یوم مئی اور اِسلام

2018 ,مئی 1



یومِ مئی کو مزدوروں اور محنت کشوں کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ جب یہ دن آتا ہے تو مملکتِ خداداد پاکستان اور پوری دُنیا میں محنت کش اِس دن کو عالمی دن سمجھ کر مناتے ہیں۔ یہ دن محنت اور بھائی چارے کا اِحساس دلاتا ہے۔ اور ملک و ملّت سے محبت رکھنے والے اَفراد کو قوم و ملک کی تعمیر و ترقی کا جذبہ اور شوق دلاتا ہے۔
مزدوروں کے حقوق کا منصفانہ تعین اور تحفظ اِسلام ہی کرتا ہے۔ اِسلام ہر اَیسے سماجی اور اِقتصادی نظام کو مسترد کرتا ہے جس کے باعث اِنسان کے ہاتھوں اِنسان کا اِستحصال ہو۔ ہر اِستحصالی نظام اِسلامی اَخوت پر مبنی اِنسانی تعلقات کے تقدّس کو پامال کرتا ہے۔ اِس لئے تاجروں اور مزدوروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے حقوق و فرائض کو اِسلام کے سماجی اِنصاف کے تصوّر کے مطابق پورا کریں۔ تاجر کو مزدور کی محنت کا پورا معاوضہ دینا چاہئے اور مزدور کو معاوضے کے مطابق دیانتداری سے اپنے فرائض صحیح طور پر اِنجام دینے چاہئیں۔
حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ خاتم المرسلین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐنے فرمایا: اُعْطُوا الْاَجِیْرَ اَجْرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَّجِفَّ عَرَقَہٗ 1؎ ’’مزدور کی مزدوری (یعنی اُجرت) اُس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے اَدا کرو‘‘۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ پسینہ نہ آئے تو مزدوری نہ دو۔ مقصد یہ ہے کہ مزدوری دینے میں ٹال مٹول نہ کرو جس وقت اُجرت دینے کا معاہدہ ہو چکا ہو اُسی وقت اَدا کردو۔

(1؎ابن ماجہ حدیث نمبر2443‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر2987‘ مرقاۃ جلد6 ص164۔)
آج کے دَور میں مزدوروں کے حقوق کے لئے بہت آواز بلند کی جاتی ہے جبکہ دینِ اِسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی مزدوروں کے حقوق متعین فرما دئیے ہیں۔
حضرت سیّدنا ابوسعید خدریؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: اِذَا اسْتَأْجَرْتَ اَجِیْرًا فَأَعْلِمْہُ اَجْرَہٗ 2؎ ’’جب تم کسی مزدور سے مزدوری کرائو تو اُسے اُس کی اُجرت بتا دو‘‘۔

(2؎مسنداحمد جلد3 ص59-68-71‘ نسائی حدیث نمبر3888۔)
حضرت سیّدنا حنظلہ کاتب ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ایک غزوہ میں ہم لوگ اِمام المرسلین حضور سیّدنا رسول اللہؐ کے ساتھ تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کسی چیز کے پاس جمع ہیں تو آپ ؐنے (تحقیق کا قانون مرتب فرمانے کے لئے) ایک شخص کو بھیجا اور فرمایا دیکھو یہ لوگ کس چیز کے پاس جمع ہیں‘ وہ دیکھ کر آیا اور اُس نے بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے پاس جمع ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا: یہ تو لڑتی نہ تھی یہ تو اَیسی نہ تھی کہ قتال کرے۔ اُس وقت مقدمۃ الجیش (فوج کے اَگلے حصّہ) پر حضرت سیّدنا خالد بن ولیدؓ مقرر تھے تو آپؐنے ایک شخص کو بھیجا کہ حضرت سیّدنا خالد بن ولیدؓ کو میری طرف سے فرما دیں کسی عورت‘ بچے اور مزدور کو نہ ماریں (یہاں مزدور سے وہ مزدور مراد ہے جو لڑتا نہ ہو صرف خدمت کے لئے مقرر ہو۔)
حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: تین اَشخاص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی اُنہوں نے ایک غار میں جا کر پناہ لی۔ اِتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اُوپر سے لڑکھی اور غار کے منہ کے آگے ٹھہر گئی اور غار کا منہ بند ہوگیا۔ وہاں تینوں اَفراد بند ہو گئے اور اِس مصیبت سے نجات پانے کے لئے وہ اپنی نیکی کو یاد کرنے لگے اور اُس کی گئی نیکی کے وسیلہ سے دُعا مانگنے لگے۔اُن میں سے ایک وہ شخص تھا جس کے ہاں ایک مزدور کام کرتا تھا۔ اُس نے مزدوری لینے سے اَنکار کر دیا مزدوری کروانے والے شخص نے اُس مزدور کی اُجرت کی رقم سے کاروبار شروع کر دیا اور جو آمدن وغیرہ ہوتی اُسے کاروبار میں لگاتا رہتا اُس کا مال بڑھتا رہا۔ ایک دن وہ مزدور آیا اور اپنی مزدوری مانگنے لگا۔ تو اُس مزدور سے کہا‘ یہ گائیں اور چرواہے سب تیرے ہیں۔ وہ اُسے مذاق سمجھنے لگا اُس شخص نے مزدور کو ساری حقیقت بیان کر دی اور گائیں بیل اور چرواہے سبھی اُس کو دے دئیے تو اُس شخص نے اِس عمل کے وسیلہ سے دُعامانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غار میں بند تینوں لوگوں کو پتھر سے نجات عطا فرما دی۔
مزدور اور خادم کے بارے میں اللہ جل جلالہ کا اِرشاد مبارک ہے اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِّیُ الْاَمِیْنُ یعنی مزدور اور خادم کو محنت کش اور دیانت دار ہونا چاہئے۔ لہٰذا جب کہیں مزدوری وغیرہ کرے وہاں محنت اور دیانتداری سے کام کرے تاکہ اُس کا رزق‘ رزقِ حلال ہو جائے رزقِ حلال کمانا بھی دیگر عبادات کی طرح عبادت ہے۔
حضرت سیّدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ’’میری یتیمی میں پرورش ہوئی جب میں نے ہجرت کی اُس وقت مسکین و محتاج تھا اور غزوان کی بیٹی کا صرف خوراک اور باری باری اُونٹ پر چڑھنے کے عوض مزدور تھا۔ جب وہ لوگ ٹھہرتے تو میں اُن کے لئے لکڑیاں چنتا اور جب وہ سوار ہوتے تو میں اُن کے اُونٹوں کی حدی خوانی کرتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ہے جس نے دین کو مضبوط اور مجھ ابو ہریرہ کو دین کا پیشوا بنا دیا۔
حضرت سیّدنا ابو ہریرہ ؓنے ماضی اور حال کا موازنہ کر کے بطورِ شکرانہ یہ کلمات عرض کئے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچہ کرو‘‘۔
حضرت سیّدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ سیّد الانبیاء حضور سیّدنا رسول اللہؐ کے ظاہری زمانہ حیات میں دو بھائی تھے اُن میں سے ایک محنت و مزدوری کرتا تھا اِس محنت مزدوری کرنے والے نے نبی آخر الزماں حضور سیّدنا رسول اللہؐ سے شکایت کی کہ میرا بھائی آپ ؐکی خدمتِ اَقدس میں رہتا ہے تو آپؐ نے فرمایا: تجھے کیا خبر کہ تجھے اِسی کے وسیلہ سے روزی ملتی ہے۔ کیونکہ وہ علمِ دین سیکھنے کے لئے میرے پاس رہتا ہے۔ تیری روزی میں اُس کی برکت بھی شامل ہے۔

