نواز لیگ کی کمال کامیابی۔۔۔ عاصمہ کا نوحہ

آج کا بیانہ اور اعلانیہ مسلم لیگ (ن) کی لودھراں میں زبردست کامیابی ہے۔ یہ تحریک انصاف کی مسلم لیگ (ن) سے چھینی ہوئی سیٹ تھی۔ ’’دھاندلی فوبیا‘‘ تحریک انصاف نے شکست تسلیم کر لی، یہ بڑی بات ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے جشنِ فتح کا موقع ہے۔ اظہارِ فتح میں بھی وقار اور اللہ کے حضور شکر گزاری کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں کامیابی کو اپنا کمال اور مدِ مقابل کی شکست کو آسمانی وبال قرار دیا جاتا ہے۔ مریم نواز نے کہا سازشیں ناکام فیصلے اللہ کے چلتے ہیں۔ نواز لیگ کیا کوئی بھی پارٹی اور طاقت اللہ کے فیصلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وزیر اطلاعات نے طعنہ دیا عمران رونے کیلئے کنٹینر لگانے کی تیاری کریں۔ جب کنٹینر لگا تھا لیگیوں کے سانس خشک ہو رہے تھے۔ عمران کا کنٹینر جہاں عوام کیلئے وبالِ جان تھا وہیں ایک ریلیف کا سبب بھی بنا رہا۔ جب تک کنٹینر لگا رہا حکومت میں احتجاج کے خوف سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی جرأت نہیں تھی۔ اب عمران خان پیٹرولیم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر بھی خاموش رہتے ہیں تو حکومت اگلے ماہ شیر بن کر مزید اضافہ کر دیتی ہے۔
لودھراں کے الیکشن میں کامیابی کو مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامی حلقوں نے 2018ء کے انتخابات میں یقینی کامیابی اور سویپ کی دلیل اور نوید قرار دیا ہے۔اگر صرف اسی ایک حلقے میں ہی اگلے الیکشن ہونے ہیں تو ایسا ممکن ہے۔ مگرالیکشن پورے ملک میں ہونگے ہیں۔ یقیناً مسلم لیگ (ن) کی قیادت اوراسکے مراعات یافتہ اور خیرات یافتہ طبقات کو لودھراں میں کامیابی کے جشن کے بخار سے آرام کے بعد حقائق کا جائزہ لینے کا موقع ملے گا۔ عام انتخابات میں نگران حکومت ہو گی، کسی امیدوار کو کھل کر حکومت اور اداروں کی سپورٹ حاصل نہیں ہو گی۔ پیپلز پارٹی کا تو پتہ کٹ گیا، جنوبی پنجاب میں اسے اپنی پذیرائی کا زعم تھا، لودھراں میں بلاول نے بڑا جلسہ کیا مگر ووٹ صرف تین ہزار ملے جبکہ تحریک لبیک کے غیر معروف امیدوار ملک اظہر نے دس ہزار ووٹ حاصل کئے۔ یہ امیدوار نہ ہوتا تو مسلم لیگ (ن) کی فتح کا مارجن 37 ہزار ہوتا۔ اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ نقصان تحریک لبیک پہنچا سکتی ہے۔ تحریک لبیک کے ایک حصے کوحکومت نے قابو کر لیا۔ خادم رضوی لیگی دام الفت میں آتے دکھائی نہیں دیتے۔
عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر پاکستان اور بھارت میں یکساں سوگ منایا گیا۔ عالمی شہرت کی حامل پاکستان کی بہت بڑی وکیل کی زندگی محبتوں اور نفرتوں سے عبارت تھی۔ ان کی موت کی خبر جہاں جہاں پہنچی وہاں سناٹا چھا گیا، سکوت ،سکتے اور سنسنی کی کیفیت نظر آئی۔ ہم آفس میں تھے، ٹی وی پر سٹکر چلا تو غلام نبی بھٹ حیرت زدہ ا ور حفیظ قریشی صاحب تو مبہوت رہ گئے۔میں کبھی محترمہ کے خیالات اور بیانیے سے متفق نہیں رہا، میرے لئے بھی اس بڑی شخصیت کے انتقال کی خبر شاکنگ تھی۔ ان کا اپنا ایک مائنڈ سیٹ تھا۔ ان کے ہم خیالوں کی کمی نہیں، مخالف نکتہ نظر کے لوگ بھی ہیں۔ میمو گیٹ میں محترمہ نے وکالت کی جس میں حسین حقانی 4 دن کے نوٹس پر واپس آنے کا وعدہ کر کے گئے، اب عدلیہ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے فوج سے متعلقہ کیسز لڑ کر بھی شہرت پائی۔ وکیل کی اپنی اہلیت قابلیت مہارت ا ور شخصیت ہوتی ہے۔ لوگ اس بنا پر اسکی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ عاصمہ ان تمام اوصاف سے متصف تھیں۔ وہ بلا جھجک اور دوٹوک بات کرنیکی عادی تھیں۔ عدلیہ کے بارے میں بھی کھل کر بات کرتیں، کچھ لوگوں کے ان کو وکیل کرتے وقت یہ بھی مدِنظرہوتا کہ کیس جیت گئے تو فَبِھاہارنے کی صورت میں ججوں کو تو جوابدہ بنائیں گی ہی۔
فاروق عادل نے نوائے وقت میں اپنے کالم میں لکھا ’’یہ خاتون یوں بھی بڑی دل والی تھی جس معاملے میں زبان کھولتے ہوئے لوگوں کا پتہ پانی ہوتا، وہ بلا سوچے سمجھے اسی اوکھلی میں اپنا سر دیتیں۔ان دنوںپاک بھارت کشیدگی اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ بیساکھی کے دن آگئے، عاصمہ نے پیلے پھولوں والی قمیص پہنی اور واہگہ کی سرحد عبور کر کے اٹاری پہنچ گئیں۔بھارت کی سرزمین پر خوش نما پگڑی والے سکھوں نے ان کا پْر جوش استقبال کیا،یہ آئو بھگت انھیں خوش آئی اور عاصمہ نے استقبال کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر لڈی ڈال کر پاکستان میں اپنے دشمنوں کو زبان دے دی۔اپنے اس عمل سے وہ اُس فرقے کی سرخیل دکھائی دیتی تھیں جو گریٹر پنجاب کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنے وطن کی حرمت اور مفادات کو بھلا بیٹھے ہوں اور یہ قرین قیاس بھی تھا کہ وہ بہائو کے مخالف سمت پیراکی کی شہرت رکھتی تھیں۔پاک بھارت معاملات کی طرح عاصمہ تہذیبی اور معاشرتی معاملات میں بھی کسی کی آنکھ کا تارہ تھیں اور کسی کی آنکھ میں خار کی طرح کھٹکتی تھیں۔اس شعبے میں انکی خدمات کا دائرہ ویسے تو کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن ان کی شہرت لاہور کے معروف مذہبی خاندان کی ایک جواں سال لڑکی کے طرز عمل سے ہوا جس نے اپنی منہ زور محبت کے زیر اثر اپنے والدین کا گھر چھوڑا اور عاصمہ جہانگیر کے آنگن میں پناہ لی پھر یہ واقعہ صرف لاہور ہی نہیں پاکستان کی سرحدیں بھی عبورکر کے بین الاقوامی شہرت حاصل کرگیا۔ پھر ایک بیٹی ہی کیا، پاکستان کے طول و عرض میں اپنے خاندان کی روائتی ’’غیرت‘‘ سے بغاوت کرنے والی کتنی ہی نوجوان لڑکیاں تھیں جنھوں نے عاصمہ جہانگیر کا سہارا لے کربغاوت کا علم بلند کیا۔عاصمہ جہانگیر کے اس جرأت مندانہ طرز عمل نے جہاں اس ملک میں صدیوں پرانی روایات کی چولیں ہلا دیں بلکہ اہلِ محراب و منبر کے ذہنوں میں یہ احساس بھی پیدا کیا کہ یہ خاتون اس دیس کی طے شدہ اقدار کا جنازہ اٹھانے خاص طور پر اہل دین کی عزت کو نیلا م کرنے پر تلی بیٹھی ہیں‘‘۔عاصمہ جہانگیر لبرل تھیں،انہوں نے خود ایک غیرمسلم سے شادی کی اور اپنی بیٹی ایک مسیحی سے بیاہی‘‘
