فضائل حج

لاہور(علامہ منیر احمدیوسفی ): وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط (آل عمران: ۷۹) ’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر گھر (کعبتہ اللہ) کا حج ہے وہ جو اس کی طرف راستہ کی طاقت رکھتا ہو‘‘۔ بچوں اور دیوانوں پر حج فرض نہیں۔ حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جب یہ آیت مبارک اُتری کہ تو لوگوں نے عرض کیا‘ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیک وسلم)کیا ہر سال حج کرناہے؟ (جب حضور نبی کریم ؐ نے یہ سوال سنا) تو (آپ ؐ) خاموش رہے۔ پھر عرض کیا گیا، یارسول اﷲ (صلی اﷲ علیک وسلم) ہر سال؟ (آپ ؐ نے) فرمایا نہیں! اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا تو پھر نے یہ آیت مبارک اُتاری۔’’اے اِیمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بڑی بری لگیں یعنی تم پرشاق گزریں‘‘۔ (مسند احمد جلد ۱ ص ۳۱۱‘ ابن ماجہ ص ۳۱۲ )الناس:سے مراد مسلمان ہیں کیونکہ کفّار و مشرکین اور ملائکہ پر حج فرض نہیں۔ چونکہ بیت اللہ شریف وجوبِ حج کا سبب ہے اِس لئے ’’حج البیت‘‘ کہا گیا ہے۔ شریعت میں احرام باندھ کرمخصوص دنوں میں وقوف عرفات اور طواف زیارت وغیرہ کانام حج ہے۔ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا سے مراد توشہ اور سواری ہے۔ تندرستی‘ راستہ کا امن‘ مال جو اپنے جانے آنے کے لئے اور اسی مدت میں متعلقین (بال بچوں) کے خرچ کے لئے کافی ہو تو یہ توشہ ہے۔ یہ شرائط باہر والوں کے لئے ہیں۔ خود مکہ مکرمہ والوں کے لئے نہیں‘ انہیں نہ سواری شرط ہے نہ مالداری، کیونکہ ان کے گھر میں ہی حج ہے۔ اسلام، اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُقف (آل عمران:۹۱) حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’اِسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے۔ (۱) اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدؐ اللہ کے محبوب بندے اور سچے رسول ؐہیں۔ (۲) نماز (پنجگانہ) قائم کرنا۔ (۳) زکوٰۃ دینا۔ (۴) حج کرنا۔ اور (۵) رمضان المبارک کے روزے رکھنا‘‘۔ جو کوئی اِن میں سے کسی ایک کا اِنکار کرے گا، وہ اِسلام سے خارج ہو گا۔(بخاری جلد۱ ص۶‘ مسلم جلد۱ ص۲۳) اِسلامی عبادات میں حج کا مقام نہایت ارفع و اعلیٰ ہے۔ اِس میں اِجتماعیت کا حقیقی تصور پایا جاتا ہے۔ نماز پنجگانہ میں روزانہ پانچ اَوقات میںایک بستی‘ محلہ اور کوچہ کی سطح پر اِجتماعیت نظر آتی ہے جبکہ ’’حج‘‘ کی صورت میں بین الاقوامی اِجتماعیت کا حسین منظر‘ حسنِ اِسلام کو اُجاگر کرتا ہے۔ ساری دنیا سے مختلف رنگوں‘ قوموں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کامیدانِ عرفات میں جمع ہونا ‘عقیدہ توحید و رسالت پر یقین اور وحدتِ اُمّت کا درس دیتاہے۔ اِفتراق و انتشار کی نفی کرتا ہے۔حج کا اِجتماع شوکتِ اِسلام اور اِتحاد اِسلامی کا عظیم مظاہرہ ہے مگر ملّتِ اِسلامیہ کے بدخواہ لوگ وہاں بھی نفرت کے بیج بونے اور مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے کے لئے شرک و کفر کے فتوئوں سے اِتحاد اُمّت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے سامنے درس دینے والے، بعض ناعاقبت اندیش، خانہ کعبہ آئے ہوئے توحیدورسالت کے پروانوں کو ایسے فرقہ وارانہ لیکچر دیتے ہیں کہ وہاں موجود بے شمار لوگ لیکچر دینے والوں سے نفرت کا اِظہار کرتے ہیں۔ جو کام یہودونصاریٰ کر رہے تھے‘ اَب یہی کام فرقہ پرست لیکچرار سرانجام دے رہے ہیں۔ اِتحادِ اِسلامی کے خلاف خوفناک کام کر رہے ہیں۔ قابلِ غور مقام ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مشرکین و کفّار کا داخلہ بند ہے مگر تنخواہ دار، فرقہ پرست، لیکچرار بیت اللہ شریف میں بیٹھے ہوئے، حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والوں کو مشرک و کافر کہہ کر اور خارجِ اِسلام قرار دے کر اِنتشار و اِفتراق کا بیج بو رہے ہیں۔ حج کا عظیم مقصد مناسک حج کی بجاآوری کے ذریعے عقیدئہ توحید کا ظاہر کرنا او ر عشقِ مصطفی ؐ کا پیغام سنانا اوریہ بتانا ہے کہ حج کرنے والا اللہ کو وحدہٗ لاشریک مانتا ہے اور رسولِ کریم ؐ کو آخری نبی کریم ؐ مانتا ہے اور دینِ حنیف ’’اِسلام‘‘ سے وابستگی رکھتا ہے۔
حج کے معنی:
حج کے لغوی معنی ہیں قصد اور اِرادہ۔ اِصطلاحِ شرع میں ’’وقوفِ عرفات‘‘ پرمشتمل عبادت کے لئے کعبتہ اللہ کا قصد کرنا یا عبادت کی نیّت سے کعبتہ اللہ کا اِرادہ کرنا حج ہے۔ حج کا سبب کعبتہ اللہ ہے۔
حج کیا ہے؟
حج ایک معین اور مقرر وقت پر اﷲ کے فرمانبردار بندوں کی طرح اُس کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہونا اور اُس کے پیارے خلیل علیہ السلام اور محبوب کریم ؐ کی اَداؤں کی نقل کرکے اُن کے سلسلے اور اندازِ محبت سے اپنی وابستگی اوروفاداری کا ثبوت دینا ہے۔ نیز اپنی اِستعداد کے بقدر ابراہیمی اور محمدی ؐ جذبات وکیفیات سے حصّہ لینا اور اپنے آپ کو اُن کے رنگ میں رنگنا ہے۔’’کعبہ شریف سب سے پہلے فرشتوں نے بیت المعمور کے مقابل بنایا اِس کا نام فرشتوں کے ہاں ’’ضراح‘‘ تھا۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے دو ہزار سال پہلے سے فرشتے اِس کا حج کرتے تھے پھر انبیاء کرام علیہم السّلام ‘ ہمارے نبی کریم ؐ کے دُنیا میں تشریف لانے تک حج کرتے رہے ہیں۔ حج بیت اللہ ۵ھ‘ ۶ھ یا ۹ھ میں مسلمانوں پر فرض کیا گیا۔ رسولِ کریم ؐ نے فرضیتِ حج سے پہلے ہجرت سے قبل جو حج کئے وہ عادتِ کریمہ کے طور پر تھے۔ حضرت اسماعیل بن اسحاق علیہ الرحمہ نے حضرت مجاہد علیہ الرحمہ سے ذکر کیا کہ حضرت آدم ہندوستان میں اُتارے گئے اور حضرت آدمؑ نے ہندوستان سے پیدل چل کر چالیس حج کئے۔ (تفہیم البخاری جلد۲ ص۲۶۵‘ مرآۃ جلد۴ ص۵۸) ۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے بھی پیدل حج کیا۔ اِسی طرح سیدنا حضرت امام حسنؓ نے پچیس حج پیدل کئے۔ (تفہیم البخاری جلد۲ ص۲۶۵)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’بہرحال موسیٰ گویا کہ میں اُنہیں دیکھ رہا ہوں جب کہ وہ وادی میں اُترے اور لبیک کہہ رہے ہیں‘‘۔(بخاری جلد۱ ص۰۱۲‘ تیسیرالباری جلد۲ ص۵۵۴‘) ایک روایت میں حضرت ابراہیم کا ذکر بھی ہے۔ (تیسیرالباری جلد۲ ص۶۵۴) صحیح مسلم میں حضرت اِمام مسلم علیہ الرحمہ نے حضرت ابوالعالیہ علیہ الرحمہ کے طریق سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے حدیث شریف بیان کی ہے۔ اِس میں صراحتہً مذکور ہے کہ حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا: میں گویا کہ حضرت موسیٰ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے دونوں کانوں پر اُنگلیاں رکھے ثنیہ سے اُتر رہے ہیں اور اُس وادی سے گزرنا چاہتے ہیں اور تلبیہ کہہ رہے ہیں۔ اِس طرح اِس حدیث شریف میں حضرت یونس کا ذکر بھی ہے۔ (تفہیم البخاری جلد۲ ص۰۹۵) ۹ ہجری کو مکۃ المکرمہ فتح ہوا تو بعض لوگوں نے حج کیا۔ ۹ہجری میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ امیر الحجاج بنا کر بھیجے گئے اُنہوں نے لوگوں کو حج کرایا ۔ اور ۰۱ ہجری میں سیّدِ کائنات حضور نبی کریم ؐ نے حج مبارک ادا فرمایا‘ جسے حجتہ الوداع کہتے ہیں۔ نبی کریم ؐ کا اِتنے عرصے تک حج نہ کرنا اِس لئے تھا کہ آپ ؐ کو اپنی زندگی مبارک اور اپنے حج مبارک کا علم تھا۔ حق یہ ہے کہ نبی کریم ؐ نے ہجرت سے پہلے بھی دو یا تین حج کئے ہیں جیساکہ اِمام ترمذی‘ اِمام ابن ماجہ اور اِمام حاکم رحمہم اللہ تعالیٰ نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے۔ (مرقات) ( مرآۃ جلد۴ ص۶۸)
مشرکین پر پابندی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جس سال رسولِ کریم ؐ نے حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو چند آدمیوں کے ساتھ ’’امیر الحجاج‘‘ بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کو خبر کریں: کہ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے‘‘۔(نسائی جلد ۲ ص ۸۳، ترمذی جلد ۱ ص ۵۷۱)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں حضرت سیّدنا علی ؓکے ساتھ آیا‘ جب رسولِ کریم ؐ نے اُنہیں سورۂِ برأت سنانے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا۔ راوی (حضرت محرر ؓ) کہتے ہیں میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا تم کیاپکار رہے تھے؟انہوں نے کہا ہم پکار رہے تھے ۔ ’’نہیں جنت میں جائے گا مگر مومن اور وہ جو ننگا ہوگا وہ بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرے‘‘۔(مشکوٰۃ ص ۷۲۲) اور جس شخص نے رسولِ کریم ؐ سے اِقرار کیا ہو تو اُس کی مدت اور مہلت چار ماہ تک ہے تو جب چار ماہ گزر جائیں تو اللہ اور اُس کے رسولِ کریم ؐ مشرکوں سے بیزار ہیں۔ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہ آئے تو میں پکا رتا ہوں اور میری آواز بڑھ گئی۔
حج شریف پر جانے کا اِعلان:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ؐ نے جب حج شریف کا اِرادہ فرمایا‘ تو لوگوں میں اِعلان فرما دیا گیا پھر لوگ جمع ہوگئے۔ (مشکوٰۃ ص ۳۲۲، ترمذی جلد ۱ ص ۶۸۱)آپ ؐ نے سارے عرب میں اپنے حج کا اِعلان فرمایا کہ ہم فلاں تاریخ کو مدینہ منورہ سے روانہ ہورہے ہیں۔تاکہ زیادہ سے زیادہ اِیمان والے لوگ اِس مبارک سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل و اَحکام سیکھ لیں اور سفر حج میں آپ ؐ کی صحبت و رفاقت کی خاص برکات حاصل کر سکیں۔ چنانچہ دُور دراز سے ہزاروں مسلمان جن کو اِس کی اِطلاع ہوئی اور اُن کو کوئی مجبوری نہیں تھی، مدینہ طیبہ آگئے۔ ۴۲ ذیعقدہ کو جمعتہ المبارک تھا ۔اُس دن آپ ؐ نے خطبۂ مبارکہ میں حج اور سفرِ حج کے متعلق خصوصیت سے ہدایات جاری فرمائیں اور اگلے دن ۵۲ ذیعقدہ ۰۱ ھ بروز ہفتہ بعد از نماز ظہر مدینہ طیبہ سے یہ عظیم الشان نورانی قافلہ روانہ ہوا اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ جا کر پڑھی۔ جہاں آپ ؐ کو پہلی منزل کرنی تھی اور یہیں سے اِحرام باندھنا تھا۔ رات بھی وہیں گزاری اور اَگلے دن یعنی اتوار کو ظہر کی نماز کے بعد آپ ؐ اور آپ ؐ کے صحابہ کرام نے اِحرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے اور راستہ میں عُشّاق کی تعداد میں اِضافہ ہوتا گیا۔ روایات کے مطابق اِس سفر میں آپ ؐ کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ تیس ہزاروں تک تھی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ حج وہ عبادت ہے جس کا اِعلان افضل ہے تاکہ دوسروں کو بھی حج شریف کا شوق پیدا ہو اور حج کے لئے جانے والوں سے لوگ آکر دُعائیں کرائیں۔ حرمین شریفین میں رہنے والے اپنے اَحباب کو تحفے اورکبوتروں کے لئے دانہ وغیرہ بھیج سکیں۔ آج کل جو طریقہ کار ہے کہ لوگ جلوس کی شکل میں اسٹیشن یا ہوائی اڈے تک حاجیوں کو پہنچانے جاتے ہیں، گلے میں ہار ڈالتے ہیں اِن تمام کاموں کا ماخذ یہی حدیث ہے یہ سب اِعلان کی صورتیں ہیں۔ (مرآۃ جلد ۴ ص ۷۰۱)
زندگی میںایک مرتبہ حج فرض ہے:
حدیث شریف نمبر ۱:حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ؐ نے خطبہ اِرشاد فرمایا:’’فرمایا: اَے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘۔ایک شخص نے عرض کیا: ’’کیاہر سال، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)‘‘۔ آپ ؐ چپ رہے‘ حتیٰ کہ اُس شخص نے تین بار عرض کیا‘ تو آپ سرکار ؐ نے فرمایا: ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے پھر فرمایا مجھے چھوڑے رہو جس میں تمہیں آزادی عطا فرمائوں کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے اَنبیاء سے زیادہ پوچھ گچھ اور زیادہ جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے، لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے کر گزرو اور جب تمہیں کسی کام سے منع کروں تو اُسے چھوڑ دو‘‘۔ (مسلم جلد۱ ص۲۳۴‘ مشکوٰۃ ص۱۲۲)
آپ ؐ کا مطلب یہ ہے کہ میری لائی ہوئی شریعتِ مطہرہ کا مزاج تنگی اور سختی کا نہیں ہے بلکہ وسعت اور سہولت کا ہے، جس حد تک تم سے تعمیل ہو سکے اُس کی کوشش کرو، اگر بشری کمزوریوں کی وجہ سے کوئی کمی یا کسر رہ جائے گی تو اﷲ تبارک وتعالیٰ کے رحم و کرم سے اُس کی معافی کی اُمید ہے۔
محولہ بالا حدیث شریف سے چندحکیمانہ مسائل ملاحظہ ہوں:
(۱)سرکارِ کائنات کی خاموشی: سائل کو سوال کرنے سے روکنے کے لئے تھی تاکہ مزید جواب کی ضرورت نہ ہو۔ سائل کا اِشتیاق سوال کرواتا رہا۔(۲)پورا جواب تو کیا آپ سرکار ؐ کے صرف ہاں فرمانے سے ہی حج ہر سال فرض ہو جاتا۔ (۳)رسولِ کریم ؐ کو اللہ نے اَحکام شرعیہ کا مالک بنایا ہے۔ آپ ؐ کی ہاں اور نہ میں بھی قانون اور اُصول ہے۔ آپ ؐکا کلام وحی الٰہی ہے۔ ’’ اور وہ (یعنی رسولِ کریم ؐ)اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے ،وہ تو نہیں مگر جو اُنہیں وحی کی جاتی ہے‘‘۔(النجم:۳۔۴) رسول اللہ ؐ کے سارے کام اور کلام اللہ کی طرف سے ہیں۔ (۴)رسولِ کریم ؐ کے اَحکام میں کیوں کیسے اور کب کہہ کر قید نہیں لگائی جاتی۔ آپ ﷺ شرعی احکام کی تبلیغ کے لئے تشریف لائے۔(۵)آپ سرکار ؐ کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اور ممنوعات سے بچنا لازم ہے۔اللہ نے مصطفی کریم ؐ کی عظمت و شان میں فرمایا ہے: ’’اور رسولِ (کریم ؐ) تمہیں جو کچھ عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں اُس سے باز رہو‘‘۔ (الحشر:۷)(حدیث شریف نمبر ۲)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ؐنے فرمایا: ’’اَے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، تو حضرت اقرع بن حابس ؓ کھڑے ہو گئے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) کیا ہر سال؟ فرمایا: اگر ہم ہاں کہہ دیتے تو اِسی طرح ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر یہ (ہر سال) فرض ہوجاتا تو نہ تم عمل کرتے اور نہ کر سکتے۔ پس حج تو ایک ہی بار ہے جو زیادہ کرے وہ نفل ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۱۲۲‘ مسند احمد ‘ نسائی ‘)
حج مبرور:
حج مبرور‘ وہ حج ہے جو لڑائی جھگڑے اور گناہ و ریاء سے خالی ہو۔ نیز یہ وہ حج ہے جو حلال کمائی اور صحیح طریقے اور اِخلاص سے ادا کیا جائے اور مرتے دم تک کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے حج باطل ہو جائے یعنی مقبول حج کا بدلہ صرف دنیاوی غذا اور گناہوں کی معافی یا دوزخ سے نجات اور تخفیف عذاب نہ ہو گا بلکہ اِس کا صلہ شفاعت بھی ہو گی اور بخشش بھی ۔ حاجی گھر آنے تک اللہ کی اَمان میں رہتا ہے اور اُس کو جنت ضرور ملے گی۔
جنت واجب:
حضرت ام سلمہ ؓسے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ میں نے رسولِ کریم ؐ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام تک حج و عمرہ کا احرام باندھے اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے‘‘۔(مشکوٰہ ص ۲۲۲، تلخیص الحبیر جلد ۲ ص ۰۳۲) اِس حدیث شریف سے مراد یہ ہے کہ پہلے بیت المقدس کی زیارت کرے پھر وہاں سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ حاضر ہو کر حج یا عمرہ کرے۔اِس حدیث شریف سے یہ فائدہ بھی حاصل ہوا کہ جس قدر دُور سے احرام باندھا جائے گا اسی قدر زیادہ ثواب ملے گا۔ میقات سے پہلے احرام باندھ لینا یہاں تک کہ اپنے گھر سے ہی احرام باندھ کر نکلنا افضل ہے۔ بشرطیکہ احرام کی پابندیاں پوری کر سکے۔
بچے کی طرف سے حج:
فوت شدہ والدین کی طرف سے حج کرنا:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی اپنے والدین کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے حج کرے‘ اللہ اُس کو دوزخ کی آگ سے آزاد فرمادے گا اور جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے اُن کو پورا اَجر ملے گا‘‘۔ اور رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’سب سے بہتر صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے وصال شدہ رشتہ داروں کی جانب سے حج کیا جائے‘‘۔(شرح الصدور ص۳۹۲‘ بحوالہ الجامع لشعب الایمان۔ ) حضرت انس ؓسے روایت ہے، فرماتے ہیں، ایک شخص نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور حج جو کہ فریضہ اسلام ہے اس نے ادا نہیں کیا۔ (اس بارے میں مجھے کیا حکم ہے) تو آپ ؐ نے فرمایا اگر تیرے باپ پر کچھ قرضہ ہوتا تو کیا تم ادا کرتے؟ عرض کیا‘ضرور ادا کرتا۔ فرمایا! یہ (بھی) اُس پر قرض ہے اُسے اَدا کر۔(شرح الصدور ص۳۹۲‘ مجمع الزوائد جلد۳ ص۲۸۲۔)