سفر شرط!

کراچی جانے والی ٹرین چلنے سے پہلے ہی لیٹ تھی۔ مسافر پانچ بجے کے مطابق سٹیشن پر پہنچ چکے تھے۔ ٹرین روانگی سے آدھ پون گھنٹہ قبل پلیٹ فارم پر لگ جاتی ہے، مسافر آتے اور بوگیوں میں سوار ہوتے رہتے ہیں۔ روانگی کے وقت گاڑی آئے تو افراتفری، ہلچل ایک فطری امر ہے۔ ٹرین لیٹ ہو تو مسافروں میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ساڑھے پانچ بجے ٹرین پلیٹ فارم پر لگی تو گویا کئی مسافر تو ٹوٹ پڑے حالانکہ پوری ٹرین کی ایک ایک سیٹ بُک اور انتظامیہ سارے مسافروں کے سوار ہونے کی تسلی کر کے وِسل دیتی ہے۔ مگر ہماری اپنی نفسیات ہے۔ اس موقع پر کوئی گھڑمس سا گھڑمس ہوتا ہے۔ جب لوگ ٹرین کی طرف بڑھے تو عجیب واقعہ پیش آیا۔ دو متصل بنچوں پر ایک فیملی کے چھ سات افراد بمع تین چار خواتین کے بیٹھے تھے، ٹرین آئی تو یہ بھی اُٹھے ان میں سے ایک نے اپنے لوگ سنبھالے ، آواز لگائی اسلم ! اسلم! اسلم کدھر ہے؟ پتہ چلا وہ واش روم گیا ہے۔ ایک بڑے غصے سے واش روم کی طرف گیا، جلد ہی اسلم بھاگتا ہوا نکلا اور سامنے بوگی کی طرف لپکا، اس نے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا، شاید جو کسر رہ گئی وہ بوگی کے واش روم میں پوری کرنا تھی، اس نے بوگی میں سوار ہونے کے لئے ایک ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر ڈالا شاید بھول گیا کہ دوسرے ہاتھ سے پیٹ دبایا ہوا تھا دوسرا ہاتھ بھی ہینڈل پر ڈال دیا پائوں بھی باری باری اسی طرح اوپر کئے تومایا لگی شلوار اُتر کر آدھی پلیٹ فارم پر گری، آدھی نیچے پٹڑی کی طرف لُڑھک گئی تو ازن پٹڑی کی طرف زیادہ تھا۔دوسرے لمحے پوری شلوار ٹرین کے نیچے تھی، اس نوجوان نے لمبا کچھا پہنا ہوا تھا چنانچہ ساری عزت ، بے عزتی ایک ہونے سے بچ گئی۔ واش روم میں ایک طرف سے ناڑا نکل گیا تھا اور کچھ یہ نوجوان سادہ بھی تھا۔ خیریت یہ ہوئی کہ قریب ہی خاکروب وائپر لگا رہا تھا اس نے وائپر سے نوجوان کی عزت اٹھا کر اسکے حوالے کر دی۔ اسلم کے سوا سب کے لئے ٹرین بخیریت آھے گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہو گئی۔
مجھے میجر شوکت علوی کے بیٹے مہتاب عالم کے ولیمے میں شرکت کے لئے کراچی جانا تھا۔ دو دو تین تین منٹ کا سٹاپ لاہور کینٹ اورکوٹ لکھپت سٹیشن پر بنا دیا جائے تو لاہور سٹیشن پر رش کم ہو سکتا ہے۔ کراچی میں بھی قیامت خیزی سے بچنے کے لئے ڈرگ روڈ اور لانڈھی میں سٹاپ دئیے جا سکتے ہیں مگر قلیا پامافیاشاید ایسا نہ ہونے دے۔ قلیوں کا کینٹ سٹیشن کراچی کا سالانہ ٹھیکہ نوے لاکھ ہے۔ ریلوے کا خسارہ پورا ضرور کیا جانا چاہئے مگر منافع کے لئے مسافروں کی چمڑی اُتارنے سے گریز کیا جائے تو یہ کارِخیر ہو گا۔ ٹرینوں میں کھانے ، چائے اور دیگر اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں مارکیٹ سے دو سے تین گنا زائد ہیں۔ کیوں؟ ریلوے ویسے صاف ستھری اور اس کی ٹائمنگ اور شیڈول بہتر ہوا ہے۔ شیخ رشید کے پہلے دور میں ریلوے بہتر تھی۔ زرداری یاروں کے یار ہیں، اے این پی نے بلور کو ریلوے کی وزارت لے کر دیدی۔ زرداری کی قیادت میں پی پی اور اتحادیوں سے اگلی ٹرم کے لئے بھی قوم محبت کرتی تو میں کراچی اس شادی میں شرکت کے لئے اگر جاتا تو بائی ائیر جاتا کیونکہ ٹرین کا وجود ناپید ہو چکا ہونا تھا۔ قوم نے زرداری کوایک اور ٹرم نہ دے کر مثالی ترقی کاایک سنہری موقع ضائع کر دیا!
لاہور سے روانگی کے بعد پہلا سٹاپ رائیونڈ ہے، جہاں سے تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ سوار ہوئے ان کے پاس سامان زیادہ وقت کم ہوتا ہے۔ اس لئے سارے مل جُل کر پہلے سامان لوڈ کرتے پھر خود سوار ہوتے ہیں۔ چلتی ٹرین میں خود کو اورسامان اکا موڈیٹ کرتے ہیں۔ بزنس کلاس چھ سیٹوں والے کمپارٹمنٹ میں پانچ سیٹیں رائیونڈ سے بُک تھیں۔ یہ پانچوں انڈونیشیا کے تھے۔ ان کا چھٹا ساتھی آگے کہیں تھا۔ یہ چھ کپل تھے۔ ایک ان کا امیر انڈونیشین ایک ان سمیت دیگر سب کا پاکستانی تھا۔ اس نے انڈونیشین خواتین کو ایک کمپارٹمنٹ میں ایڈجسٹ کرا دیا۔ مردوں کو یکجا کرنے کیلئے مجھے بھی وہاں سے دوسرے کمپارٹمنٹ میں جانے کو کہا تومجھے اس میںکوئی عار محسوس نہ ہوئی۔ میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھا تھا، ایک نوجوان ہماری طرح اردو بول رہا تھا۔ یہ تین سال پاکستان میں جماعت کے ساتھ لگا چکا تھا ۔ سب خوش مزاج تھے۔ ٹکٹ چیکر نے ٹکٹیں چیک کیں اور گیس سلنڈر کی طرف اشارہ کرکے کہا اس کو جلانا جرم اور گناہ ہے۔ بعد ازاں میں نے اردو جاننے والے نوجوان سے کہا ساتھیوںکو اپنی زبان میں بتا دے کہ سلنڈر کو گاڑی میں چلانا جرم ہے۔ ٹرین سے اتر کر جلا سکتے ہیں ۔ا س نے بتایا توسب ہنس پڑے ۔ ان لوگوں کا پاکستان کے بارے میں گمان اچھا ہے، پاکستانیوں کو با اخلاق ملنسار مہمان نواز اور ایماندار سمجھتے ہیں ۔