موت اور زندگی کے بیچ میں صرف ایک سانس کا فاصلہ ہے کہ زندگی سے مل کر موت کی طرف دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ پھر بھی موت عمر بھر زندگی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے ۔ موت دنیا کی وہ سچائی ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ جو آیا ہے اسے جانا ہے لیکن اکثر لوگ زندگی جیتے ہوئے اپنی موت کو بھول جا تے ہیں۔ زندگی میں اضطراب بدعنوانی اور فرعونیت اسی لئے در آتی ہے کہ آدمی اپنی موت کو بھول جاتا ہے۔ انسان نے دنیا مسخر کر لی لیکن وہ موت سے نہیں جیت سکا۔معروف صحافی فضل حسین اعوان کی نئی تصنیف ”موت سے زن
دگی کی طرف “ ایک ایسی علمی ، ادبی ، تحقیقی اور روحانی کتاب ہے جس سے انسان اپنی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے آج کل کے مادی دور میں جب انسان دولت ، عزت ، شہرت ، طاقت اور حشمت کے نشہ میں خود کو عقل کل اور فاتح عالم سمجھنے لگتا ہے۔اپنے تیئں گردانتا ہے کہ دولت اور طاقت سے وہ سب کچھ کر سکتا ہے چنانچہ انسان اس حقیقت سے بے خبر ہوجاتا ہے کہ یہاں ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے زندگی اور موت کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا ہے لیکن سات ارب لوگوں میں سے شائد سات سو لوگ بھی موت کے ذائقے کو محسوس نہیں کرتے کہ کیسے موت کے سفاک پنجے زندگی کو دبوچ لیتے ہیں ہر جینئس کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے اور کیوں اسے واپس لوٹنا ہے زندگی سے بے پناہ محبت کے باوجود انسان موت کے آگے گھٹنے کیوں ٹیک دیتا ہے۔ موت کے سامنے انسان کی ساری ہیکڑی کیوں نکل جاتی ہے یہ زندگی کی سب سے زیادہ الجھی ہوئی گتھی ہے جسے حضرت انسان آج تک نہیں سلجھا سکا ہے۔فضل حسین اعوان نے اپنی کتاب میں زندگی اور موت کے فلسفے کو سمجھا اور سمجھایا ہے اس کتاب میں ایسے لوگوں کے واقعات پیش کئے گئے ہیں جو موت کے سفر سے پلٹے ہیں ۔موت سے واپسی ایک نئی زندگی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں جتنے بھی واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ حقیقی ہیں ۔ اس کتاب کے کردار بھی حقیقی ہیں ”موت سے زندگی کی طرف “ ماضی کی پرتوں کو کھولتی اور مستقبل پر کمندیں ڈالنے کے لئے ساتھ ساتھ حال کے حالات و واقعات سے جڑی نظر آتی ہے۔
فضل حسین اعوان نے مذکورہ تصنیف میں حقیقی واقعات سے تانا بانا بنا ہے ۔ان واقعات کی قدر وقیمت اس لئے بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ واقعات اصلی کرداروں کی زندگی سے ماخوذ ہیں یہ سارے کردار موت کے منہ سے نکلے ہیں اور زندگی کو دوبارہ جیا ہے اس کے علاوہ فضل حسین کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے روحانیات کا بھی سہاارا لیا ہے ۔
”موت سے زندگی کی طرف “ میں جہاں اسلام میں خواب، تعبیروں ، علامات ، اشارات کی مدد سے آنے والے معاملات سے آگاہی ہوتی ہے۔ وہاں مصنف نے اسلامی تاریخ ، قرآنی حوالہ جات کی مدد سے متن کی تعبیر و تشریح کی ہے مصنف کو یہ توفیق حاصل ہے کہ انہوں نے ہندﺅ ازم کے علم سے بھی اس حساس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ ہندﺅ ازم میں آواگون کو کلیدی حیثیت حاصل ہے مسلمان اس فلسفہ پر یقین نہیں رکھتے ۔ ہندﺅ مت میں سمجھا جاتا ہے کہ انسان کا دوسرا جنم ہوتا ہے مصنف نے جہاں ملک کی مشہور و معروف شخصیات کے وہ حقیقی واقعات قلمبند کیے ہیں جنہوں نے انہیں دوبارہ جینے کا موقع دیا اور موت کے منہ سے نکالا ، وہاں مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جہاں نظریہ آوا گون ، تناسخ ، روح اور ہمزاد پر سیر حاصل بحث کی ہے وہاں روح کے جسم سے نکلنے اور اس کے حوالے سے کئی مفید سوال بھی کھڑے کیے ہیں ۔یا دیکھئے ! سوال صرف جینئس کرتے ہیں ۔ سوال ہمیشہ ذہین اذہان میں اٹھتے ہیں۔تلاش ، جستجو ، کھوج ، استغراق اور مخفی علوم کی بازیافت عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔جب ذہن میں سوال آتا ہے تو جواب کی طلب بھی بڑھتی ہے یوں علم کی مسدود راہیں بھی ہموار ہو جاتی ہیں علم ارتقائی منزلوں سے گزر کر آج انتہاﺅں پر اس لئے پہنچا ہے کہ جاننے کی خواہش علم کے حصول کا اولین سبب ہے اور یہ کام صرف اور صرف جینئس لوگوں کے حصے میں آتا ہے ہمارے ہاں کروڑوں افراد اپنے ذہن کو استعمال کرنا تو دور کی بات اس پر دستک بھی دینا گوارہ نہیں کرتے ان کی زندگی معمول اور روایت سے بھری ہوتی ہے جس میں اونچ کے بجائے یکسانیت ہوتی ہے۔ فضل حسین اعوان نے محض واقعات کے پلندے اکھٹے نہیں کیے بلکہ انہوں نے ایک انتہائی اہم سمت قدم اٹھایا ہے زندگی سے آگے کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ زندگی سے آگے موت کی بھیانک کھائی ہے بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور زندگی کا دورانیہ بھی عموماً سترپچھتر سال سے زیادہ نہیں ہوتا اس لئے جب انسان موت کے منہ سے نکل کر زندگی کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ دنیا جہان کے خزا نے آگئے ہیں یہ سلسلہ روحانیات سے بھی جا کر جڑ جاتا ہے کہ انسان موت کو چھو کر آگہی کی منزل سے گزرتا ہے اس کا وجدان اور تحقیق دونوں تجربے اور مشاہدے کی بھٹی سے گزرتے ہیں۔ دنیا کا ہر انسان زندگی اور موت کے فلسفے کو جاننے کا ازل سے متلاشی رہا ہے موت انسان کے لئے آج بھی ایک ناقابل فہم گتھی ہے جسے وہ آج تک نہیں سلجھا سکا ہے فضل حسین اعوان نے ایک نہایت حساس موضوع کو پوری ذہانت سے چھیڑا ہے کسی کتاب کی زندگی کا راز اس کے موضوع اور اس سے بھی زیادہ پیش کردہ مواد میں مضمر ہوتا ہے۔ مواد کی پیشکش اور اس کا اسلوب گرانقدر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ فضل حسین اعوان کو اپنے اسلوب پر مکمل گرفت حاصل ہے۔ اسلوب ہی کسی لکھاری کو چھوٹا بڑا یا انمنٹ بنا دیتا ہے۔ فضل حسین اعوان ایک اچھے اسلوب کے حامل لکھاری ہیں۔ اسلوب وہ ہوتا ہے کہ اس تحریر سے آپ کا نام مٹ جائے یا ہٹا دیا جائے‘ لیکن لوگ اسلوب دیکھ کر پہچان لیں کہ یہ فلاں ادیب‘ شاعر‘ صحافی کی تحریر ہے۔ جہاں تک مواد کا تعلق ہے تو بجا طورپر کہا جا سکتا ہے کہ کتاب زرخیز ہے اور اس میں بھرتی کا کوئی کام نہیں کیا گیا۔ ابتدا سے لیکر اختتام تک آپ کو جہاں تحیر آمیز واقعات ملتے ہیں‘ وہاں قدم قدم پر آپ کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب میں دلچسپی کے تمام اجزاءمکمل تناسب کے ساتھ موجودہیں۔ اس کتاب میں میرے بھی واقعات شامل ہیں جنہیں میں نے ”موت مجھے سات بار چھو کر گزر گئی“ کے عنوان سے قلمبند کیا تھا اور اپنی زندگی کے وہ سات واقعات لکھے تھے جب میں موت کے منہ سے بال بال بچی اور مجھے ہر بار ایک نئی زندگی ملی۔ یہ واقعات لکھتے ہوئے وہ سارے لمحے زندہ ہوکر میرے سامنے آکھڑے ہوئے تھے۔بحیثیت نقاد کتاب میں جو اسقام نظر آئے‘ اس میں ایک چیز گراں گزری یعنی فضل حسین اعوان کی رسائی بطور صحافی تقریباً تمام نامور شخصیات تک ہے۔ اس طرح انہوں نے بے شمار بڑی اور اہم شخصیات سے ان کی زندگی کے واقعات حاصل کئے‘ لیکن انہوں نے ان شخصیات کی تدریجی فہرست مرتب نہیں کی۔ دنیا میں ہر شخص کا درجہ دوسرے شخص سے مختلف ہوتا ہے۔ انسان کے کام اور کارنامے اسے بڑا اور نامور بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ فضل اعوان کو شخصیات کی قدروقامت کے مطابق تدریجی انداز میں انہیں جگہ دینی چاہئے تھی۔ چند واقعات میں غلط یا اضافہ طرازی تھی تو بطور صحافی اور ادیب ایسے واقعات کو منہا کر دیا جاتا تو کتاب کی قدروقیمت مزید بڑھ جاتی‘ لیکن ان دو معمولی باتوں کے کتاب مستند درجہ رکھتی ہے۔
فضل حسین اعوان نے مذکورہ تصنیف میں حقیقی واقعات سے تانا بانا بنا ہے ۔ان واقعات کی قدر وقیمت اس لئے بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ واقعات اصلی کرداروں کی زندگی سے ماخوذ ہیں یہ سارے کردار موت کے منہ سے نکلے ہیں اور زندگی کو دوبارہ جیا ہے اس کے علاوہ فضل حسین کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے روحانیات کا بھی سہاارا لیا ہے ۔
”موت سے زندگی کی طرف “ میں جہاں اسلام میں خواب، تعبیروں ، علامات ، اشارات کی مدد سے آنے والے معاملات سے آگاہی ہوتی ہے۔ وہاں مصنف نے اسلامی تاریخ ، قرآنی حوالہ جات کی مدد سے متن کی تعبیر و تشریح کی ہے مصنف کو یہ توفیق حاصل ہے کہ انہوں نے ہندﺅ ازم کے علم سے بھی اس حساس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ ہندﺅ ازم میں آواگون کو کلیدی حیثیت حاصل ہے مسلمان اس فلسفہ پر یقین نہیں رکھتے ۔ ہندﺅ مت میں سمجھا جاتا ہے کہ انسان کا دوسرا جنم ہوتا ہے مصنف نے جہاں ملک کی مشہور و معروف شخصیات کے وہ حقیقی واقعات قلمبند کیے ہیں جنہوں نے انہیں دوبارہ جینے کا موقع دیا اور موت کے منہ سے نکالا ، وہاں مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جہاں نظریہ آوا گون ، تناسخ ، روح اور ہمزاد پر سیر حاصل بحث کی ہے وہاں روح کے جسم سے نکلنے اور اس کے حوالے سے کئی مفید سوال بھی کھڑے کیے ہیں ۔یا دیکھئے ! سوال صرف جینئس کرتے ہیں ۔ سوال ہمیشہ ذہین اذہان میں اٹھتے ہیں۔تلاش ، جستجو ، کھوج ، استغراق اور مخفی علوم کی بازیافت عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔جب ذہن میں سوال آتا ہے تو جواب کی طلب بھی بڑھتی ہے یوں علم کی مسدود راہیں بھی ہموار ہو جاتی ہیں علم ارتقائی منزلوں سے گزر کر آج انتہاﺅں پر اس لئے پہنچا ہے کہ جاننے کی خواہش علم کے حصول کا اولین سبب ہے اور یہ کام صرف اور صرف جینئس لوگوں کے حصے میں آتا ہے ہمارے ہاں کروڑوں افراد اپنے ذہن کو استعمال کرنا تو دور کی بات اس پر دستک بھی دینا گوارہ نہیں کرتے ان کی زندگی معمول اور روایت سے بھری ہوتی ہے جس میں اونچ کے بجائے یکسانیت ہوتی ہے۔ فضل حسین اعوان نے محض واقعات کے پلندے اکھٹے نہیں کیے بلکہ انہوں نے ایک انتہائی اہم سمت قدم اٹھایا ہے زندگی سے آگے کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ زندگی سے آگے موت کی بھیانک کھائی ہے بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور زندگی کا دورانیہ بھی عموماً سترپچھتر سال سے زیادہ نہیں ہوتا اس لئے جب انسان موت کے منہ سے نکل کر زندگی کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ دنیا جہان کے خزا نے آگئے ہیں یہ سلسلہ روحانیات سے بھی جا کر جڑ جاتا ہے کہ انسان موت کو چھو کر آگہی کی منزل سے گزرتا ہے اس کا وجدان اور تحقیق دونوں تجربے اور مشاہدے کی بھٹی سے گزرتے ہیں۔ دنیا کا ہر انسان زندگی اور موت کے فلسفے کو جاننے کا ازل سے متلاشی رہا ہے موت انسان کے لئے آج بھی ایک ناقابل فہم گتھی ہے جسے وہ آج تک نہیں سلجھا سکا ہے فضل حسین اعوان نے ایک نہایت حساس موضوع کو پوری ذہانت سے چھیڑا ہے کسی کتاب کی زندگی کا راز اس کے موضوع اور اس سے بھی زیادہ پیش کردہ مواد میں مضمر ہوتا ہے۔ مواد کی پیشکش اور اس کا اسلوب گرانقدر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ فضل حسین اعوان کو اپنے اسلوب پر مکمل گرفت حاصل ہے۔ اسلوب ہی کسی لکھاری کو چھوٹا بڑا یا انمنٹ بنا دیتا ہے۔ فضل حسین اعوان ایک اچھے اسلوب کے حامل لکھاری ہیں۔ اسلوب وہ ہوتا ہے کہ اس تحریر سے آپ کا نام مٹ جائے یا ہٹا دیا جائے‘ لیکن لوگ اسلوب دیکھ کر پہچان لیں کہ یہ فلاں ادیب‘ شاعر‘ صحافی کی تحریر ہے۔ جہاں تک مواد کا تعلق ہے تو بجا طورپر کہا جا سکتا ہے کہ کتاب زرخیز ہے اور اس میں بھرتی کا کوئی کام نہیں کیا گیا۔ ابتدا سے لیکر اختتام تک آپ کو جہاں تحیر آمیز واقعات ملتے ہیں‘ وہاں قدم قدم پر آپ کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب میں دلچسپی کے تمام اجزاءمکمل تناسب کے ساتھ موجودہیں۔ اس کتاب میں میرے بھی واقعات شامل ہیں جنہیں میں نے ”موت مجھے سات بار چھو کر گزر گئی“ کے عنوان سے قلمبند کیا تھا اور اپنی زندگی کے وہ سات واقعات لکھے تھے جب میں موت کے منہ سے بال بال بچی اور مجھے ہر بار ایک نئی زندگی ملی۔ یہ واقعات لکھتے ہوئے وہ سارے لمحے زندہ ہوکر میرے سامنے آکھڑے ہوئے تھے۔بحیثیت نقاد کتاب میں جو اسقام نظر آئے‘ اس میں ایک چیز گراں گزری یعنی فضل حسین اعوان کی رسائی بطور صحافی تقریباً تمام نامور شخصیات تک ہے۔ اس طرح انہوں نے بے شمار بڑی اور اہم شخصیات سے ان کی زندگی کے واقعات حاصل کئے‘ لیکن انہوں نے ان شخصیات کی تدریجی فہرست مرتب نہیں کی۔ دنیا میں ہر شخص کا درجہ دوسرے شخص سے مختلف ہوتا ہے۔ انسان کے کام اور کارنامے اسے بڑا اور نامور بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ فضل اعوان کو شخصیات کی قدروقامت کے مطابق تدریجی انداز میں انہیں جگہ دینی چاہئے تھی۔ چند واقعات میں غلط یا اضافہ طرازی تھی تو بطور صحافی اور ادیب ایسے واقعات کو منہا کر دیا جاتا تو کتاب کی قدروقیمت مزید بڑھ جاتی‘ لیکن ان دو معمولی باتوں کے کتاب مستند درجہ رکھتی ہے۔