لارنس آف عربیہ کی حقیقی داستان

2019 ,جولائی 17



چائے کی چسکیاں لیتے اور ایل اینڈ ایم کے سگریٹ لگاتار پیتے ہوئے، المدوّرة میں اپنے مہمانوں کے خیمے میں بیٹھے شیخ خالد سلیمان العطون نے اپنے ہاتھ کو فضا میں لہرا کر لگ بھگ شمالی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا”تمہیں معلوم ہے لارنس یہاں آیا تھا؟۔کئی بار“۔”سب سے نمایاں وقت جنوری 1918 کا تھا۔ وہ اور دوسرے برطانوی سپاہی بکتر بند گاڑیوں میں یہاں آئے اور یہاں تعینات ترک گیریژن پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن ترک بہت طاقتور تھے اس لیے انگریزوں کو پسپا ہونا پڑا۔ ” اس نے اپنے مدنی فخر آمیز لہجے میں بات بڑھانے سے پہلے ایک اور سگریٹ کھینچی اور بولا “ہاں، انگریزوں کو یہاں بہت مشکل وقت دیکھنا پڑا تھا۔ “
گو شیخ المدوّرة کے ترک گیریژن کی نقصان اٹھا کر سنبھلنے کی صلاحیت کے بارے میں بالکل درست کہہ رہا تھا — یہ الگ تھلگ چوکی پہلی جنگ عظیم کے تقریباً اختتام تک ترکوں کے ہاتھ میں تھی — لیکن افسانوی تھامس ایڈورڈ لارنس کے اہم ترین معرکے کے بارے میں گفتگو بحث کے لیے کھلی تھی۔ لارنس کے اپنے بیان کے مطابق، وہ وقت ستمبر 1917 کا تھا، جب اس نے اور اس کے عرب متّبعین نے قصبے کے بالکل جنوب میں ترکی فوجیوں کی ایک ٹرین پر حملہ کر کے ٹرین کو تباہ کر دیا تھا اور 70 کے لگ بھگ ترک سپاہیوں کو مار دیا تھا۔ 
اردن کا سب سے جنوبی قصبہ المدوّرة کسی زمانے میں بیرونی دنیا سے اسی ریل کی پٹری کے ذریعے منسلک تھا۔ حجاز ریلوے، بیسویں صدی کے آغاز کا سول انجینئرنگ کا ایک عظیم الشّان منصوبہ تھا، جو عثمانی سلطان کی ترکی کو جدید دنیا میں لے جانے کی کوششوں کا اور اپنی سلطنت کے دور دراز علاقوں کو مربوط کرنے کے منصوبے کا ایک اہم حصّہ تھا۔
1914 تک اس منصوبے کی تکمیل میں صرف جنوبی ترکی کے پہاڑی حصّے میں پٹری بچھانا رہ گیا تھا۔ جب سرنگیں بنانے کا کام پورا ہوجاتا، تو نظریاتی طور سلطنت عثمانیہ کے پائے تخت قسطنطنیہ سے 1800 میل دور واقع عرب کے شہر مدینہ تک زمین پر پاو¿ں رکھے بغیر سفر ممکن ہو جاتا۔ لیکن حجاز ریلوے پہلی جنگ عظیم کا شکار ہو گئی۔ تقریباً دو سال تک برطانوی تخریب کار ٹیم، اپنے عرب ہمکاروں کے ساتھ مل کر، بڑے مناسب طریقہءکار کو اپناتے ہوئے اس لائن کے پلوں اور اس پر واقع ڈپووں پر حملہ آور ہوتی رہی، جس کو اس نے بجا طور پر ترکی کے قلب سے سلطنت کے مختلف مقامات پر تعینات دستوں کو رسد پہنچانے والی اس پٹری کو عثمانی دشمنوں کی اکلیز کی ایڑی (کمزور مقام) کے طور پر نشان زد کر لیا تھا۔ 
ان برطانوی حملوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والوں میں ایک نوجوان فوجی افسر ٹی ای لارنس تھا۔ اس کے اپنے حساب کے مطابق اس نے 79 پل اڑائے۔ وہ اس کام میں اتنا ماہر ہو گیا تھا کہ اس نے پل اڑانے کا ایک ایسا طریقہ نکال لیا تھا جس سے پل سائنسی طور پر پارہ پارہ ہوجاتا تھا مگر اپنی جگہ کھڑا رہتا تھا۔ اس کے نتیجے میں مرمت کرنے والے ترکوں کو پہلے ملبہ گرانے اور ہٹانے کا وقت طلب کام کرنا پڑتا تھا۔ 
جنگ کے ختم ہوتے ہوتے اس ریلوے کو اتنا زیادہ نقصان پہنچ چکا تھا کہ اس کا زیادہ تر حصّہ چھوڑ دیا گیا۔ اردن میں آجکل اس پٹری پر صرف دار الحکومت عمّان سے المدوّرةکے 40 میل شمالی علاقے تک ٹرین چلتی ہے، جہاں سے ایک بعد میں بڑھائی گئی پٹری مغرب کی طرف چلی جاتی ہے۔ المدوّرة کے ارد گرد اب اس پٹری کی باقیات میں تقریباً ایک سو سال پہلے تباہ ہونے والی پانی کی شکستہ گزرگاہوں اور اسٹیشن کی عمارتوں کے علاوہ ابھری ہوئی راہ گزر اور اس پر پڑے کنکر پتھر ہی رہ گئے ہیں۔ بربادی کی یہ علامات یہاں سے سعودی عرب کے شہر مدینہ تک عرب کے صحرا میں قریب 600 میل تک بکھری ہوئی ہیں، جہاں اب بھی کچھ جنگ خوردہ ٹرین کے ڈبّے گریہ کناں ہیں جن کو آہستہ آہستہ زنگ کھا رہا ہے۔
اس المیّے کا غم کھانے والا ایک شخص شیخ العطون ہے جو المدوّرة کا ایک نمایاں باسی اور جنوبی اردن کا ایک قبائلی سردار ہے۔ اس استقبالیہ خیمے میں اس کا ایک دس سالہ بیٹا ہماری چائے کی پیالیوں کو مستقل بھرتے رہنے پر مامور ہے۔ شیخ کے بیان کے مطابق المدوّرة ایک دور دراز اور افلاس زدہ علاقہ ہے۔ “اگر ریلوے ابھی بھی ہوتی تو حالات مختلف ہوتے۔ ” اس نے دل گرفتہ لہجے میں کہا۔ “ہم معاشی اور سیاسی طور پر شمال اور جنوب سے منسلک ہوتے۔ جبکہ موجودہ صورت میں یہاں کوئی ترّقی نہیں اور المدوّرة ہمیشہ کی طرح ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ “
شیخ اپنی شکایت میں پنہاں اس ستم ظریفی سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس کے دادا نے بھی اس ریلوے لائن کو تباہ کرنے میں لارنس کے ساتھ حصّہ لیا تھا۔ وہ افسردہ لہجے میں کہتا گیا میرے دادا کا خیال تھا کہ جنگ کے باعث ہونے والی یہ تباہی ایک عارضی چیز ہو گی۔ مگر یہ فی الحقیقت مستقل ہو گئی۔ “
آج لارنس کو ابتدائی بیسویں صدی کی نمایاں ترین شخصیات میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کی زندگی پر کم سے کم تین فلمیں بنی ہیں —- جن میں سے ایک کو شاہکار کا درجہ حاصل ہے — 70 سے زائد سوانح عمریاں، متعدد ڈرامے اور بے شمار مضامین، تصاویر اور تحقیقی کاوشیں مستزاد ہیں۔ اس کی جنگ کے دور کی یاد داشتوں کی کتاب،”فراست کے سات ستون“، جو بارہ سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے، تقریباً ایک صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی چھپ رہی ہے۔ جیسا کہ جنرل ایڈمنڈ ایلن- بی نے، جو پہلی جنگ عظیم کے دوران مشرق وسطیٰ میں برطانوی افواج کا سالار تھا، مشاہدہ کیا، لارنس اپنے برابر کے لوگوں میں ہمیشہ اوّل رہا۔ جنرل نے دو ٹوک انداز میں کہا “میں کسی اور آدمی کو نہیں جانتا جو لارنس جیسے کارنامے کر سکتا ہو۔ “
لارنس کے ساتھ اس دائمی وارفتگی کا کچھ تعلّق اس کی داستان کے ان ناقابلِ یقین حصّوں سے بھی ہے جن میں ایک عام سا برطانوی جو ایک مفلوک الحال طبقے کے بیچ رہ کر مردِ میدان بن گیا تھا، ایسے واقعات کا سبب بن گیا جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ اس پر مستزاد اس کے اس سفر کی وہ اضطراب انگیز کیفیت تھی، جسے 1962 میں بنائی گئی ڈیوڈ لین کی فلم “لارنس آف عربیہ” میں انتہائی ماہرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے- یہ کیفیت ان منقسم وفاداریوں کا شاخسانہ تھی، جن میں ایک طرف اس شہنشاہیت کی نمک حلالی کے تقاضے تھے جس کی وردی وہ پہنے ہوئے تھا، اور دوسری طرف ان لوگوں کے ساتھ اخلاص کی خواہش تھی جو اس کے ساتھ لڑ اور مر رہے تھے۔ یہی وہ کشمکش تھی جس نے لارنس کی داستان کو شیکسپیئر کے المیے کی سطح پر لا کر کھڑا کر دیا، اور جو آخرکار تمام متعلق فریقوں کی خرابی پر منتج ہوئی: لارنس کے لیے بھی، برطانیہ کے لیے بھی، اور دھیرے دھیرے کھلتی تاریخ کے ساتھ مجموعی طور پر پورے مغرب کے لیے بھی۔ نتیجتاً لارنس کی ذات پچھتاوے کے ایک دھندلکے میں گھری یہ سوال پوچھتی نظر آتی ہے کہ اگر اس کی بات سن لی جاتی تو حالات کیا رخ اختیار کر سکتے تھے۔
***
پچھلے کئی سالوں سے شیخ العطون انگلینڈ کی برسٹل یونیورسٹی کے ان ماہرین آثارِ قدیمہ کی معاونت کر رہا ہے جو اردن میں “عظیم عرب انقلاب منصوبہ” کے ضمن میں پہلی جنگ عظیم کے بارے میں ایک بہت بڑے پیمانے پر سروے کر رہے ہیں۔ برسٹل کے محققین میں سے ایک، جان ونٹربرن کو حال ہی میں المدوّرةسے 18 میل کے فاصلے پر ایک بھولا بسرا برطانوی کیمپ ملا جس کو سو برس سے کسی نے چھوا بھی نہیں تھا۔ حتّیٰ کہ اسے وہاں جن کی پرانی بوتلیں بھی ملیں، اور اس دریافت پر برطانوی پریس نے ”لارنس کے گمشدہ کیمپ“کی پھبتی بھی لگائی۔ 
“ہم جانتے ہیں کہ لارنس اس کیمپ میں رہا تھا”، برسٹل یونیورسٹی کے ایک کیفے میں بیٹھ کر ونٹربرن نے گفتگو کا آغاز کیا۔ “لیکن زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ غالباً ایک یا دو دن ہی وہاں ٹھہرا ہوگا۔ لیکن ان لوگوں میں، جو اس کے مقابلے میں اس کیمپ میں بہت زیادہ رہے، کوئی بھی لارنس نہیں تھا، اس لیے یہ ”لارنس کا کیمپ“ہو گیا۔ 
حجاز ریلوے
زیادہ تر مسافروں کے لیے اردن کی شمال – جنوب بھرپور چلتی ہوئی شاہراہ – 15، جو عمان کو دیگر پر کشش مقامات جیسے پیٹرا کے کھنڈر یا عقبہ کے بحیرہ احمر کے ساحل سے ملاتی ہے، ایک بے خد و خال صحرا میں بیزار کن ڈرائیو ہی پیش کرتی ہے۔ لیکن “عظیم عرب انقلاب منصوبہ” کے کو- ڈائرکٹر نکولس سینڈرز کے لیے ہائی وے – 15 ایک خزانوں کی جگہ ہے۔ “زیادہ تر لوگوں کو کوئی اندازہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کے بہترین محفوظ شدہ جنگی محاذوں کے درمیان سفر کر رہے ہیں۔ ” وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے “اور ان کے چاروں طرف اس مرکزی کردار کی نشانیاں موجود ہیں جو اس علاقے نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ادا کیا۔ “
سینڈرز برسٹل میں اپنے کھچا کھچ بھرے دفتر میں اپنی میز پر موجود ہے۔ کتابوں اور کاغذوں کے انبار کے درمیان ہائی وے – 15 کے ساتھ ساتھ کی جانے والی اس کی اپنی مہموں میں جمع کردہ سو برس پہلے کی اشیائ بھی رکھی ہوئی ہیں، جیسے گولیوں کے خول، خیموں کے لوہے کے کنڈے۔ 2006 سے اب تک سینڈرز نے اس منصوبے کے تحت اب تک جنوبی اردن میں تقریباً 20 کھدائی کی مہموں کی سربراہی کی ہے، جن میں ترک فوج کی خیمہ گاہوں اور خندقوں سے لے کر عرب باغیوں کے ٹھکانے اور قدیم شاہی برطانوی پرّاں دستوں کی پرواز کی پٹیّاں، سبھی کچھ شامل ہیں۔ جو چیز ان انمل جگہوں کو ایک نکتے پر لاتی ہے، بلکہ جو ان کو وجود میں لانے کا باعث ہوئی، وہ یہی واحد رستے والی ریل کی پٹری ہے جو ہائی وے – 15 کے ساتھ ساتھ تقریباً 250 میل چلتی ہے: وہی قدیم حجاز ریلوے۔
 

متعلقہ خبریں