(مرقاۃ جلد9 ص497)
اِبتدائے اِسلام میں روزہ کی فرضیت کے وقت یہ اُصول تھا کہ اگر کوئی روزہ دار اِفطاری کے وقت اِفطاری سے پہلے سو جاتا تو پھر وہ ساری رات اور سارا دن کھانا نہیں کھا سکتا تھا‘ یہاں تک شام ہو جاتی۔ حضرت سیّدنا قیس بن صرمہؓ بڑے محنتی مزدور تھے۔ یہ مزدوری سے واپس آئے تھکے ہوئے تھے اُن کی بیوی اِفطاری کا اِہتمام کرنے میں مصروف تھی مگر وہ اَفطاری سے پہلے سو گئے۔ نتیجتاً قانون کے مطابق وہ کھانا نہ کھا سکے جس کی وجہ سے ساری رات اور اگلا سارا دن بغیر کھائے پئے محنت مزدوری کرتے رہے اور بھوکے پیاسے رہنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تو ربِّ کائنات جل جلالہ نے اُس ایک عاشقِ رسول‘ رزقِ حلال کمانے والے صحابیؓ کی برکت اور صدقے سے ساری اُمّت پر مہربانی فرما دی۔ اور قیامت تک کے لئے سہولت عطا فرما دی پہلاقانون تبدیل فرما کر نیا قانون عطا فرما دیا وہ یہ کہ اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے جدا ہو جائے (ظاہر ہو جائے) یعنی وقتِ سحر ختم ہونے تک۔

(البقرۃ:187)
حضرت سیّدنا ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ اِمام المرسلین حضور سیّدنا رسول اللہؐ نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: ثلاثۃ۔۔۔۔ اجرہ 4؎ تین قسم کے لوگ اَیسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود اُن سے جھگڑوں گا (1)وہ شخص جو میرا نام لے کر عہد کرے پھر اُسے توڑ دے‘ (2)وہ شخص جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اُس کی قیمت کھا جائے اور (3)جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے تو اُس سے پورا کام لے لیکن اُسے مزدوری (اُجرت) نہ دے۔ (4؎بخاری حدیث نمبر2227‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر2984‘ ابن ماجہ حدیث نمبر2442‘ مسنداحمد جلد2ص358‘ مرقاۃ جلد6 ص161۔)
دُنیا میں اِنسانی حقوق کی بنیاد رکھنے والا دین‘ دین اِسلام ہے۔ اِس دینِ حق نے معاشرے کو اَمن و سکون کا گہوارہ بنایا اور تقسیم کار کے فطری قانون کے ذریعہ کسی کو مالک تو کسی کو مملوک کسی کو خادم اور کسی کو مخدوم کسی کو حاکم اور کسی کو رعایا قرار دیا۔ اِسی کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کی تعلیم دی۔ دینِ اِسلام نے وسیع اور جامع ترین حقوق فراہم کئے اور ہر قسم کے ظالمانہ سلوک سے باز رہنے کا حکم فرمایا۔

متعلقہ خبریں