حیات ِ جاوداں

پاکستان کی چھ معروف جامعات دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی نئی رینکنگ میں شامل ہیں،یہ تعداد کیو ایس ورلڈ رینکنگ 2015 کے مقابلے میں دُگنی ہے۔'کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے تیرہویں ایڈیشن میں امریکہ اور برطانیہ کے معروف تعلیمی اداروں نے اپنی ٹاپ پوزیشن برقرار رکھی۔دنیا کی ٹاپ یونیورسٹی کا اعزاز امریکہ کی یونیورسٹی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے حاصل کیا ۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی دوسرے اور ہارورڈ یونیورسٹی تیسرے نمبر پر ہے۔کیو ایس نے ایشیا کی ٹاپ 300 یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی فہرست میں پاکستان کی 10 یونیورسٹیوں کو شامل کیا ۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی تازہ ترین فہرست میں پاکستان کی چھ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔عالمی درجہ بندی کی بنیاد پر نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کو ملک کی بہترین یونیورسٹی کا اعزاز حاصل ہوا ۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور قائد اعظم یونیورسٹی بالترتیب پاکستان کی دوسری اور تیسری بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔سالانہ رینکنگ میں اس مرتبہ تین نئی جامعات کو + 700 بہترین یونیورسٹیوں کے گروپ میں شامل کیا گیا ہے جس میں یونیورسٹی آف کراچی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور یونیورسٹی آف لاہور شامل ہیں۔دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں پاکستان کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں پاکستان کی یونیورسٹیوں کا آنا ہمارے تعلیمی نظام میں پیش رفت کی علامت ہے۔
درجہ بندی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر اسٹن فورڈ یونیورسٹی کا نام ہے۔ یہ 1885ء میں 15 سالہ لی لینڈ اسٹن فورڈ کے نام پر قائم کی گئی۔ لی لینڈ اسٹن فورڈوالدین کا اکیلااورلاڈلا بیٹا تھا۔اسٹن فورڈ کیلی فورنیا کے گورنر اور امریکی سینٹر رہے۔انکی دولت کا کوئی شمار قطارنہیں مگر انکی کل کائنات ان کا بیٹا لی لینڈاسٹن فورڈ ہی تھا۔وہ ٹائیفائیڈمیں مبتلا ہوا جو جواں سالہ لی لینڈاسٹن فورڈ کی جان لے گیا۔اس سے والدین کی کائنات اجڑی اور دنیا تاریک ہوگئی۔اسٹنفورڈ اور انکی اہلیہ جین نے اپنے بیٹے کی یادیں معدوم نہ ہونے دینے کیلئے اسکے نام سے اسٹنفورڈ یونیورسٹی قائم کردی جو کئی دہائیوں سے دنیا کی دوسری بہترین یونیورسٹی کے درجے پر ہے۔ سٹنفورڈ یونیورسٹی 8 ہزار ایک سو 80ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ یونیورسٹی کے ساتھ 800 بیڈ کا ہسپتال بھی ملحق ہے۔ یہ نان پرافٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ ہے۔ اس یونیورسٹی کے کئی شہروں میں کیمپس کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز کینیڈا سے مطلوب وڑائچ کی ایک پرسوز تحریر نظر سے گزری۔’’ آج دو سال بعد جب میں ہسپتال داخل ہوا تو سائن بورڈ پر ٹورنٹو ایسٹ جنرل ہسپتال کی بجائے ’’مائیکل گیرن ہسپتال‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر حیرانی ہوئی، پتہ چلا مائیکل البرٹ گیرن صرف چھ سال کا تھا جب اسے کینسر کا مرض تشخیص ہوا۔ مائیکل کی ماں برنا گیرن اور باپ مائرن گیرن کی دولت کا اندازہ اربوں ڈالرز ہے۔ سات سال مائیکل کا علاج ہوتا رہا مگر اسے بچایا نہ جا سکا۔ مائیکل گیرن معصومانہ انداز میں ہر بار اپنی ماں سے ایک ہی سوال کرتا کہ ’’ماں میرے دنیا سے جانے کے بعد آپ لوگ مجھے بھول تو نہیں جائو گے؟‘‘ پھر 2 دسمبر 2015ء کو گیرن خاندان نے ٹورنٹو ایسٹ جنرل ہسپتال کی مینجمنٹ کو پچاس ملین ڈالرز (پانچ ارب روپے) کا چیک دیا جس پرمینجمنٹ نے ہسپتال کو نیا نام مائیکل گیرن ہسپتال دیدیا۔ یہی نہیں گیرن فیملی نے اسکے علاوہ بھی اس ہسپتال کو جہاں مائیکل گیرن کی پیدائش ہوئی تھی اس کو تیس ملین ڈالرز (تین ارب روپے) عطیہ کئے جبکہ پورے کینیڈا میں مختلف ہسپتالوں اور سکولز کو اربوں روپے کے عطیات دیئے گئے۔
پاکستان میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے پیاروں کی یاد اور ان کا نام جاوداں رکھنے کیلئے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔عمران خان ان میں شامل ہیں۔ انہوں نے کچھ اپنی جیب سے اور بہت کچھ لوگوں سے لے کر شوکت خانم ہسپتال بنایا۔ اس میں انکے دعوے کیمطابق 75 فیصد بے وسیلہ لوگوں کا علاج ہوتا ہے۔ اس کارِ خیر میں میاں نواز شریف کا بھی بڑا حصہ ہے۔ مگر اب یہ لیڈر پاکستان کی سیاست میں دو مختلف انتہائوں پر کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن سے وابستگان کا ایک بڑا حصہ عمران سے نفرت کے اظہار کو ایمان کا درجہ دیتاہے۔ ایسی نفرت میاں نواز شریف کے ساتھ محبت میں کی جاتی ہے۔ ان میں کتنے ہونگے جن کے عمران خان کے سیاست میں یا میاں نواز شریف کے مدمقابل آنے سے پہلے بھی ایسے ہی نفرت انگیز جذبات تھے؟ آج کچھ لوگ اس حد تک بھی چلے گئے کہ شوکت خانم ہسپتال کو گرانے کے درپے ہیں۔ فنڈز کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ انکے غلط استعمال اور جوئے میں جھونکنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ فنڈز رک گئے تو ہسپتال خود بخود گر جائیگا۔
عمران خان سے کہیں زیادہ پیسہ میاں نواز شریف، آصف زرداری، چودھری برادران اور مولانا فضل الرحمن اور دیگران کے پاس ہے۔ میاں نواز شریف کے والد، زرداری کے ماں باپ اور اہلیہ بینظیر بھٹو، چودھری صاحبان کے والدین اور مولانا کے والد مفتی محمود دنیا سے اٹھ گئے۔ انکی یاد میں اور ان کا نام رہتی دنیا تک زندہ و جاوید رکھنے کیلئے کوئی عوامی و فلاحی منصوبہ شوکت خانم، اسٹن فورڈ یونیورسٹی، مائیکل گیرن ہسپتال جیسا نظر نہیں آیا بلکہ ان شخصیات کے دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد اولادوں کی دولت میں کئی ہزار گنا نہیں تو کئی سو گنا اضافہ ضرور ہوا ہے۔ زرداری نے سرے محل سے پہلے انکار کیا تو پھر ملکیت کا دعویٰ کرکے بیچ دیا۔
آجکل محترمہ کلثوم نواز صاحبہ لندن کے کسی ہسپتال میں کینسر کیخلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ وہ وہاں صحت کی بدترین حالت میں ہیں اور یہاں انکے خاوند اور بیٹی پرہجوم جلسوں میں میوزک کی تھاپ پر اداروں پر برس رہے ہیں۔ پشاور کا جلسہ بہت بڑا جلسہ تھا۔ اس میں وہی موسیقی اور ہلہ گلہ اور شور شرابا تھا ان خرافات کی روایت پی ٹی آئی نے ڈالی۔ جس وقت جلسہ ہو رہا تھا عین اس وقت پر سوات میں دہشت گردی کا نشانہ بننے 13 فوجیوں کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی۔ اس سانحہ کے بعد جلسہ ملتوی کرنا مناسب تھا اگر کرنا ناگزیر تھا تو سادگی سے تقریریں کی جاسکتی تھیں۔ کلثوم نواز کا علاج لندن میں ہو رہا ہے کتنا اچھا ہو کہ انکے نام پر پاکستان میں شریف خاندان ایک ہسپتال بنا دے جس میں کینسر سمیت دیگر امراض کا فری علاج ہو۔ میاں شریف کے نام پر شریف میڈیکل کمپلیکس موجود ہے اس کو کمرشل بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ رحمت شاہ آفریدی بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایک دور میں اس ہسپتال کے نام 525 بی ایم ڈبلیو گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔
کل یوم یکجہتی کشمیر جوش و جذبے سے منایا گیا۔ اس میں بھی ہماری اعلیٰ قیادت نے اپنی اپنی سیاست کی۔ زرداری نے اس روز اپنا پور زور میاں نواز شریف کی کردار کشی پر لگا دیا۔ ان کو درندہ اور ناسور کہتے رہے مگر عمومی تاثر بدل نہیں سکا کہ زرداری اور نواز شریف سیاست میں ایک دوسرے کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ ادھر میاں نواز شریف اس موقع پر پھر عدلیہ کو نشانہ بناتے رہے۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے جس پر ن لیگ کی نسبتاً زیادہ گرفت ہے۔ اس پر جائیں تواگلے الیکشن مسلم لیگ ن دو تہائی سے زیادہ اکثریت لیتی نظر آتی ہے۔ جنرل مشرف بھی سوشل میڈیا کے لیڈر تھے۔ اسکے فریب آئے اور مقبولیت کے زعم میںمیں حکومت بنانے پاکستان چلے آئے تھے۔ مگراس میں شک نہیں کہ اگر عمران خاں نااہل ہو جاتے تو مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ کسی وجہ سے عمران الیکشن سے آئوٹ ہوتے ہیں تو نواز لیگ یہ عمل دہراکر دکھا سکتی ہے۔اب بھی مسلم لیگ ن کا مقبولیت میں باقی پارٹیوں سے پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
اپنے پیاروں کی یاد میں ہر کوئی تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنانے کی استعداد نہیں رکھتا مگر بہت کچھ کر سکتا ہے۔پاکستان میں کروڑ پتی لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ایسے لوگوں کیلئے یہ واقعہ بھی کچھ کر گزرنے کے جذبے کا باعث بن سکتا ہے۔
پالن پور گجرات (بھارت) کے سرمایہ دار‘ جیتو بھائی نے بیٹے روی کی شادی میں 18 ہزار بیوائوں کو دعوت دی‘ انہیں رخصت کرتے وقت ایک کمبل‘ آنگن میں لگانے کو درخت کا ایک پودا‘ ایک گائے کی بچھڑی اور بالکل غریب بیوائوں کو ایک دودھ دینے والی گائے تحفہ میں دی۔