مینار پاکستان ،لاہور

2018 ,جنوری 30



23مارچ 1940ءکو لاہور کے منٹو پارک ( اقبال پارک) میں مسلم لیگ کا وہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا جس میں وہ قرار داد پیش کی گئی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام پر زور دیا گیا تھا اور پھر چند برس بعد ہی ”پاکستان کا نقشہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔“
وہ مقام جہاں قائد اعظم کی صدارت میں یہ اجلاس ہوا وہاں اب بہت خوبصورت مینار اس قرار داد لاہور کی یاد تازہ کر رہا ہے مینار پاکستان کی تعمیر کے سلسلے میں سابق صدر ایوب خان نے بیس مارچ 1959ءکو پاکستان ڈے میموریل کمیٹی تشکیل دی جس میں بہت سی اہم شخصیات شامل تھیں مینار کی حیثیت اول 23مارچ 1960ء25رمضان المبارک 1379ءہجری بروز بدھ گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے رکھی۔ اس موقع پر کمشنر لاہور ڈویژن شیخ اکرام الحق نے استقبالیہ دیا۔


مینار کے ڈیزائن کی تیاری روس کے ترک نژاد ماہر تعمیرات جناب نصیر الدین مرادنے کی انہوں نے تین نقشے بنائے تاہم ان پر اخراجات کا اندازہ زیادہ ہونے کی بنا ءپر دو ڈیزائن مسترد کر دیئے گئے تاہم موجودہ ڈیزائن 2نومبر 1962ءکو منظور کر لیا گیا۔ یاد گار، قرار داد پاکستان کی تعمیر کا ٹھیکہ 9مئی 1963ءکو تحریک پاکستان کے کارکن اور مسلم لیگی راہنما میاں عبد الخالق کو دیا گیا تقریباً 75لاکھ روپے کی لاگت سے مینا ر پانچ سال کی مدت میں مکمل ہوا اس مقصد کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم کی فراہمی تھا کیونکہ حکومت کے پاس بھی فنڈ مخصوص تھا لہٰذا نومبر 1962ءمیں سنیما کے ٹکٹوں پر دس پیسے اور گھڑ دور کے ٹکٹوں پر پچاس پیسے ٹیکس لگا کر رقم جمع کی گئی تاہم جناب مراد خان نے ڈیزائن اور تعمیری کام کی نگرانی کی مقررہ فیس دو لاکھ باون ہزار روپے نہ لی اور کام کی نگرانی بھی مفت کرتے رہے۔


مینار پاکستان کی بلندی ایک سو چھیانوے فٹ ہے ایک سو اسی فٹ تک اسے لوہے اور کنکرکیٹ سے بنایا گیا ہے باقی حصہ سٹین لیس سٹیل وغیرہ سے مل کر بنا ہے اس کے سرے پر بھی سٹیل ہی کا برج ہے اس کے تمام لوہے پر موسم قطعی اثر نہیں کرتا مینار پاکستان کی پانچ گیلریاں اور کوئی 20منزلیں ہیں۔اس کی پوری سیڑھیاں تقریباً 330ہیں مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سازو سامان سے بھی عمارت کا پس منظر عیاں ہوتا ہے مینار کے نچلے حصے میں چبوترہ ہے اسے کھردرے پتھروں سے بنایا گیا ہے جو اس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان کس طرح کسمپرسی اور بے سرو سامانی کی حالت میںبنا دوسرے چبوترے پر نرم اور ملائم پتھر ہیں اس طرح جوںجوں اوپر جائیںپتھر کی ملائمیت بڑھتی جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان بتدریج خوشحالی، ترقی اور سر بلندی کی طرف گامزن ہے جبکہ اس کے آخری سرے پر چمکتا اسٹیل کا گنبد ہے جو سورج کی روشنی سے چمکتا ہے گویا پاکستان عالم اسلام اور بین الاقوامی برادری میں خوب جگمگا رہا ہے بقول جناب مراد خان نے ڈیزائن تیار کرنے سے پیشتر قیام پاکستان کے مطالبہ کے پس منظر اس مطالبہ کے بتدریج ارتقاءاور کامیابی اور بعد ازاں پاکستان کی مسلسل ترقی کا بغور مطالعہ کیا یہ تمام خصوصیات اور پہلو ڈیزائن میں موجود ہیں۔ یہ 57ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔


مینار پاکستان کے نچلے حصے میں جدوجہد آزادی کی پوری تاریخ پر روشنی ڈالنے کے لیے مختلف تحریریں رقم کی گئی ہیں اس کے لیے اس حصے میں سات سات فٹ لمبی اور دو دو فٹ چوڑی سنگ مر مر کی سلیں نصب ہیںان پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسمائے مبارک اور قرار داد پاکستان کی پوری عبارت اردو،انگریزی اور بنگلہ زبانوں میں درج ہیں ایک سل پر علامہ اقبال کی نظم او ر قائد اعظم کی تقریروں کے اقتسابات کندہ ہیں اس کے علاوہ سورئہ بقرہ سورئہ آل عمران سورئہ مائدہ اور سورہ الرعد بھی یہاں مقدس اور روح پرور ماحول پید ا کرتی ہیں۔
مینار کے صدر دروازے پر بھی آیات قرآنی درج ہیںاوپر دلکش نقش ونگار بھی عجیب بہاردکھاتے ہیںیہ خطاطی کے فن پارے معروف خطاطوں جن میں حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم رقم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال شامل ہیں نے بنائے دوسرے چبوترے پر چاند کی شکل کا حوض ہے جو ملک کے دو حصوں مشرقی اور مغربی پاکستان کے ترجمان ہیں۔ صدافسوس کہ مشرقی پاکستان ہم سے کٹ کر الگ وطن یعنی بنگلہ دیش کی شکل اختیار کر چکا ہے اس سے اوپر والے چبوترے پر پانچ کونوں والا ستارہ ہے۔اس کے وسط میں ہی کنول کے پھول جیسا مینار ہے پہلے پہل مینار کی تمام دیکھ بھال میموریل کمیٹی ہی انجام دیتی تھی جون 1982ءکو اسے لاہور ڈویلمپنٹ اتھارٹی ( ایل ڈی اے) نے اپنی تحویل میں لے لیا پھر اس کے گرد زمینی قطعات کو بہتر پارکوں اور باغوں کی صورت دینے کے ساتھ ساتھ صفائی کا بھی موثر انتظام ہوا اس ادارے نے مختلف مراحل میں اس کی ترقی کے کام نمٹائے بوڑھے راوی کی جگہ 2000فٹ لمبی اور 190فٹ چوڑی جھیل بنائی گئی۔ داتا نگر پل کی جانب سے داخلے کے گیٹ بنائے اور جھیل میں گھومنے والا ٹی سٹال بنایا۔


مینار پاکستان کی تعمیر کو استعاراقی زبان دی گئی ہے تعمیراتی سامان کو اس انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ بذات خود جدوجہد آزادی کی داستان سنانا ہے مینار کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردر ے پتھروں سے کی گئی ہے جو اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کس بے سرور سامانی کے عالم میں کھٹن مراحل سے گذر کر بنا تھا اس سے اگلے چبوترے پر ملائمت بڑھ جاتی ہے جوںجوں مینار اوپر چڑھتا ہے ملائم پتھروں کا استعمال بھی زیادہ کیا گیا ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی کی راہوں پر رواں دواں ہے اس کے آخری سرے پر چمکنے والا گنبد اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان اقوام عالم اور اسلامی دنیا میں نمایاں مقام کا حامل ملک ہے۔