عاصمہ جہانگیر اپنے پروفیشن سے کمٹڈ رہیں۔ حتیٰ کہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ اپنے پروفیشن کے حوالے سے بات کررہی تھیں۔جبکہ دوسری طرف ’’ پلاننگ ‘‘ ہو رہی تھی۔ ان کی آخری فون کال نے بہت کچھ ایکسپوز کردیا۔ ایک رپورٹ کیمطابق عاصمہ جہانگیر نے مسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں محمد نواز شریف اور ایڈووکیٹ اعظم تارڑ کے ساتھ اپنی آخری فون کال کے دوران وزیر مملکت طلال چودھری کی وکالت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔مرحومہ عاصمہ جہانگیر اعظم تارڑ کے ساتھ بات کر رہی تھیں۔ نواز شریف نے اسی فون کال کے دوران مرحومہ سے بات کی تھی جس کے دوران انہیں دل کا جان لیوا دورہ پڑا۔ مسلم لیگ (ن) طلال چوہدری کا کیس لڑنے کیلئے عاصمہ جہانگیر کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، طلال چوہدری سے سپریم کورٹ نے 5 فروری کو کہا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر توہین عدالت کیس میں وکیل کر لیں۔اس ضمن میں عاصمہ جہانگیر سے درخواست کی گئی تھی جس پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس پر غور کریں گی۔ ایڈووکیٹ تارڑ نے عاصمہ جہانگیر کو آمادہ کیا تھا کہ وہ یہ کیس لڑیں کیونکہ اس سے ملک میں اظہار کی آزادی کی اہم مثال قائم ہوگی۔ نواز شریف اپنے ماہرین قانون کی ٹیم کے ساتھ جاتی امرا میں اجلاس میں مصروف تھے۔ اس موقع پرنواز شریف نے تارڑ سے کہا کہ وہ طلال چوہدری اور خواجہ سعد رفیق کی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اتوار کی شام چار اور پانچ بجے کے درمیان ملاقات کا انتظام کریں۔رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ اعظم تارڑ نے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی۔
طلال چوہدری نے ججوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی اسے اظہار کی آزادی کی مثال قائم کرنے کے لئے ٹاپ کلاس وکیل کی خدمات حاصل کر کے جو آزادی مطلوب تھی اور ہے وہ کتنی خوفناک ہو سکتی ہے! ۔ پھر سابق اور عوامی عدالت کے زور پر وزیراعظم بننے کیلئے سرگرداں میاں نواز شریف خود ایسی آزادی کیلئے وکیل کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف کیااسے بچانے کے لئے اس لئے وکیل کا بندوبست کر رہے تھے کہ ایسے لوگوں کو خود آگے کیا تھا؟۔
ایک ماہر قانون کہہ رہے تھے کہ عام انتخابات میں اگر عوام مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیتے ہیں تو میاں نواز کی نااہلیت کے فیصلے کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔کیاقانونی فیصلے عوام کے ووٹ سے بدل سکتے ہیں؟؟ میاں نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں نااہل جج ان کو نااہل نہیں کرسکتے،یہ سکھا شاہی نہیں چلے گی۔انہیں اس کا جواب دینا پڑ سکتا ہے۔میاں صاحب عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں جسے قانون کی حکمرانی کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیتے ہیں۔میاں صاحب کے صاحبزادے انہی عدالتوں کے سامنے پیش نہیں ہورہے۔ان کی دیکھا دیکھی اٹارنی جنرل تک عدالت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہورہے ہیں،جس پر اشتر اوصاف پر بیس ہزار جرمانہ کر دیا گیا ہے۔بڑے لوگ ہی عدلیہ کے بارے ایسے رویوں کا اظہار کرینگے تو ملک میں انارکی کیسے نہیں پھیلے گی!