سملی ڈیم،اسلام آباد

2018 ,مارچ 8



مری ہلز اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں جو عرف عام میں ”گلیات“ پکارے جاتے ہیں پر ہونے والی برف باری اور باش صرف ان کے حسن و خوبصورتی میں اضافہ کا باعث ہی نہیںبنتی بلکہ ان سے لاکھوں افراد کو پینے اور وسیع رقبے کو آبپاشی کے لیے پانی جیسی انمول نعمت بھی حاصل ہوتی ہے مری اور اس کے بالمقابل واقع گلہڑا گلی کی پہاڑیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر ہونے والی برفباری او ربارش ڈھلوان کے ایک جانب دریائے جہلم اور اس کی وادیوں کو پانی فراہم کرتی ہے تو دوسری جانب راولپنڈی اسلام آباد اور ان سے ملحقہ علاقے اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
مری سے دریائے سواں اور گلہڑا گلی سے کھاد نالہ ان پانیوں کو لے کر نشیب کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ راستے میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی ان میں شامل ہو جاتا ہے لگ بھگ پچاس کلومیٹر کا پر پیچ راستہ طے کرنے کے بعد آزادی کے مقام پر کھاد نالہ، دریائے سواں سے مل جاتا ہے جو کچھ فاصلے کے بعد ایک چھوٹی سی پیالہ نما وادی میں آنکلتا ہے جہاں کوئی بیس بائیس سال پہلے سملی نام کا ایک چھوٹا سا گاوں آباد تھا جو سو سے ڈیڑھ سو مکانات پر مشتمل تھا۔


وفاقی دارالحکومت کی تعمیر کے وقت پانی کی فراہمی کے لیے جو منصوبے بنائے گئے تھے وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے رفتہ رفتہ کم پڑنے لگے تو پانی کی کسی بڑی ذخیرہ گاہ کی تلاش شروع ہوئی چنانچہ ارضیاتی اور جغرافیائی سروے کے بعد قرعہ فال اس علاقے کے نام نکلا جہاں سملی گاوں آباد تھا۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ تین اطراف بلند و بالا پہاڑ تھے جن کے عین نشیب میں آبادی تھی اگر اس گاوں کو خالی کر ا لیا جاتا تو یہ پیالہ نما وادی قدرتی جھیل بن سکتی تھی چنانچہ سملی کے مکینوں کو پرانی آباد ی کے سامنے پہاڑی پر بھارہ کہو کو پتریاٹہ اور مری سے ملانے والی سڑک کے کنارے متبادل جگہ دے کر گاوں خالی کرا لیا گیا اور یہاں پانی کی اس ذخیرہ گاہ کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ”سملی ڈیم“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔


سملی، اسلام آباد کے شمال مشرق میں لگ بھگ چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے دریائے سواں پر واقع یہ ڈیم مکمل قدرتی ڈیم ہے اور اس میں پانی کی آمد مکمل طور پر بارشوں سے مشروط ہے کھاد نالہ اور دریائے سواں کے علاوہ منگل، جندریلا، چنیوٹ، کلالئی، کلاں، بساند بھانہ اور ملحقہ چھوٹے چھوٹے علاقوں سے بھی درجنوں نالوں اور چشموں کا پانی براہ راست اسی جھیل میں آکر کر گرتا ہے جو 10کلومیٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ ستمبر 1982ءمیں مکمل ہونے والے اس ڈیم کی عمر کا اندازہ 63برس ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام آباد کے شہری 2045ءتک سملی کے پانی سے استفادہ کر سکیں گے۔


سملی ڈیم کی جھیل 265فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ 80ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ 44.5کیوسک گنجائش کی 6فٹ چوڑی سرنگ کے ذریعے پانی دو جدید ترین فلٹریشن اور پیوری فیکشن پلانٹس میں پہنچایا جاتا ہے جو 48انچ قطر کی 120میٹر طویل دو پائپ لائنوں پر متعدد پمپنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں جن کے باعث صاف پانی کی فراہمی میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا۔
جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آجانے کی صورت میں اس کے اخراج کے لیے 1010فٹ طویل اسپل وے بنایا گیا ہے جو سطح زمین 250فٹ ہے اس کے تین دروازے ہیں جبکہ بلندی پر اس کی موٹائی 30فٹ ہے اس اسپل وے سے 4500کیوسک پانی خارج ہوسکتا ہے حال ہی میں اسپل وے کے گیٹ مزید 20فٹ بلند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی مقدار 28ہزار 750ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 38ہزار ایکڑ فٹ ہوگئی ہے پہلے یہاں سے 2کروڑ 40لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جاتا تھا جبکہ توسیع سے یہ تقریباً دگنی ہوگئی۔

اسلام آباد کی 5لاکھ 25ہزار کی آبادی کو اوسطاً گیلن فی شخص کے حساب سے 8کروڑ 25لاکھ گیلن پانی درکار ہے سی ڈی اے گیارہ مختلف ذرائع سے یہ پانی فراہم کرتا ہے جن میں کورنگ واٹر ورکس، سملی واٹر ورکس، سید پور واٹر ورکس، نور پور واٹر ورکس اور نیشنل پارک پرانے گولف کورس، نئے گولف کو رس اور مختلف سیکٹروں میں نصب 143ٹیوب ویل شامل ہیں جن میں سے کئی ایک خشک یا خراب ہوچکے ہیں۔ سملی ڈیم کو ان تمام ذرائع پر اس لیے فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہاں سے اسلام آباد کی پانی کی نصف ضروریات پوری ہوتی ہیں اور روزانہ 4کروڑ 20لاکھ گیلن پانی 48انچ کی دو پائپ لائنوں کے ذریعے یہاں پہنچتا ہے چونکہ اسلام آباد راولپنڈی سمیت پوری وادی پوٹھوہار کو ان دنوں بارشوں کی کمی کا سامنا ہے اس لیے اس بارانی ڈیم سے اسلام آباد کو پانی کی فراہمی نمایاں طور پر کم ہوگئی ہے سی ڈی اے کے مطابق اس وقت سملی صرف 2کروڑ گیلن پانی روزانہ فراہم کر رہا ہے جس سے اسلام آباد فی الوقت سنگین صورتحال سے دو چار ہے۔


سملی ڈیم کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کوئی کمرشل منصوبہ نہیں، یہ اپنا خرچہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کے عوض پورا کر لیتا ہے۔سملی کی جھیل میں چلانے کے لیے دو کشتیاں بھی موجود ہیں ۔
اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ سملی ڈیم بعض سیاست دانوں کا میزبان بھی رہا ہے جھیل کنارے بنے ہوئے عالی شان ریسٹ ہاوس میںکئی سیاست دان اپنے ایام اسیری بسر کر چکے ہیںاُن میں آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر ممتاز راٹھور بھی شامل ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود بھی دوبارہ اس ریسٹ ہاوس کی میزبانی کا لطف اٹھا چکی ہیں۔ اس ریسٹ ہاو¿س کے بارے میں بعض دیگر کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں سملی ڈیم کی تعمیر میں ایم سی پی سابق میکنائزڈ کنسٹرکشن آف پاکستان عکاظ اور مصطفی کمپنی نے مشترکہ طور پر حصہ لیا۔


ذوالفقار ارشد گیلانی، اعزاز حسین شاہ ،شمیم انوار خان
اشاعت خاص ایڈیشن روزنامہ ”خبریں“ لاہور
5جولائی 1999ئ
 

متعلقہ خبریں