لندن سے لاہور ، اڈیالہ اور پھر …

2018 ,جولائی 19



میاں نوازشریف اور مریم نواز لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں وینٹی لیٹر کے ذریعے زندگی سے جڑی بے سُدھ پڑی رفیقہ حیات کے سراپا پر پُرنم آنکھوں سے الوداعی بار نظریں ڈالتے، بوجھل قدموں اور پریشاں دل و دماغ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ وہ دکھ درد کی اُسی کیفیت میں تھے جس میں پاکستان سے لندن گئے۔ اب قید کی سزا کے بعدپاکستان آرہے تھے۔ درمیان میں ابو ظہبی پڑائو تھا۔سر دست ہیتھرو ایئرپورٹ منزل تھی ۔10ستمبر 2007ء کو بھی میاں نواز شریف اسی ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تھے۔ یہ ان کی پاکستان آنے کی جبری کوشش تھی۔ اسلام آباد میں نوازشریف ایک پرواز سے اُترے تو دوسری سے اپنے ہی ملک سے ڈی پورٹ کردیے گئے۔ اس وقت دوران سفر دل میں کئی وسوسے ہونگے، مگر اب ایسا نہیں تھا۔ منزل متعین تھی، لندن جیسے ہنگامہ خیز شہرسے اڈیالہ جیل۔
عرب ممالک کے حکمرانوں کیساتھ انکے پرجوش تعلقات رہے، ان میں سرد مہری شاید یمن وار میںافواج بھجوانے کی پیشکش کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے انکار تھا۔ شاہی خاندانوں کے والہانہ تعلقات شاید خاص خاندانوں سے نہیں، حکمرانوں سے ہوتے ہیں۔ جوبلاامتیازبرقرار رہتے ہیں کہ حکمران کون ہے۔ اس کے مظاہر ابوظہبی ائیر پورٹ پر نظر آئے۔ میاں نوازشریف کو ایئرپورٹ پر مکمل پروٹوکول اور پورا احترام ضرور دیا گیا مگر اس میں پھیکے پن کا عنصر نمایاں تھا۔ محترم عرفان صدیقی اور نصراللہ ملک نے ابوظہبی میں ’’حسن سلوک‘‘ کا تذکرہ کیا ہے۔ لاہور جانیوالے ہائی پروفائل مسافروں کو آخر میں اترنے کی اجازت ملی۔ کچھ گاڑیاں معمول کے برعکس جہاز کے گرد کھڑی ہو گئیں۔ مہمانوں کو احترام اور اہتمام کے ساتھ انتہائی آراستہ پیراستہ مہمان خانے میں لایا گیا جس کے کئی مرصع و مسجع کمرے تھے جہاں قہوے اور کھجوروں سے تواضح کی گئی مگر فرسٹ کلاس لائونج میں میاں نوازشریف کی استراحت کیلئے کمرہ دستیاب نہ ہو سکا۔ پاکستانی اور غیر ملکی صحافی میاں نوازشریف کیساتھ رابطے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے، ان کو روک دیا گیا۔ بزنس کلاس کا مسافر ایک سو ڈالر دے کر فرسٹ کلاس لائونج میں آ سکتا ہے مگر اس روز یہ سہولت ختم کردی گئی تھی۔یہیں سے میاںصاحب نے بیٹوں کو فون پر جو وظیفہ گھر میں پڑھتے تھے اسے جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ بقول نوازشریف اس کے بڑے اچھے اثرات تھے۔ 
مسافروں کے ذہن میں کلبلاتے خدشات اس وقت دور ہوئے جب پرواز ڈیڑھ دو گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی۔ ان کے استقبال کیلئے لاہور میں لیگی لیڈر اور کارکن ایئرپورٹ پہنچنے کیلئے کوشاں رہے۔ میاں نوازشریف ان سے خطاب کرکے جاتی امرا جانا چاہتے اور اگلے روز گرفتاری دینے کا پروگرام تھا۔ لاہور ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد میاں نوازشریف نے کوئی مزاحمت نہ کی تاہم دوسرے جہاز تک جانے کیلئے لائی گئی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے پیدل گئے۔ ان کا اصرار تھا کہ ذاتی ملازم اور معالج کو بھی ساتھ بٹھایا جائے۔ حکام اس پر تیار نہیں تھے۔ زیادہ اصرار پر عابد اور ڈاکٹر عدنان کو جہازپر سوار کرکے اتار دیا۔ 
جیل منتقلی کے اگلے روز میاں شہباز شریف، اپنی والدہ محترمہ اور اہلخانہ کے ساتھ اڈیالہ جیل پہنچے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ سعیداللہ گوندل نے ان کا استقبال کیا ، انہیں اپنے کمرے میں بٹھایا جہاں کچھ دیر بعد میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی بھی پہنچ گئے۔ اس ملاقات میں جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جس کی ریکارڈنگ نہ ہو سکی۔ میاں نواز شریف اپنی والدہ اور مریم نواز دادی اماں کو سامنے دیکھتے ہی ان سے والہانہ لپٹ گئے۔ اڈیالہ جیل میں مریم نواز کی صاحبزادی مہرالنساء نے اپنے شوہر راحیل منیر کے ہمراہ اپنے نانا میاں نواز شریف، والد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور والدہ مریم نواز سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران وہ اپنے ہمراہ فروٹ اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء بھی لائیں۔ 
حسین نواز نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا والد کو رات کو سونے کیلئے بستر نہیں دیا گیا۔ غسل خانہ انتہائی غلیظ تھا۔ ڈاکٹر عدنان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ کمرے کے اندر کوئی جالی وغیرہ نہیں لگی جس کے باعث مچھر، مکھیاں بہت زیادہ ہیں۔ مچھروں نے نواز شریف کو سر سے پائوں تک کاٹا ہوا تھا۔ 
ملاقاتوں کا دن جمعرات ہے اور اس دن بھی سپرنٹنڈنٹ کی اجازت سے ہی ملاقات ہو سکتی ہے۔ نواز شریف کی والدہ اور دیگر اہلخانہ کو ملاقات کی خصوصی اجازت نگران وزیر داخلہ شوکت جاوید کی ہدایت پر دی گئی۔ ملاقات کا وقت ایک گھنٹہ تھا، اس دوران محترمہ بیگم شمیم شریف 45 منٹ روتی رہیں اور سارا وقت نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کیلئے دعائیں کرتی رہیں۔ ملاقات کرنے والوں سے موبائل فون، تمام سامان اور ہر طرح کا کیش لے لیا گیا تھا اور بال پوائنٹ تک نہیں دیا گیا تھا ۔ 
اگلے روز ہفتے کو ہائیکورٹ میں اپیل کرنے کا موقع نہ مل سکا تو سوموار 16جولائی کو اپیل کی گئی۔ ڈویژن بنچ میں جسٹس محسن کیانی اور گل حسن اورنگ زیب شامل ہیں۔17جولائی منگل کو اس بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو انتخابات کے بعد تیس جولائی کو طلب کیا۔ ایک روز قبل سوموار کو احتساب عدالت کے ٹرائیکا کوسزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے دیگر دو ریفرنسز کی سماعت کرنے سے انکار کردیا۔اس روز ایک ڈویلپمنٹ میں نگران وزیر اطلاعات علی ظفر کی طرف سے کہا گیا کہ نوازشریف کا ٹرائل جیل میں نہیں ہوگا، صرف ایک سماعت جیل میں ہوگی۔ امن و امان کا مسئلہ نہ بنا تو ٹرائل کی جیل میں شاید ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسی روز جیل انتظامیہ نے میاں نوازشریف کے ذاتی معالج اور جاوید ہاشمی کو ملاقات سے روک دیا۔ معالج کو روکنا زیادتی ہے تاہم جاوید ہاشمی کو جیل آرڈرز کا زیادہ علم ہے۔ وہ جمعرات کے روز جاتے تو بہتر تھا۔ 
