عرب ممالک میں قیمت ایک لاکھ سے اُوپر ہے۔ شکاری عموماً دھر لئے جاتے ہیں۔ ہوبارہ فائونڈیشن ا ور مقامی ریسرچ سنٹر کے پاس چونکہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی اختیار نہیں اس کے لئے وائلڈ لائف کا عملہ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ صحرا ئی بستی میں یہ لوگ بھی موجود ہیں۔ 
اگلے روز صبح کورڈ ایریا کی وزٹ کی ، تلور تو نظر نہیں آئے تاہم ہرن ضرور بھاگتے دوڑتے کھیلتے کودتے کلانچیں بھرتے پھر رہے تھے۔ دس بارہ تلور ریسرچ سنٹر میں موجودہیں، انہیں اس محدود ایریا میں پنجروں میں نہیں رکھا گیا دو کنال کے ایریا میں چلتے پھرتے ہیں، ایسا معصوم پرندہ ہے جو انسانوں سے مانوس ہے۔ ہتھیلی پر قیمہ رکھا گیا تو لپک کرکھانے کو آ جاتے ہیں۔ اسی مقام پر گزشتہ سال پانچ سو تلور ابوظہبی میں افزائش کے بعد لاکر چھوڑے گئے تھے۔ چند سال میں پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں ڈیڑھ لاکھ تلور افزائش کے بعد ریلیز کئے جا چکے ہیں۔ 
لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے تلور کے شکار پرپابندی عائد کی گئی جو تیسرے دن ہٹا لی گئی، ہائیکورٹ کی طرف تلور کی پاکستان میں تعداد جاننے کے لئے ایک کمیشن بنایا گیا ہے۔ ہائیکورٹ نے تلور کے شکار کی اجازت کو اس کمیشن کی رپورٹ سے مشروط کیا تھا۔ اس کمیشن نے کئی روز رحیم یار خان روجھان اور بہاولنگر میں سروے کیا۔ اس ٹیم کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور ڈرائیور سہیل ساہی نے بتایا کہ کمیشن کے لوگ جی پی ایس سے جائزہ لیتے تھے جس مخصوص ایریا میں سات سے دس تلور ہونے چاہئیں وہاں سے بیس سے زائد بھی پائے گئے، پاکستان میں تلور کی تعداد کے جو اندازے تھے یا اعداد و شمار بتائے گئے تھے سروے میں اس سے کہیں زیادہ پائے گئے۔ 
لال سوہانڑہ نیشنل پارک کے سالانہ اخراجات لاکھوں میں ہیں جو ابوظہبی کے حکمرانوں کی طرف سے ادا کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں کی صورت میں لاتعداد پراجیکٹس بروئے عمل ہیں۔ 
میجر طاہر مجید اور میجر خالد لئیق نے کینٹ ا یریا میں معذور بچوں کے چولستان سپیشل ایجوکیشن سکول کا وزٹ کرایا جہاں سویلین بچے بھی زیرتعلیم ہیں۔ اس سکول میں چند کمرے بمع ان کے فرنیچر کمپیوٹر اور دیگر ضروریات کے ابوظہبی کے حکمران خاندان کی طرف سے ڈونیٹ کئے گئے ۔ سکول کا سٹیڈیم بھی ہوبارہ فائونڈیشن کا تعمیر کردہ ہے۔ صادق پبلک سکول کا گرلز بلاک بھی ابوظہبی کے اسی خاندان کی طرف سے تعمیر کر کے دیا گیا ہے جس کا نام ہز ہائینس شیخ خلیفہ بن زایدرکھا گیاہے۔ ابوظہبی کا حکمران خاندان دیگرعرب ممالک کے حکمرانوں کی طرح تلور کے شکار کا شائق ہے۔ وہ جہاں تلور کا پاکستان کی حکومت سے لائسنس لے کر شکارکرتے ہیں وہیں اس سے کئی گنا تعداد میں تلور کی افزائش کر کے ریلیز بھی کرتے ہیں۔ ان کے پاکستان میں کھربوں روپے کے عوامی و فلاحی منصوبے شکار سے مشروط نہیں ہیں۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ شکار کے باعث تلور کی نسل ناپید ہو رہی ہے تو کسی صورت بھی کسی کو شکار کی اجازت نہیں ہونی چاہئے مگر صرف مخالفت برائے مخالفت پرشکار پر یکسر پابندی کے مطالبات بھارت کے نقطہ نظر کو پرموٹ کرنے کی کوشش کی حوصلہ افزائی ہے۔ ابوظہبی کے حکمرانوں کی طرح سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں کو بھی تلور کی افزائش کے اقدامات کرنا چاہئیں۔ قطر والے تو ’سُکے تے مل ماہیا‘ کے مترادف ایک خط کے بل بوتے پر شکار کرنے آتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں