کان نمک کھیوڑہ

2018 ,مارچ 17



پاکستان کو قدرت نے بیش بہا نعمتوں سے مالا مال کیا ہے جہاں جھیلیں، دریا، پہاڑ، زرخیز میدان، وسیع صحرا، کھلا سمندر اور متنوع موسم اس کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں وہاں زیر زمین معدنیات کی دولت اس کی قدر و قمیت میں اضاے کا باعث ہے قدرتی گیس، تیل، کوئلہ، لوہا، کرومائیٹ جپسم، گندھک اور نمک کے معدنی ذخائر کی اس قدر مقدار موجود ہے کہ اگر انہیں کسی منظم انداز اور جدید سائنسی آلات سے حاصل کیا جائے تو یہ ملک دولت مند ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جائے میانوالی کوہاٹ وغیرہ سے بھی خوردنی نمک نکالا جا رہا ہے تاہم کھیوڑہ کی کانیں سب سے پرانی اور پیداوار کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہیں یہاں سے حاصل ہونے والا نمک نہ صرف ملکی ضروریات پورا کر رہا ہے بلکہ اس کی بیرون ملک برآمدگی سے زرمبادلہ بھی کمایا جا رہا ہے نمک کی دوائی اور غذائی اہمیت مسلمہ ہے لیکن اس سے بے شمار صنعتیں بھی منسلک ہیں جن میں کپڑا رنگنے، چمڑہ صاف کرنے کاسٹک سوڈے کی تیاری وغیرہ کی صنعتیں شامل ہیں۔ کھیوڑہ، راولپنڈی سے 120کلومیٹر چکوال سے 30کلومیٹر اور پنڈ داد نخان سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یوں تو یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے لیکن نمک کی کانوں کی وجہ سے خصوصی اہمیت اور شہرت کا حامل ہے سکولوں کالجوں کے طلبہ کے علاوہ سیاحوں کی بڑی تعداد ہر سال یہاں کی سیر کو آتے ہیں اور اس انمول خزانے اور کانوں کی بھول بھلیوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔


کھیوڑہ کے پہاڑی علاقے میں سڑکوں کے علاوہ ریل کی سہولت بھی موجود ہے رہائشی علاقے میں انگریزی طرز تعمیر کی عمارات زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں کیونکہ برطانوی عہد میں نمک کی نکاسی کو زیادہ بہتر انداز میں او رمنظم پیمانے پر شروع کیا گیا تھا گو لوگ صدیوں سے یہاں سے نمک نکال رہے ہیں اورکھیوڑہ کے باسیوں کے ذریعہ معاش نمک کی فروخت ہی تھا کھیوڑہ کے قرب و جوار میں بھی لوگ مختلف جگہوں سے نمک نکالتے چلے آرہے ہیں اس وقت بھی خوشاب وغیرہ میں پندرہ کمپنیاں نجی شعبے میں نمک نکالنے میں مصروف ہیں چند سال پیشتر نجی شعبے میں نمک کی نکاسی پر ایکسائز ڈیوٹی عائد تھی لیکن نجکاری پروگرام کے تحت یہ ڈیوٹی اب ختم ہو چکی ہے۔


1876ءمیں انگریز حکومت نے کان کن افراد کو اردگرد سے جمع کرکے کھیوڑہ میں لا بسایا اور کھیوڑہ کے علاوہ باقی ساری کانوں سے نمک کی نکاسی کا کام بند کر دیا گیا تھا جسے اب پاکستان منرل ڈوپلیمنٹ کارپوریشن نے دوبارہ شروع کیا ہے انگریز دور میں یہاں کافی کام ہوا اور علاقے کی فلاح و بہبود کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی۔چک نظام جہلم کے مقام پر 1886ءمیں ایک ریلوے پل تعمیر کرکے علاقے کو ملکوال سے ریل کے ذریعے ملا دیا گیا اس سے کاریگروں کو گاڑیوں کے ذریعے نمک کی باربرداری کی صعوبتوں سے چھٹکارا مل گیا۔ ریل گاڑی کی آمد کھیوڑہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اس لیے 1890ءتک یہاں کا نمک پورے برصغیر میں پھیل گیا تھا۔ انگریزوں نے جہاں علاقے کی معدنی دولت سے فائدہ اٹھایا وہیں اس کی بہتری کے لیے بھی خاصا کام کیا کان کنوں کی حفاظت اور مزدوروں کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔

کھیوڑہ شہر میں داخل ہوں تو عین سامنے نمک کے پہاڑ خوش آمدید کہتے ہیں ایک جانب رہائشی علاقہ ہے جہاں سکول کالج پوسٹ آفس ریسٹ ہاوس اور پاکستان معدنیاتی ترقیاتی کارپوریشن پی ایم ڈی سی کے دفاتر ہیں کھیوڑہ کا بڑا بازار گول بازا ر ہے یہاں ایک گرجا گھر کے علاوہ انگریزی دور کی عمارتیں ہیںبازار کے قریب ایک پہاڑی پر چھوٹا سا مندر ہے جسے ہنومان مندر کہتے ہیں بازار سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاءباآسانی خریدی جاسکتی ہیں مائننگ یا کان کنی کے علاقے میں داخل ہوں تو استقبالیہ سے ٹکٹ اور داخلہ پاس حاصل کرنے پڑتے ہیں سیاحوں کی رہنمائی کے لیے ایک گائیڈ بھی ہمراہ ہوتا ہے سب سے پہلے ورکنگ ایریا آتا ہے یہاں بہت سے پائپ اور کام کرتی مشینیں نظر آتی ہیں ان پائپوں کے ذریعے کانوں کے اندر جمع ہونے والا پانی نکالا جاتا ہے جسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی مفت ہی حاصل کرتی ہے کانوں سے حاصل ہونے والا یہ نمکین پانی دراصل کئی کیمیائی اجزا سے پر ہوتا ہے اس پانی کو برائن سلوشن کہتے ہیں جس سے کپڑے دھونے والے سوڈے سمیت متعدد کیمیائی اشیاءتیار کی جاتی ہیں اس کمپنی نے کھیوڑہ میں باقاعدہ ایک یارڈ بنا رکھا ہے یہاں سے یہ محلول کمپنی کے کارخانوں میں پہنچتا ہے جس سے مزید محلول تیار کرکے بہت مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے یہ کمپنی نمک کی بھی سب سے بڑی خریدار ہے جو کھیوڑہ کا تین چوتھائی کے لگ بھگ نمک خرید لیتی ہے جبکہ سالانہ دو سے تین ٹن پانی بغیر کسی قیمت کے حاصل کر کے بے انتہا دولت کماتی ہے۔


کھیوڑہ کی کانوں کے متعلق خیال ہے کہ یہ صدیوں سے انسانی ضروریات پوری کر رہی ہیں ان کی دریافت کے متعلق مشہور ہے کہ سکندر اعظم جب اس علاقے میں پہنچا تو اس نے پہاڑوں میں ڈیرہ جما لیا تو ایک عجیب چیز دیکھنے کو ملی کہ گھوڑے یہاں پتھر شوق سے کھاتے دیکھے گئے ہیں جس سے پتہ چلا کہ یہ پتھر دراصل نمک ہے چنانچہ آج تک یہاں سے نمک کی نکاسی کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں اتنا نمک موجود ہے جسے ایک ہزار سال بھی نکالا جائے تو کمی نہیں آئے گی اندازہ ہے کہ ان کانوں میں 1500فٹ کی گہرائی تک نمک موجود ہے۔
برصغیر میں مغلیہ دور سے قبل ہی کوہستان نمک کی دریافت ہوچکی تھی اس کا تذکرہ آئین اکبری میں بھی ملتا ہے دریائے جہلم کے دائیں کنارے سے مغرب میں کوہ سلیمان تک پھیلے ہوئے پاکستان کے وسیع ذخائر دنیا کے بڑے ذخیروں میں شامل ہوتے ہیں نمک کی یہ کانیں وارچھا، ضلع خوشاب، کالا باغ، ضلع میانوالی، اور بہادر خیل، ضلع کوہاٹ تک کے طویل رقبے پر محیط ہیں اس طرح کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں سے نمک کم نکالا جا رہا ہے جبکہ بعض جگہوں پر ابھی نکاسی شروع ہی نہیں ہوئی ان تمام علاقوں میں نمک کی کل مقدار اندازً 534ملین ٹن سے زائد ہے تاہم ان سب ذخائر سے کھیوڑہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں سے حاصل ہونے والا نمک 98فیصد خالص ہے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی اور پیداوار کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔


