جب زندگی شروع ہو گی

2018 ,جنوری 23



صحابہ کرام اور مہاجرین و انصار حلقہ بنائے ادب و احترام سے بیٹھے تھے۔ امتِ محمدیہ کے اولین و آخرین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ شمعِ رسالت کے ان پروانوں کے بیچ رسالتمآب سر جھکائے تشریف فرما تھے۔ بظاہر ہر چیز بالکل ٹھیک تھی، مگر میں محسوس کرسکتا تھا کہ یہاں بھی اسی نوعیت کا تفکر پھیلا ہوا تھا جسے میں پیچھے دیکھ آیا تھا۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بارگاہ احدیت میں دعا کررہے ہیں۔ ہمیں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے۔“، صالح پچھلی نشستوں کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
ہم پچھلی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ یہاں سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ آگے کیا ہورہا ہے۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
”یہ حساب کتاب کب شروع ہوگا؟“
”مجھے کیا معلوم۔ کسی کو بھی معلوم نہیں۔“، اس نے جواب دیا۔
اس کی بات سن کر میں خاموش ہوگیا اور نشست کی پشت سے سر ٹکاکر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا۔ نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا کہ صالح کی آواز میرے کان میں آئی:
”عبد اللہ اٹھو! دیکھو تم سے کون ملنے آیا ہے۔“
اس کی آواز پر میں چونک کر کھڑا ہوگیا۔ سامنے دیکھا تو ایک انتہائی باوقار ہستی میرے سامنے کھڑی تھی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں سے محبت کے آثار جھلک رہے تھے۔ اس سے قبل کہ صالح مزید کچھ کہتا، انھوں نے نرم لہجے میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:
”مرحبا عبد اللہ! میرا نام ابوبکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے میں تمھیں خوش آمدید کہتا ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلادیے۔ میں پرجوش انداز میں ان سے بغلگیر ہوگیا۔ معانقے کے بعد وہ مجھے لوگوں سے ذرا دور لے کر ایک نشست پر جابیٹھے۔ میں نے بیٹھتے ہی ان سے دریافت کیا:
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کب مل سکوں گا؟۔“
”رسول اللہ اس وقت بارگاہ ایزدی میں شکر و دعا میں مصروف ہیں۔ تم ان سے بعد میں مل سکتے ہو۔ اس وقت بتانے کی اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جناب رسالتماب کی یہ دعا قبول ہوگئی ہے کہ لوگوں کا حساب کتاب شروع ہوجائے۔ اس قبولیت کی گھڑی میں تم نے بھی ایک دعا کی تھی۔ تم دوبارہ حشر کے میدان میں جاکر وہاں کا احوال دیکھنا چاہتے تھے؟ تمھیں اس کی اجازت مل گئی ہے۔ حساب کتاب کچھ دیر بعد شروع ہوگا۔ تم ا±س وقت تک لوگوں کے احوال دیکھ سکتے ہو۔ یہ پیغام دے کر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔“
یہ سن کر میرے چہرے پر خوشی کے تاثرات ظاہر ہوئے۔ جنھیں دیکھ کر خلیف? رسول کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ ایک وقفے کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے:
”باہر بہت سخت ماحول ہے۔ صالح گرچہ تمھارے ساتھ ہوگا، مگر پھر بھی تم یہ پیتے جاو۔ یہ مشروب تمھیں باہر کے آلام سے محفوظ کردے گا۔“
یہ کہہ کر انھوں نے پاس رکھا سنہرے رنگ کا جگمگاتا ہوا ایک گلاس میری سمت بڑھادیا۔ میں نے دونوں ہاتھ آگے بڑھاکر یہ گلاس ان کے ہاتھوں سے لیا اور اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہی ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میں گرچہ بالکل پیاسا نہیں تھا اور نہ کسی تکلیف اور بے چینی ہی میں تھا، مگر جو تسکین مجھے ملی وہ شاید صدیوں کے کسی پیاسے کو بھی پانی کا پہلا گھونٹ پینے پر نہیں ملتی ہوگی۔ اس مشروب کا ایک گھونٹ حلق سے اتارتے ہی لذت، سیرابی، آسودگی، مٹھاس اور ٹھنڈک کے الفاظ اپنے ایسے مفاہیم کے ساتھ مجھ پر واضح ہوئے جس کا تجربہ مجھے تو کیا، کسی دوسرے انسان کو بھی کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ اس مشروب کا ایک ایک قطرہ میری زبان سے حلق، حلق سے سینے اور سینے سے معدہ تک اترتا رہا اور میری رگ رگ کو سیرابی اور سرشاری کی کیفیت سے دوچار کرتا گیا۔
ہم دونوں ایک دفعہ پھر تیزی سے چل رہے تھے۔ عرش کی حدود سے نکلتے ہی ایک انتہائی گرم اور حبس زدہ ماحول سے واسطہ پڑا۔ لگتا تھا کہ سورج نو کروڑ میل سے سوا میل کے فاصلے پر آکر دہکنے لگا ہے۔ ہوا بالکل بند تھی۔ لوگ پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ مجھ پر جام کوثر کا اثر تھا وگرنہ اس ماحول میں تو ایک لمحہ گزارنا ناممکن تھا۔ مگر میں دیکھ رہا تھا کہ ان گنت لوگ اسی ماحول میں بدحال گھوم رہے تھے۔ چہروں پر وحشت، آنکھوں میں خوف، بال خاک آلود، جسم پسینے سے شرابور، وجود مٹی سے اٹا ہوا، پاو¿ں میں چھالے اور ان چھالوں سے رستا ہوا خون اور پانی۔ یاس و ہراس کا یہ منظر میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ ہر طرف افراتفری چھائی ہوئی تھی۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ میری نظریں کسی ایسے شخص کو تلاش کررہی تھیں جسے میں جانتا ہوں۔ پہلی شخصیت جو مجھے نظر آئی وہ میرے اپنے استاد فرحان احمد کی تھی۔ انہوں نے دور سے مجھے دیکھا اور تیزی کے ساتھ میری نگاہوں سے اوجھل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے صالح سے کہا:
