امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ الکریم

لاہور(علامہ منیر احمد یوسفی): امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔آپ کے والد ِگرامی حضرت ابوطالب نے آپ کا نام علی ؓرکھا۔آپ کا نام علیؓ بھی ہے اور حیدر بھی۔ حیدر کے معنی ہیں شیر۔ آپ کی والدہ نے اپنے والد کے نام پر کرار رکھا۔ کرار کے معنی ہیںپلٹ پلٹ کر حملہ کرنے والا۔کرار آپ کا لقب ہے۔رسول اللہؐ نے آپ کو اسداللہ کا خطاب عطا فرمایا۔آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسنؓ ہے۔امیر المؤمنین حضرت علی ؓرسولِ کریم ؐ کے سگے چچا کے بیٹے ہیں۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت فاطمہ ؐہے‘ اسد بن ہاشم کی بیٹی ہیں۔آپ کی والدہ محترمہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں‘ جنہوں نے اِسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔
(ازالۃ الخفاء جلد ۴ ص۴۰۶ مترجم)
آپ قدیم الاسلام ہیں یعنی اِسلام لانے والے پہلے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اِسلام لائے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ‘ حضرت انسؓ‘ حضرت زید بن ارقمؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ اور کئی صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت متفق ہے کہ سب سے پہلے امیر المؤمنین علی کرم اللہ وجہہ الکریم اِیمان لائے۔
(تاریخ الخلفاء ص۲۶)
حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں: اُمّ المؤمنین سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓکے بعد آپ اِسلام لائے۔
(ایضاً)
اَوّل اِسلام لانے والوں کی ترتیب بایں انداز کی جاسکتی ہے۔خواتین میں سب سے پہلے امُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ، بڑوں میں سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ بچوںمیں سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم، غلاموں میں حضرت زیدؓ اور حضرت زید ؓ کی زوجہ حضرت اُمّ ایمنؓ۔ حضرت حسن بن زید بن حسنؓ سے روایت ہے: ’’آپ نے صغر سنی میں بھی کبھی بت پرستی نہیں کی‘‘۔
(تاریخ الخلفاء ص۱۳۲)
حضرت ابوسعید خدری ؓفرماتے ہیں‘ ’’ہم منافقین کو اس طرح پہچانتے تھے کہ وہ (امیر المؤمنین علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے بغض یعنی عداوت رکھتے ہیں‘‘۔
(ترمذی جلد۲ ص۲۱۳)
اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمِّ سلمہؓ سے روایت ہے ‘ فرماتی ہیں‘ رسول اللہ ؐ فرماتے تھے ’’کوئی منافق علی ؓ کو دوست نہیں رکھتا اور کوئی مومن علیؓ سے دشمنی نہیں رکھتا‘‘۔ (ترمذی جلد۲ ص۲۱۳) اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمِّ سلمہؓ ہی سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے علیؓکو برُا کہا اُس نے مجھے برا کہا‘‘۔
(مشکوٰۃ حدیث نمبر ۶۱۰۱‘ مسند احمد جلد ۶ص۳۲۳‘ مرقاۃ جلد ۱۱ص ۲۵۶)
حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ’’ہم منافقین کو نہیں پہچانتے تھے مگر اللہ اور اُس کے رسولِ ؐ کی تکذیب سے اور نماز میں پیچھے رہ جانے سے اور امیر المؤمنین علی بن ابو طالبؓسے بغض سے‘‘۔
(ازالۃ الخفاء جلد۴ ص۴۵۱)
حضرت برّاؓء بن عازب صاور حضرت زید بن ارقم ؓ‘ فرماتے ہیں‘ جب حضور پاک غدیر خم (خم کے تالاب) پر اُترے۔