کانوں سے نمک بڑے سائنسی انداز سے نکالا جاتا ہے جس میں مہارت کے ساتھ تکنیک کو بروئے کار لایا جاتا ہے نمک کی نکاسی کے لیے ایسا نہیں کہ پہاڑ کے اندر گئے اور نمک کوٹ کوٹ کر نکالتے گئے بلکہ اس طرح نہ صرف کان بے کار ہوسکتی ہے بلکہ کان کنوں کی زندگی بھی غیر محفوظ ہوگی اس لیے کانوں میں کام کے لیے مختلف منزلیں ہیں چار منزلیں زمین کی طرح سے اوپر اور گیارہ منزلیں اس سطح سے نیچے ہیں گویا کان میں بیک وقت 16مقامات پر نمک کی نکاسی کی جاتی ہے ہر سرنگ سے 50,40فٹ نمک نکالنے کے بعد اتنا نمک چھوڑ دیا جاتا ہے جو پہاڑ میں ستونوں کا کام کرتے ہیں یوں پورے پہاڑ میں نمک نکالنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سرنگوں پر سرنگیں اور ستونوں پر ستون ہیں یوں ہر کان خاص محفوظ ہوچکی ہے سیاحوں کو پوری کانوں کی سیر کی اجازت نہیں سیر کے لیے 2.5میل کا رقبہ مختص ہے۔سیر کے لیے تقریباً 80ہال کمرے جو نمک نکالنے سے وجود میں آچکے ہیں جب کہ راھداریوں کے اردگرد کہیں کہیں پانی کے تالاب ہیں ان کی تعداد 60,70کے لگ بھگ ہے یہ تالاب 35سے 80فٹ تک گہرے ہیں پہاڑ سے رس رس کر اندر آنے والے پانی سے وجود میں آنے والے یہ تالاب دیکھنے میں تو خاصے ہیبت ناک ہیں لیکن ان میں گرنے والا ڈوبتا نہیں کیونکہ نمک کے مسلسل گھلاوں سے ان میں حل پذیری ناممکن ہوچکی ہے اور اگر کوئی شخص خدانخواستہ اس میں گر جائے تو اسے تگ و دو سے بچایا جاسکتا ہے ٹوریسٹ ایریا کے آخر میں سب سے بڑا تالاب ہے.

جس کی لمبائی 220فٹ چوڑائی 70فٹ اور گہرائی 80فٹ ہے اسے بحرالکاہل کا نام دیا گیا ہے یہی نمکین پانی پائپوں کے ذریعے باہر نکالا جاتا ہے جو مختلف صنعتوں کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے کانوں سے نمک نکالنے کا کان کن نسل در نسل سے کرتے چلے آرہے ہیں کان کن وارثت میں اپنی اولا د کے لیے زمین جائیداد نہیں بلکہ ایک پاس بک چھوڑتے ہیں جس کے پاس یہ سرکاری کتاب موجود ہو وہی یہاں کام کرنے کا حق رکھتا ہے اسے حکومت کی جانب سے بجلی پانی گیس اور تمام تر طبی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ سرکاری ملازم تصور ہوتا ہے اس وقت یہاں 685سے زائد افراد رجسٹرڈ کان کن ہیں اور کانوں میں کام کا اختیار انہیں کو حاصل ہے یہ کان کن اپنی مرضی اور صوابدید پر ایک معاون مزدور رکھ سکتے ہیں اور اس کا تعلق ضروری نہیں کہ کھیوڑہ ہی سے ہورجسٹرڈ کان کنوں سے متعلق یہ شکایت بھی سننے میں آتی ہے کہ وہ معاون مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں اور اپنی پاس بک کی بدولت دوہرا مفاد حاصل کرتے ہیں ان مزدوروں کو نمک تراشی کے تین روپے فی من کے حساب سے مزدوری دی جاتی ہے ایک مزدور روزانہ اوسطاً ایک بوگی 40من نمک کاٹنے کی اہلیت رکھتا ہے یوں اس قدر مشکل اور جان جوکھوں کے بعد اس کے حصے میں 120روپے آتے ہیں نمک کاٹنے کے لیے ہتھوڑے استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ پتھر کے اندر ہمبر پوائنٹ یا برما نما سلاخ سے سوراخ کیا جاتا ہے جب سوراخ چار سو فٹ سے زیادہ گہرا ہو جائے تو اس میں بارود بھر دیا جاتا ہے اور پھر بہت احتیاط سے باردو کو آگ دکھائی جاتی ہے جس کے بعد پتھر کے ان بڑے بڑے سخت ٹکڑوں کو مزید کاٹ کر چھوٹا کیا جاتا ہے.