”انھیں روکو! یہ میرے استاد ہیں۔ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“
مگر اس نے مجھے ان کی طرف بڑھنے سے روک دیا اورتاسف آمیز لہجے میں بولا:
”دیکھو عبد اللہ! اپنے استاد کی رسوائی میں اور اضافہ مت کرو۔ اس وقت یہاں کوئی شخص اگر خوار و خراب ہورہا ہے تو سمجھ لو اس کے ساتھ عدل ہوچکا ہے۔ وہ خدائی کسوٹی پر کھوٹا سکہ نکلا، اسی لیے اس حال میں ہے۔“
میں تڑپ کر بولا:
”مگر ہم نے تو خداپرستی اور آخرت کی سوچ اور اخلاق کی ساری باتیں انہی سے سیکھی تھیں۔“
”سیکھی ہوں گی“، صالح نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”مگر ان کا علم ان کی شخصیت نہیں بن سکا۔ دیکھو! خدا کے حضور کسی شخص کا فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کے عمل، سیرت اور شخصیت کی بنیادی حیثیت ہوتی ہے۔ علم صرف اس لیے ہوتا ہے کہ شخصیت درست بنیادوں پر تعمیر ہوسکے۔ جب تعمیر ہی غلط ہو تو یہ علم نہیں سانپ ہے:
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر من زنی یارے بود
(لم ظاہر تک رہے تو سانپ ہے اور اندر اترجائے تو دوست بن جاتا ہے)
یہی تمھارے استاد کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ ایک اچھے مصنف تھے۔ باتیں بھی اچھی کرتے تھے۔ مگر ان کی سیرت و کردار ان کی باتوں کے مطابق نہ تھی۔ درحقیقت تمھارے استاد سانپ پال رہے تھے۔ آج علم کے ان سانپوں نے انہیں ڈس لیا ہے۔ آج یہاں جب تم لوگوں کو دیکھو گے تو انہیں ان کے ظاہر اور ان کی باتوں کے مطابق نہیں پاو¿ گے، بلکہ ان کی شخصیت ٹھیک ویسے ہی نظر آئے گی جیسا کہ وہ اندر سے تھے۔ یاد رکھو! خدا لوگوں کو ان کے ظاہر اور ان کی باتوں پر نہیں پرکھتا۔ وہ عمل اور شخصیت کو دیکھتا ہے۔ خاص کر اہل علم کا احتساب آج کے دن بہت سخت ہوگا۔ جو باتیں دوسرے لوگوں کے لیے عذر بن جائیں گی، عالم کے لیے نہیں بن سکیں گی۔“
”مگر انہوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔“، میں نے ہار نہ مانتے ہوئے کہا۔
”ہاں مگر ان کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں مل گیا۔“، صالح نے جواب دیا۔
”علم کی غلطیاں معاف ہوسکتی ہیں، مگر شخصیت اور عمل کی کمزوری آج کے دن اسی حال میں پہنچائے گی جس میں تمھارے استاد مبتلا ہوئے ہیں۔ خیر ابھی تو یہ دن شروع ہوا ہے، دیکھو آخر تک کیا ہوتا ہے۔“
میں صدمے کی حالت میں دیر تک گم سم کھڑا رہا۔ میں ایک یتیم شخص تھا جس کا کوئی رشتہ ناطہ نہ تھا۔ میرے لیے جو کچھ تھے وہ میرے استاد تھے۔ انہوں نے میری سرپرستی کی، مجھے علم سکھایا، میری شادی کروائی، اور زندگی میں ایک مقصد دیا۔ جو شخص میرے لیے باپ سے زیادہ مقدم تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر مجھے ایک شاک  لگا تھا۔ میں اس کیفیت میں اپنے ماحول سے قطعاً لا تعلق ہوگیا۔
میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے، دوڑتے، گرتے پڑتے چلے جارہے تھے۔ فضا میں شعلوں کے دہکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے، رونے پیٹنے اور آہ و زاری کرنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے، لڑ جھگڑرہے تھے، الزام تراشی کررہے تھے، آپس میں گتھم گتھا تھے۔
کوئی سر پکڑ کے بیٹھا تھا۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا تھا۔ کوئی چہرہ چھپارہا تھا۔ کوئی شرمندگی اٹھارہا تھا۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرارہا تھا۔ کوئی سینہ کوبی کررہا تھا۔ کوئی خود کو کوس رہا تھا۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہراکر ان پر برس رہا تھا۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ قیامت کا دن آگیا اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار تھا۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا۔ جس کے بعد حساب کتاب شروع ہونا تھا اور پورے عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ کردیا جانا تھا۔
مگر میں اس سب سے بے خبر نجانے کتنی دیر تک اسی طرح گم سم کھڑا رہا۔ یکایک میرے بالکل قریب ایک آدمی چلایا:
”ہائے۔۔۔ اس سے تو موت اچھی تھی۔ اس سے تو قبر کا گڑھا اچھا تھا۔“
یہ چیخ نما آواز مجھے واپس اپنے ماحول میں لے آئی۔ لمحہ بھر میں میرے ذہن میں ابتد ا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ خبریں