(غدیر بمعنی تالاب‘ خم ایک جگہ ہے حجفہ منزل سے تین میل دُور۔یہ واقعہ حجتہ الوداع سے واپسی پر ہوا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنوں سے اُن کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں؟سب نے عرض کیا جی ہاں! پھر فرمایا: ’’اے اللہ جس جس کا میں مولا ہوں اُس اس کے علیؓ مولا ہیں۔اے اللہ جو اِس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر اور جو اِ س سے دشمنی کرے تو اُس کا دشمن رہ‘‘۔ اِس کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ فرمایا‘ یاحضرت علیؓ ،اے حضرت ابوطالب کے بیٹے! آپ کو مبارک ہو‘ آپ ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کے مولیٰ ہو۔
(ترمذی جلد۲ ص۲۱۲‘ مسند احمد جلد۱ ص۱۱۸۔۸۴‘ ابن ماجہ ص۱۲ ‘ مستدرک حاکم جلد۳ ص۱۱۰‘ مجمع الزوائد جلد۷ ص۱۷‘ مشکوٰۃ ص۵۶۴)
مدینہ منورہ میں مواخات کے سلسلہ میں رسولِ کریم ؓ نے اُنہیں دُنیا و آخرت میں اپنا بھائی بنا لیا۔ مگر آپ ص نے کبھی بھی نہ فرمایا کہ رسولِ کریم ؐمیرے بڑے بھائی ہیں۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓسے‘ رسولِ کریم ؓنے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا: ’’تم مجھ سے اِس درجہ میں ہو جو حضرت سیّدنا ہارونؑ کو حضرت موسیٰ سے تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔
(مسلم جلد۱ ص۲۸۷‘ مشکوٰۃ ص۵۶۳‘ ابن ماجہ ص۱۲‘ مسند احمد جلد۱ ص۱۷۹‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص۱۰۹‘ قرطبی جلد۱ جز۱ ص۲۶۶)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ‘ فرماتے ہیں‘ کہ جب یہ آیت ِ مبارک نازل ہوئی … فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ ، تو رسولِ کریمؐنے حضرت علیؓ ‘ ،حضرت فاطمۃ الزہرؓ ا،اِمام حسن اور اِمام حسین ؓ کو بلایا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا‘ ’’اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں‘‘۔
(مشکوٰۃ ص۵۶۸‘ مسلم جلد۱ ص۲۷۸)
اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں‘ ایک صبح رسولِ کریم ؐ باہر تشریف لے گئے۔آپ ؐ کالی یمانی چادر اَوڑھے ہوئے تھے۔اِتنے میں اِمام حسن بن علیؓ آئے تو آپ ؐنے اُنہیں اَپنی چادر مبارک میں داخل کر لیا‘ پھر اِمام حسینؓ آئے‘ اُنہیں بھی داخل فرما لیا‘ پھر جناب فاطمۃ الزہرا ؓآئیں ‘اُنہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا‘ پھر حضرت علی ؓ آئے تو اُنہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا‘ پھر فرمایا: ’’اے نبی ؐ کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرمائے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا فرما دے‘‘۔
(الاحزاب:۳۳)(مشکوٰۃ ص۵۶۸‘۱ مسند احمد جلد۶ ص۲۹۲)
حضرت سہل بن سعدؓ‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ؐنے خیبر کے دن یعنی غزوئہ خیبر کے موقع پر فرمایا کہ کل میں یہ جھنڈااُس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسولؐ اُس سے محبت کرتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا : علی بن ابی طالبؓ کہاں ہیں؟ وہ تشریف لائے۔حضور نبی کریم ؐنے اُنہیں جھنڈا عطا فرمایا ۔
(بخاری جلد۱ ص۵۲۵‘ مسلم جلد۱ ص۲۷۹)
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ ‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’میں علم کا شہر ہوں اورعلیؓ اُس کا دروازہ ہیں اور جو شہر میں جانے کا اِرادہ کرے تو اُس کو دروازے پر آنا چاہئے‘‘۔
(مستدرک حاکم جلد۳ ص۱۲۶‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص۱۱۴)
’’اے علی ص مومن دین کے نور سے دیکھتا ہے ۔میں نے کہا‘ اے امیر المؤمنین ص آپ نے سچ کہا۔ میں نے اَیسا ہی دیکھا تھا اور اَیسا ہی طعام اور اُس کی لذّت میں نے آپ کے ہاتھ سے پائی جیسی کہ میں نے رسول اللہؐ کے ہاتھ سے پائی تھی‘‘۔
(ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ‘مترجم جلد۴ ص۴۹۵)