مینار پاکستان کے دوسرے چبوترے پر چاند کی شکل کا حوض ہے اس کے دونوں کونے آپس میں ملے ہوئے ہیں جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے اتحاد کی علامت تھے اس پر پانچ کونوں والا تارا ملک کے پانچ صوبوں کا نمائندہ ہے۔
مینار پاکستان کے سائے میں موجود چھوٹی سی جھیل دراصل راوی کی پرانی گذر گاہ کی باقیات میں سے ہے اسے کبھی بڈھا راوی کہا جاتا تھا بڈھا راوی اب ایک جھیل کی صورت میں اس کے ماضی کی یاد دلاتا ہے یہاں پر ایک گھومنے والا ریسٹورنٹ بھی تعمیر کیا گیا۔ایل ڈی اے نے مینار پاکستان کو اپنی تحویل میں لیا تو اس نے پچاس لاکھ روپے کی لاگت سے اسے جھیل میں بدل دیا تھا بڈھے راوی یا جھیل کا رقبہ نو ایکڑ کے لگ بھگ ہے اس کی لمبائی 2000فٹ اور چوڑائی 190فٹ ہے اسے باقاعدہ جھیل کی شکل دینے کے لیے پرانے دریا میں وسعت کی گئی تھی۔ اس کا کورڈ ایریا 480 x 60پر مشتمل ہے


مینار پاکستان کی تعمیر کے ابتدائی دنوں میں اسے یادگار پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا البتہ اہل دانش اور پڑھے لکھے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا اور یہ دلیل پیش کی کہ یادگار تو اس چیز کی ہوتی ہے جو ختم ہو جائے مگر الحمد للہ پاکستان ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے لہٰذا اسے یادگار قرار داد پاکستان“ کہا جانے لگا جو چند سال بعد ہی تبدیل کرکے ”مینار پاکستان“ ہوگیا اسے اب مینار پاکستان ہی کہا جاتا ہے جو پاکستان کے قیام کی قومی علامت بن چکا ہے یہاں داخلے کے لیے کوئی ٹکٹ نہیںہے کیونکہ یہ ہر پاکستانی کا سرمایہ ہے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دورہ¿ پاکستان کے دوران مینار پاکستان پر حاضری دے کر دو قومی نظریئے پر اپنے یقین کی مہر ثبت کر دی تھی مینار کے متعلق ممتاز دانشور مختار مسعود، آواز دوست میں لکھتے ہیں ہمیں یہ طے کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ قرار داد پاکستان کو علامت اور عمارت کے طور پر کیا صورت دی جائے باغ، جھیل، فوارے، مسجد، کتب خانہ، عجائب گھر، ہال، ہسپتال، دروازہ، درسگاہ یا مینا ر فہرست کچھ اس قسم کی بنی تھی مگر بحث و تمحیص کے بعدکامیابی کا سہرہ مینار کی صورت سجا۔ برصغیر میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا وہ مینار قرار داد پاکستان ہے۔
اقبال پارک میں کسی یادگار کے قیام کی تجویز لاہور کارپوریشن کے ایک سابق ایڈمنسٹریٹر ملک عبد اللطیف خان نے پیش کی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد عوامی حلقوں نے یہ مطالبہ کیا کہ قرار داد کی یاد کو قائم رکھنے کے لیے منٹو پارک کی جلسہ گاہ میں کوئی یادگار عمارت تعمیر کی جائے اس کے متعلق بہت بحث و تحقیق بھی ہوئی کہ عمارت کی نوعیت کیا ہو ؟ یہ کوئی لائبریری ہو، عبادت گاہ یا مینار وغیرہ ۔آخر مینار کی تعمیر پر اتفاق ہوا کیونکہ مینار کو فتح اور کامیابی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔
مینار پاکستان کو ملک کے اتحاد و اتفاق کی علامت قرار ددیا جاتا ہے یہ قوم کے سرمائے سے ہی تعمیر ہوا تھا اور قومی ملکیت ہی قرار دیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں