بچپنا

2018 ,دسمبر 21



بچوں کے سکول جانے کی عمر کیا ہے‘ اس بارے میں ماہرطفلیات بہتر جانتے ہیں‘ تاہم ہمارے بچپن میں بچہ سکول جانا شروع کرتا تو آدھی بلوغت تک پہنچ چکا ہوتا تھا۔ شہروں کی طرح دیہات میں بھی پرائیویٹ سکول کھل چکے ہیں۔ سرکاری سکول میں پرائیویٹ سکولوں والی جدت ابھی دور ہے۔ کچی‘ پکی‘ پہلی‘ دوسری سرکاری سکولوں کی اٹوٹ پہچان جبکہ پلے گروپ‘ نرسری‘ پریپ‘ ون‘ ٹو نجی سکولوں کی روح اور جان ہے۔یہ بھی مارکیٹ کی طرح ہیں۔ والدین کیلئے حیثیت کےمطابق آپشن ہے۔ دوتین سو روپے سے ہوشربا فیسوں تک کے سکول ہیں۔ صحت اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے مگر یہ ذمہ داری اس لئے پوری نہیں ہوتی کہ جنکے ہاتھوں امور ریاست انجام پاتے ہیں‘ انکی سوچ کا محور یقینا فلاح و بہبود ہی ہوتا ہے مگر اپنی ذات تک محدود! پرائیویٹ سکول اور ہسپتال بند کر دیئے جائیں تو شرح خواندگی نصف ، شرح اموات ڈبل ہو جائے۔ سردست نجی ادارے تعلیم اور صحت کے حوالے سے ریاست کے معاون ہیں۔

بات حلقے پھلکے انداز میں کرنے کا ارادہ تھا مگر تمہید سنجیدہ اور گھمبیر ہو گئی۔ ہماری پانچ سال کی نواسی دعا نرسری میں ہے۔ ایک سال قبل کی بات ہے، میں آفس سے آیا تو اس نے بڑی خوشی سے چہکتے ہوئے کہا ”ابو آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں۔ میں نے آج ڈائری دیکھی‘ آپ نے اتنا اچھا لکھا کہ سب پر گڈ دیدیا ہے۔“ ڈائری کے ہر صفحے پر بڑے مارکر سے الٹے سیدھے نشان لگے تھے۔ گاڑی میں آرم رسٹر پر پاﺅں رکھاتھا، اسے کہا پاﺅں پیچھے کر لو‘ کوٹ کو لگ رہا ہے تو جواب تھا آپ کوٹ پیچھے کر لیں۔ ایک روز پاﺅں اسکی ایک سال کی کزن اجر کے ہاتھ پر آگیا۔ وہ روئی تو اسے چپ کراتے ڈانٹ بھی رہی تھی کہ ہاتھ پیچھے کیوں نہیں کیا۔ میں کالم لکھ رہا تو دعا نے بڑی حیرانی سے کہا ابو! آپ کو نقطے ڈالنے نہیں آتے،بتاتی ہوں۔ اس نے قلم پکڑااور اپنی دانست میں صحیح نقطے ڈال کر اصلاح کر دی۔ ترانہ یا نظم جو سکول سے سیکھ کر آتی ہے مجھے کہتی ہے میں پڑھتی ہوں آپ بھی ساتھ ساتھ پڑھ کر یاد کر لیں۔ ایسی معصومیت پر خار نہیں‘ بچوں سے پیار آتا ہے۔بچے اپنی معصومیت کے باعث خود کو درست سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے رویئے پر غور کریں تو بچپنا نظر آتا ہے۔ بچے سمجھانے پر سمجھ جاتے ہیں مگر بڑے نہیں‘ خود کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ ذرا سیاسی صورتحال کو دیکھیں۔ سیاستدانوں کے معمولات‘ معاملات اور بیانات کا جائزہ لیں ہر کوئی مصر نظر آئیگاکہ ”درست ہے میرا فرمایا ہوا“۔

بچے شیشے کے گلاس اورکپ فرش پر گراکر توڑ دیتے، ان کیلئے سٹیل مگ منگوا لئے، کل اجر کے ہاتھ سے مگ گر گیا۔ سٹیل کے برتن کو کیا ہونا تھا۔ اس بچی نے اسے اٹھایا اور گھر میں کہرام سا مچا دیا۔ ابھی اسے مما اور پاپابھی کہنا نہیں آتا مگر اِدھر سے اُدھر ہر کسی کے سامنے مگ لے جارہی تھی۔شاید اسے اسکے نہ ٹوٹنے کا یقین نہیں آرہا تھا۔ مگر ہم بڑے ہیں‘ اگر ہمارے معمولات میںکچھ نیا ہوتا ہے‘ روایات سے مثبت مثبت حکومت کچھ کرتی ہے یا اپوزیشن اچھی سوچ کا اظہار کرتی ہے تو مجال ہے دوسرا فریق اسے تسلیم کر لے۔

بہرحال ہمیں بچپنے سے نکلنا ہے۔ اس کیلئے تعلیم آگاہی اور شعور ضروری ہے۔ ہم علم و عرفان کے کس درجے پر ہیں‘ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد میں میجرنذیرکے علاقے کے گاﺅں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک گلی میں ہڑبونگ مچی تھی۔ پتہ چلا ، ایک گھر میں لڑکی پیدا ہوئی جبکہ ڈجکوٹ کے پیر صاحب نے خوشخبری سنائی تھی کہ لڑکا ہوگا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ 32 ایسے کیسز ہیں جن میں الٹرا ساﺅنڈ میں لڑکی بتائی گئی مگر پیدا لڑکا ہوا۔ پیر صاحب پڑھائی کا کوئی پیسہ نہیں لیتے‘ بس سولہ سو روپیہ دوائی کالیتے ہیں۔ انکی شرط ہے کہ پہلے تین دن صرف اور صرف گائے کا دودھ پینا ہے، اس گائے کا جس کے پیچھے بچھڑا ہو۔ لڑکی کی پیدائش پر پیر صاحب سے رابطہ کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ ضرور کوئی بے احتیاطی ہوئی ہے مگرگھروالوں نے بندوقیں اٹھا لی تھیں۔ ایک جوشیلے نوجوان نے للکارا مارا بچی کو باہر لاﺅ‘ یہ پیر کے متھے مار کے لڑکا لیکر آئینگے۔ایک پڑھا لکھا نوجوان نظر آرہا تھااس نے یہ کہتے ہوئے معاملہ سلجھانے اورسر پھرے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اسے ایک بی بی نے خوب کوسا۔” پڑھ گیا تے ہڑ گیا جاہلاں دے ہتھے چڑھ گیا“۔

ایسے حالات میں بامقصد تعلیم کی ضرورت ہے جو صرف ڈگریوں سے نہیں آتی ورنہ تو مشرف دور کی گریجوایٹ پارلیمنٹ کایا پلٹ کے رکھ دیتی۔ ڈگری والی تعلیم سے بھی بہرحال صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ مشرف ہی کے دور میں گریجوایٹ وارڈن بھرتی کئے گئے جو ”چھلڑسسٹم“ کا بہترین متبادل ہیں۔ ان کا عمومی رویہ مثبت اور قابل ستائش ہے۔ پچھلے ہفتے سگنل کے آگے 500 میٹر کے فاصلے پر وارڈن نے روک کر کہا ”آپ نے سگنل توڑا ہے“۔ میرا جواب تھا سگنل میرے سامنے تھا آپ کو کیسے پتہ چلا؟“ انہوں نے کہا۔” آپ سگنل کراس کر رہے تھے تو دوسری طرف سے ٹریفک چل پڑی تھی“۔ میں نے جواب دیا، سگنل کی خلاف ورزی وہ بھی کر سکتے تھے یہ بحث میرے لئے تکلیف دہ ہے۔ اب چالان گھروں میں جاتے ہیں جسے علم ہے وہ کیونکر خلاف ورزی کریگا۔ اب ٹریفک سسٹم پڑھے لکھے وارڈنز کی عمومی ذمہ دارانہ رویئے کے باعث بہتر ہو رہا ہے۔ ان کیلئے صائب مشورہ اور تجویز ہے کہ شک کی بنیاد پردس لوگوں کو چھوڑا جاسکتا ہے مگر کسی ایک کا بھی چالان نہ کریں اس سے آپکا ضمیر مطمئن اور عزت میں اضافہ ہوگا۔

متعلقہ خبریں