پہلی صبح یعنی ہفتے کے دن راولپنڈی اسلام آباد سے کوئی رہنما اور کارکن اپنی اعلیٰ قیادت کے لئے ناشتہ لے کر نہ پہنچا نہ ہی دن بھر کسی نے اس جانب رخ کیا۔ تاہم دن ڈیڑھ بجے لاہور سے سابق وزیراعظم کا پرسنل سٹاف ان کا ذاتی سامان جن میں ادویات بھی شامل تھیں لے کر اڈیالہ جیل پہنچا۔ یہ ساتھ پالک گوشت، مٹن قورمہ لایا تھا۔ تولئے، صابن، شیمپو وغیرہ بھی جیل پہنچائے گئے لیکن میاں نوازشریف کے ذاتی عملے کو ان سے ملنے کی اجازت نہ ملی۔ 
اڈیالہ جیل کی جس بیرک میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عرصہ اسیری گزارا اسی میں میاں نوازشریف کو منتقل کیا گیا جبکہ ان کی صاحبزادی کو خواتین وارڈ کی بیرک میں وہ کمرہ الاٹ کیا گیا جس میں ایان علی رہی ۔ مریم نواز نے ناشتے میں کچھ بھی کھانے سے گریز کیا تاہم مریم نواز نے لنچ میں سنیکس اور جوس لئے جبکہ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے لنچ میں پھل کھائے اور جوس پیا۔
سب سے بڑی مضحکہ خیزی یہ رہی ہے کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے نوازشریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے سفارشات وفاقی کابینہ کو بھجوائیں۔ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ 
میاں نوازشریف جیل سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں مگر ماضی کے تناظر میں انتخابی مہم کے انتخابی تنائج پر کوئی اثرات مرتب ہوتے نظر نہیں آتے۔1997ء کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی کو پورے ملک سے 18قومی اسمبلی کی سیٹیں ملی تھیں۔ اس پارٹی کے طر حدار لیڈر بھی بُرج خلیفہ سے چوبرجی بن گئے تھے۔ اُس وقت جو قوت پیپلزپارٹی سے نالاں تھی، آج مسلم لیگ ن کو پریشان کر رہی ہے۔خلائی مخلوق کے انتخابی عمل میں مداخلت کانواز لیگ کی لیڈر شپ دعویٰ کررہی ہے اوراس پر کارکنوںکا ایمان ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آج ویسا نہیں ہو سکتاجیسا 97میں ہوا۔ کیا بدلہ ہے؟ کیا انسان اور آسماں بدلے ہیں؟۔ زمین و زماں اور مکاں بدلے ہیں۔ کیا آسمان سے اناج برستا اور بارش کے پھوارے زمین سے پھوٹتے ہیں؟۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ ہر چیز فطرت پر،ہم بھی اُسی ڈگر پر ہیں۔ آج ماضی دہرایا جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کے پیچھے خلائی مخلوق پڑی ہے تو پی پی پی کے اسی مخلوق نے پیچھے پڑ کراسے 18سیٹوں تک محدود کر دیا تھا۔ اب لیگ کے حصے میں بھی اتنا ہی آتا محسوس ہوتاہے۔ فی سال ایک سیٹ کا بونس دیا جائے تو اس کی سیٹوں کی تعداد18 میں 21 جمع کر کے 39 ہو سکتی ہے ۔ یہ خلائی مخلوق کے کردار سے ممکن ہوگا۔ اگر اس کا کردار نہیں ہے تو نواز لیگ سویپ بھی کر سکتی ہے۔ آخر میں ایک سوال کہ میاں نوازشریف اور مریم کو قیدو جرمانے کی سزا ہوئی ہے جائز یا ناجائز کی بحث میں پڑے بغیر اس سزا سے کیا کرپشن میں کمی آئے گی یا اضافہ ہوگا؟۔

متعلقہ خبریں