نمک کو کان سے باہر لانے کے لیے گراونڈ لیول پر برقی ریل گاڑی موجود ہے جب کہ زیر زمین کانوں میں اور بالائی منزلوں میں نمک کاٹ کاٹ کر گدھوں کے ذریعے ایک جگہ جمع کر لیا جاتا ہے جہاں سے لفٹ کے ذریعے اسے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر لایا جاتا ہے یہ خاصا پرانا نظام ہے اس لیے اس پر وقت زیادہ صرف ہوتا ہے اور کام کی رفتار سست رہتی ہے اور اس سائنسی دور میںاس قدر فرسودہ نظام پر عمل یقینا صحت مندر رحجان نہیں 1872ءمیں انگریز حکومت نے جو طریقے رائج کیے یااصول بنائے وہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی یہاں موجود ہیں مثلاً انگریز نے ایک پابندی کھیوڑہ کے رہنے والوں پر یہ عائد کی وہ نمک خریدکر استعمال کریں چنانچہ یہ روایت اب تک بھی قائم ہے اور کان کن نمک کی فراوانی ہونے کے باوجود نمک لینے کسی دوکان کا رخ کرتے ہیں جانے یہ پابندی کس منطق کے تحت عائد کی گئی کھیوڑہ کی کانیں خاص محفوظ تصور کی جاتی ہیں اندرونی نظام کو بھی بڑی حد تک محفوظ بنایا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاحوں کی آمد پر پابندی نہیں تاہم غیر ملکی سیاحوں کو پہلے ہیڈ آفس سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔


یوں تو مزدور ان کانوں میں 24گھنٹے کام کرتے ہیں جس کے لیے تین شفٹیں بنائی گئی ہیں تاہم سیاحت کے لیے صبح دس بجے سے ڈھائی بجے تک کا وقت مقرر ہے اس طرح جمعے کو چھٹی کی وجہ سے کانوں کی سیر نہیں کرائی جاتی سیاحوں کی معلومات میں کچھ اضافے کے لیے ایک گائیڈ ہمراہ ہوتا ہے جو ڈیڑھ گھنٹہ کی سیر میں 3500فٹ تک لوگوں کو گھماتا ہے اور کان کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے کان کی سیر کے لیے معمولی ٹکٹ بھی رکھا گیا ہے سیر کے لیے کان میں داخل ہوں تو خود کو ایک لمبی سی سرنگ میں موجود پائیں گے جو مسلسل نیچے ہی نیچے چلی جاتی ہے سر پر بلبوں کی ایک لمبی قطار مدہم روشنی بکھیرتی ہے یہاں احتیاط سے چلنا پڑتا ہے اور گائیڈ بار بار متنبہ کرتا ہے کہ بجلی کی تاروں کو ہاتھ مت لگائیں کیونکہ تاریں ننگی ہیں ان کی مدد سے نمک لانے والی ٹرام چلتی ہے سرنگ کا اختتام ایک کشارہ راستے پر ہوتا ہے

یہ محفوظ راھداری ہے چھت کو سہارا دینے کے لیے لکڑی کی ڈاٹ سے کام لیا گیا ہے جبکہ راستہ کچا ہے وسط میں ٹرام کی پٹری ہے یہ دو رویہ ہے اور اس پر چلنے سے بھی منع کیا جاتا ہے قدیم کوئلے کے انجن کی یادگار بھی چھتوں پر دھوائیں کی صورت میں موجود ہے۔روزانہ سینکڑوں سیاح کان نمک کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یکم فروری 1992ءکو یہاں فلم زباٹا کی شوٹنگ بھی ہوئی تھی۔ کان میں تازہ ہوا کی آمدروفت کا بھی بندوبست ہے یہاں ہر وقت 17.50فیصد آکسیجن موجود رہتی ہے بارش کا پانی انہیں ہوا کے سوراخوں سے اندر آتا ہے کانوں سے روزانہ 27ہزار ٹن کے حساب سے نمک نکالا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں