اصغر خان کیس کی جمائیاں،انگڑائیاں،رسوائیاں اور۔۔۔رعنائیاں

2019 ,جنوری 21



تین دہائیوں سے سلگتااصغر خان کیس جسے مہران بینک سکینڈل بھی کہا جاتا ہے،کبھی راکھ کا ڈھیر بنا کبھی بھڑکتا شعلہ۔اس کی آگ بڑے بڑوں کو لپیٹ میں لیتی نظر آئی مگرموہ بال بال تو بچتے چلے آرہے ہیں تاہم تپش ضرور محسوس کرتے رہے۔
اکتوبر 2012ءکے بعداصغر خان کیس مئی2018 ءکو پھر عدالت میں لگا۔بعد ازاں 29 دسمبر 2018 کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے اصغر خان کیس کی فائل بند کرنے کی سفارش کی۔شیطان کی آنت سے بھی جرائم اور مجرموں کا کھوج لگالینے کے دعویدار ادارے کی طرف سے عذر پیش کیاگیا،ادارے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ کیس پر فوجداری کارروائی ہو سکے ، جن سیاستدانوں پر الزام تھا انہوں نے رقم کی وصولی کی تردید کی ہے۔6جنوری 2019ءکواگلی سماعت پراُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا، ہم کیسے عدالتی حکم کو ختم کر دیں۔اصغر خان نے اتنی بڑی کوشش کی لیکن جب عملدرآمد کا وقت آیا تو ایف آئی اے نے ہاتھ کھڑے کر دیئے، ہم اصغر خان کی کوشش رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔اس کیساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے کیس کی مزید تحقیقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس بند کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
٭٭٭
سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایاگیا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی ،ایم آئی اسد درانی نے ان کی معاونت کی۔مقدمے میں کہا گیا، 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے ایم آئی نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے فراہم کردہ 14 کروڑ روپے سیاستدانوں میں تقسیم کیے۔بعد ازاں 16 سال بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں بنچ نے اکتوبر 2012 ءمیں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائرڈ جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی کے خلاف فوج کو کارروائی، رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں اور یونس حبیب کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا۔سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیاگیا،اس ٹیم نے وزیر اعظم نواز شریف کے حضور پیش ہوکر انکوائری بھی کی۔اب پانچ سال بعد ایف آئی اے نے سرنڈر کردیا۔جن لوگوں میں مبینہ طور پررقوم تقسیم کی گئیں ان میں معروف شخصیات بھی شامل تھیں:۔ نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی،سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو،عبدالحفیظ پیرزادہ، پیرآف پگاڑاشریف،مظفر حسین شاہ ، جام صادق، ارباب غلام رحیم،بیگم عابدہ حسین، میاں محمدنواز شریف،انہیں مجموعی طور پردو مرحلوں میں 60 لاکھ روپے دیئے گئے۔
٭٭٭
 اصغر خان کیس کی چاپ 1991ء میں سنائی دی۔ 1993ءمیں سازش کی صورت میں اس کی شہرت ہوئی۔ 1996ءمیں کیس سپریم کورٹ گیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کیس کی پہلی سماعت ہی کی تھی کہ صدر لغاری نے دو دن بعد 5نومبر 1996ءکو بینظیر بھٹو کی حکومت توڑ دی۔ اس کے ساتھ ہی کیس بھی نظر انداز ہو گیا۔ میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت حاصل کرکے حکومت میں آئے تھے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ٹھن گئی، اس دوران اصغر خان مہران بنک سکینڈل پر عدالت میں حاضر ہو ئے۔ سجاد علی شاہ نے بند فائل کھول دی۔انہی دنوں ساتھی ججوں نے بغاوت کر دی، جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں سجاد علی شاہ کے مقابل عدالت لگ گئی۔ نو مبر میں سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری دونوں کو گھرجانا پڑا یوں یہ کیس ایک بار پھر لٹک گیا۔ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے اسے ایک بار پھر کھولا، اس کی آخری سماعت ہوئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا لیکن سنانے کی نوبت نہ آ سکی، اگلے روز 12اکتوبر 1999ءکو مشرف نے نواز شریف حکومت پر شب خون مارا اور یہ کیس ایک بار پھر تاریکیوں میں گم ہو گیا۔ 2012ءمیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس کیس کو تاریکیوں سے نکالا تاہم اس کے بعد اس کی راہیں گُم ہورہی تھیں کہ اس پر چھ سال بعد میاں ثاقب نثار کی نظر پڑ گئی۔ 1990ءمیں بینظیر بھٹو کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے یونس حبیب سے کروڑوں روپے حاصل کرکے سیاستدانوں میں تقسیم کئے گئے۔ مقصد محترمہ کے خلاف آئی جے آئی کے نام سے سیاسی اتحاد کو مضبوط بنانا تھا۔آخر صدر اسحق اور جنرل بیگ کو بینظیر سے مسئلہ کیاتھا کہ پہلے ان کی حکومت توڑی پھر ان کے دوبارہ اقتدرا میں آنے کے راستے بند کرنے کیلئے ماورا آئین و اخلاق کام کرنے لگے ؟1990ءمیں بااختیار لوگوں کی طرف سے سیاستدانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اگر سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو غلام اسحق خان ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ he was right man at right place انہوں نے ایک بار محترمہ کی حکومت توڑی دوسری بار نواز شریف کی۔ بالآخر ان کو خود بھی نواز شریف کے ساتھ گھر جانا پڑا اس لئے دونوں پارٹیوں کے لئے راندہ درگاہ ٹھہرے۔بظاہر تو جنرل اسلم بیگ اقتدار کے لالچ سے مبرا، ان کی حب الوطنی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ محترمہ کو اقتدار دلانے میں جنرل اسلم بیگ پیش پیش تھے۔جنرل بیگ کی جمہوریت کیلئے خدمات کے اعتراف میں وزیر اعظم بے نظیر نے فوج کو تمغہ¿ جمہوریت دیا تھا۔ اسحاق خان کو صدر برقرار رکھنے کی پیپلز پارٹی نے حمایت کی تھی پھر محض ڈیڑھ دو سال ہی میں صدر اور آرمی چیف ان سے بدظن کیوں ہو گئے کہ ان کی حکومت توڑ دی اور ان کے دوبارہ اقتدار میں واپسی ناممکن بنانے کیلئے آئی جے آئی کو جیت کی پوزیشن میں لانے کیلئے کروڑوں روپے بھی لگا دیئے؟۔ آگے چلنے سے قبل ماہرین کی یہ رائے ذہن میں رہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو جس عمر میں اقتدار ملا اس وقت ان کی سیاسی بصیرت اور بصارت کا خانہ تقریباً خالی تھا۔ البتہ پچاس کی عمر کے بعد دونوں پختہ کار سیاست دان بن گئے۔
٭٭٭

 محترمہ کے پہلے دور میں بھی کرپشن کہانیاں عام تھیں۔ آصف علی زرداری کو 10پرسنٹ کہا جاتا تھا۔ کراچی میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا حکم دیا تو آرمی چیف جنرل بیگ نے کہا کہ فوجی آپریشن اندرون سندھ ڈاکوﺅں اور رسہ گیروں کے خلاف بھی کیا جائے گا جس سے محترمہ نے انکار کر دیا تھا۔ الذوالفقار کی کارروائیاں بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود تھیں تاہم یہ معاملات ایسے نہیں تھے جن کو جواز بنا کر جمہوریت کو تلپٹ کر دیا جائے۔ 
حیدر آباد میں پکا قلعہ آپریشن 1990ءمیں ہوا۔ اس پر نظریں رکھنے والے بھی آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے کے شیطانی ذہن کوداد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔ آپریشن کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ وزیر اعظم، آرمی چیف اور کور کمانڈر کراچی جنرل آصف نواز ملک میں موجود نہیں تھے۔ فوجی چھاﺅنیاں معمول کی مشقوں کے باعث خالی تھیں۔ ایسے میں پولیس پکا قلعہ پر چڑھ دوڑی۔ بچوں اور خواتین تک کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ قرآن اٹھا کر ستم کا یہ سلسلہ بند کرنے کی درخواست کرنے والی خواتین کے سینے بھی چھلنی کر دیئے گئے۔ صدر اسحٰق خان کے توسط سے فوج کی ہائی کمان تک خبر پہنچی تو فوری طور پر فوجی کارروائی کا حکم دیا گیا لیکن حیدر آباد اور گرد و نواح میں فوج موجود ہی نہیں تھی۔ یونٹوں میں موجود ڈیوٹی دینے والوں کو بھیجا گیا تو پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔ محترمہ لندن سے لوٹیں تو پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمارے آئی جی نے بتایا کہ پکا قلعہ میں اسلحہ موجود تھا۔ اسے برآمد کرنے کیلئے آپریشن کیا گیا۔ وہاں تک پہنچنے ہی والے تھے کہ فوج نے رکاوٹ ڈال دی۔ پولیس واپس گئی تو فوج اسلحہ ٹرکوں میں ڈال کر لے گئی۔یہ اسلحہ واہ فیکٹری کا بنا ہوا تھا۔ اپنی وزیراعظم کی طرف سے یہ کہنے پر فوج کا سٹپٹانا لازم تھا۔ لندن سے واپسی پر محترمہ نے جذباتی انداز میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے ان (فوج) کو ریڈ لائن (یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے) کراس کرنے سے منع کیا تھا۔ ہماری نہیں مانی گئی۔ محترمہ نے بی بی سی کو انٹرویو کے دوران فخریہ انداز میں اعتراف کیا کہ خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنماﺅں کی لسٹیں بھارت کو دی گئی ہیں۔ جن کو راجیو حکومت نے چن چن کر قتل کیا اور بھارت ٹوٹنے سے محفوظ رہا۔مزید یہ بھی سنئیے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں کشمیر کے حوالے سے بورڈ وغیرہ ہٹا دیئے گئے۔ اس وقت میڈیا میں یہ باتیں بھی آئیں کہ وزیر اعظم ہاﺅس کی الیکٹرانک سویپنگ بھارتی خفیہ ایجنسی را سے کرائی گئی۔ پاکستانی ایجنسیوں کو لاتعلق تو کیا گیا لیکن بے بس نہ کیا جا سکا۔ محترمہ اور راجیو کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ سننے میں آیا کہ اس کی ریکارڈنگ شام کو صدر اسحق خان کی میز پر تھی۔ اس میں راجیو کو ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا یقین دلایا گیا تھا۔ کشمیر پر اس نے پاکستان کے ”واویلے “ کی بات کی تو بھی کہا گیا کہ ہم شور شرابا کرتے رہیں گے عملی طور پر کچھ نہیں ہو گا۔ (دروغ برگردنِ راوی)۔۔۔ جن ذمہ داروں کے سامنے یہ سب کچھ ہو وہ بھلا خاموش بیٹھیں گے؟ محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی کی یہی اصل میں وجوہات بتائی اور گنوائی جاتی ہیں۔ 90ءمیں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ان کے جیتنے کا امکان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدر اسحاق خان نے ہدایت کی، حکومت کا خاتمہ اس لئے نہیں کیا کہ دوبارہ اقتدار ان کو دے دیا جائے۔ انہوں نے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے آرمی چیف کی ذمہ داری لگائی۔ 14کروڑ جس جس کو بھی ملے وہ آئی ایس آئی نے نہیں ملٹری انٹیلی جنس نے تقسیم کئے۔ ان دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ عبدالرحمن کلو تھے جو وزیراعظم بینظیر بھٹو کے اعتماد کے آدمی تھے۔ لہٰذا رقوم ملٹری انٹیلی جنس کے ذریعے تقسیم کی گئیں جس کے سربراہ ان دنوں میجر جنرل اسد درانی تھے۔ بریگیڈیئر حامد سعید اختر کو ملٹری انٹیلی میں لا کر سندھ کا ہیڈ بنایا گیا تھا۔انہوں نے رقوم تقسیم کرنے کا بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔انہوں نے کورٹ میں اپنی ذاتی ڈائری بھی پیش کی جس میں وصول کرنے والوں کے نام بمع مالیت کے درج تھے۔
٭٭٭
اصغر خان کیس کسی قتل کی طرح کا وقوعہ ہے۔ مدعی کے نامزد کردہ ملزم عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو جاتے ہیں مگر وقوعہ اپنی جگہ پر موجود ہوتا ہے۔ ملزم بری ہونے کا مطلب کیا یہ ہو سکتا ہے، قتل ہوا ہی نہیں؟ ایف آئی اے کو ثبوت نہیں ملے تو کیا وقوعہ غائب سمجھ لیا جائے۔ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے نگرانوں اور نگہبانوںکے سامنے جو شواہد آئے‘ ان کی رو سے انہوں نے جو کیا‘ وہ اس دور میں درست تھایا نہیں اس کا تعین ابھی ہونا ہے۔دینے والوں نے محترمہ کو سیکیورٹی رسک سمجھ کرآئی جے آئی کو مضبوط بنانے کیلئے اس کے لیڈروں کو پیسے دیئے، شایدانکے ذہن میں یہ ہو کہ کسی کوکیا خبر ہوگی؟ مگر ضمیر بھی کوئی چیز ہے۔ اب کوئی بھی وصولی کا اعتراف نہیں کر رہا۔ ایف آئی اے نے بھی یہی کہا کہ کوئی رقم کی وصولی کو تسلیم نہیں کر رہا لہٰذا کیس بند کر دیا جائے۔ گویا آج جیلوں میں قتل‘ اقدام قتل اور دیگر جرائم میںجو لوگ سزائیں کاٹ رہے ہیں‘ ان کو سزائیں جرم قبول کرنے کے بعد دی گئی ہیں؟؟؟ دو سال قبل سابق چیف جسٹس پاکستان ارشاد حسن خان کے گھر ڈکیتی ہوگئی۔ گیٹ پر پولیس تعینات ہے۔ ڈاکو دیوار پھلانگ سکتے ہیں۔ اندر کمروں میں کیسے داخل ہوگئے؟ ملازم بھی انہی کمروں میں سے ایک میں رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کنڈی لگانا بھول گیا تھا۔ اسی کو ملزم نامزد کیا گیا۔ ارشاد حسن خان صاحب نے چند روز بعد اس مقدمے میں پراگریس پوچھی تو ایس ایس پی نے کہا جناب ملزم پر سختی کرتے ہیں تو وہ رونے لگتا ہے۔ میجر نذیر نے کشمیر سنگھ کی انویسٹی گیشن کی اس سے راز اگلوائے۔ وہ کہتے ہیں کیس ٹو کیس دیکھا جاتا ہے۔ نفسیات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ معمولی سی انویسٹی گیشن سے حیران کن نتائج سامنے آجاتے ہیں کبھی سختی بھی کرنا پڑتی ہے اور کبھی وہ کچھ کرنا پڑتا ہے جوسعودی عرب نے کرپشن اگلوانے کیلئے کیاجسے سعودی ماڈل کا نام دیا گیا ہے۔
٭٭٭

 آئی جے آئی کو مضبوط بنانے کے لئے رقوم کی تقسیم کے بعد اسد درانی ڈی جی آئی ایس آئی بنے تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو رقوم کی تقسیم کے بارے میں بتایا۔شاید انعام کے طورپرانہیں ریٹائرمنٹ کے بعد جرمنی میں سفیر تعینات کر دیا گیا۔ بعدازاں وزیراعظم بے نظیر کو یہ معاملہ یاد آیا تو اسد درانی سے جرمنی میں اپنے با اعتماد آدمی کو بھیج کر بیان حلفی لیا گیا۔جنرل امجد شعیب کہتے ہیں، بےنظیر نے جی ایچ کیو کو جرنیلوںکے خلاف کارروائی کے لیے خط لکھا۔جنرل وحید کاکڑ آرمی چیف تھے۔فوجی کانفرنس جس میں جنرل امجد شعیب بھی موجود تھے، اس خط کو ڈسکس کیا گیا اور حکومت کو جواب لکھا گیا، ہم جرنیلوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، حکومت سولین کے خلاف کارروائی کرے۔نہ اُدھر سے نوٹس لیا گیا نہ اِدھر سے کارروائی ہوئی۔بقول جنرل امجد شعیب وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اور وزیر قانون اقبال حیدر معاملہ اصغر خان کے پاس لے کے گئے، انہیں کچھ پیسے بھی دیئے گئے توانہوں نے یہ کیس دائر کر دیا۔ پاک فوج ڈسپلنڈ فوج ہے۔ڈسپلن ہی جان کے نذرانے پیش کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔فوج سے ڈسپلن نکال دیا جائے تو کچھ نہیں بچتا،کچھ بھی نہیں!۔اب فوج سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے افسروں کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کردیں۔گویا ہر فوجی کو بندوق کے ساتھ آئین کی کتاب دی جائے تاکہ مورچے میں قانونی اور غیر قانونی کا جائزہ لینے کے بعد گولی چلائے۔

متعلقہ خبریں