لاہور میں پہلا فلائنگ کلب 1931ءمیں قائم ہوا اس کلب کا آغاز پنجاب فلائنگ کلب کے نام سے چار ماہر ہوا بازوں ڈاکٹر گوکل چند، سربندرسنگھ مجھیٹہ، روپ چند اور ڈاکٹر جے بی سپرول نے کیا تھا۔ کلب کے قیام کے ایک سال بعد اس کا نام بدل کر ناردرن انڈیا فلائنگ کلب رکھا گیا والٹن میں واقع یہ ایئر پورٹ جنوبی ایشیا کے پہلے فلائنگ کلب کی حیثیت بھی رکھتا ہے یہیں سے سول ایوی ایشن نے پروازوں کا سلسلہ شروع کیا تھا لاہور اور کراچی کے درمیان فضائی سروس 1934ءاور لاہور دہلی سروس 1938ءمیں شروع ہوئی تھی۔
جس دور میں اس ایئر پورٹ اور کلب کا آغاز ہوا اس وقت طیارے اتنے مہنگے نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ایندھن بہت مہنگا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے بہت جلد شائقین میں اپنی جگہ بنالی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ والٹن ایئر پورٹ اس خطے کا سب سے بڑا اور اہم تفریحی ہوائی اڈہ مشہور ہوگیا۔ اس زمانے میں امراءاور روساءمحض تفریح طبع کے لیے ہوا بازی سیکھتے تھے مگر دوسری عالمی جنگ میں ماہر ہوا بازوں کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ایسے میں والٹن ایئر پورٹ اور اس کا فلائنگ کلب انتہائی اہمیت حاصل کر گئے اور یہاں عام لوگوں کو بھی ہوا بازی کی تربیت دی جانے لگی۔ ہندوستان کے طول و عرض سے آنے والے صوبہ پنجاب کے مہمان اسی ایئر پورٹ پر اترتے۔ قیام پاکستان کے موقع پر حضرت قائداعظم کا طیارہ دارالحکومت جانے سے پہلے والٹن میں ہی اترا تھا قائداعظم یہاں متعدد بار شریف لائے تھے۔
یہیں سے فضائی کمپنی اورنیٹ ایئرویز کی پروازیں پورے ملک اور دوسرے ممالک میں جاتی تھیں البتہ تقسیم کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے دو سال تک اس ایئر پورٹ کی سرگرمیاں تقریباً معطل رہیں۔ 1949ءمیں جب پاکستانی حکومت کو فضائی ماہرین کی شدید ضرورت کا احساس ہوا تو والٹن ایئرپورٹ اور اس میں چلنے والے فلائنگ کلب کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہوا اور یہاں سے ازسرنو فضائی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ نومبر 1954ءمیں فلائنگ کلب کا نام ناردرن انڈیا فلائنگ کلب لاہور سے تبدیل کرکے ”لاہور فلائنگ کلب“ رکھ دیا گیا۔ لاہور فلائنگ کلب نے نہ صرف پاکستان میں ہوا بازی کی تربیت کے سلسلے میں خدمات انجام دیں بلکہ یہ دوسرے ممالک کی ایئر لائنز کو بھی ماہر ہوا باز مہیا کرنے میں معاون ثابت ہوتا رہا۔ تربیت کے سلسلے میں حکومت بھی فلائنگ کلب کی امداد کیا کرتی تھی 1955ءمیں لاہور چھاﺅنی کے علاقے میں نیا ایئر پورٹ تیار ہوا تو والٹن ایئر پورٹ صرف ہوا بازی کی تربیت کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا۔
1959ءمیں مارشل لاءکے زمانے میں تمام قسم کی فضائی سرگرمیاں وزارت دفاع کے زیر انتظام کر دی گئیں تو ہوا بازی کا شوق بھی عام لوگوں کے لیے شجر منموعہ قرار پایا اس کے ساتھ ہی ہوا بازی سکھانے کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد بھی بند ہوگئی نئے طیارے اور پرانے طیاروں کے پرزوں کا حصول شائقین کے لیے مشکل کر دینے سے وہ بھی ہوا بازی کی تربیت سے کنارہ کش ہوگئے جس کی وجہ سے کلب ایک بار پھر بحران کا شکار ہوگیا۔
فلائنگ کلب کا کردار مختصر کرکے اسے چارٹر پروازیں چلانے اشتہاری بینر لہرانے فصلوں پر سپرے کرنے اور پبلسٹی پرچیاں پھینکنے تک محدود کر دیا گیا۔ ان نامساعد حالات کے باوجود لاہور فلائنگ کلب بند نہ ہوا اس کی تنظیم کے عہدیدار اپنے طور پر مشکلات پر قابو پاتے رہے۔ لاہور فلائنگ کلب کی سلور جوبلی والٹن ایئر پورٹ پر 9 اپریل 1961ءکو منائی گئی جس کے مہمان خصوصی زون بی کے مارشل لاءایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل بختیاور رانا تھے اس زمانے میں لاہور فلائنگ کلب نے یہ پروگرام بھی بنایا تھا کہ وہ بڑے شہروں کے لیے اپنی ٹیکسی سروس شروع کرے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 13 مئی1990ءکو فلائنگ کلب کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کی تھی۔