2018 ,جنوری 23
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میںواقع تاریخی و تفریحی مقامات میں لاہور چڑیا گھر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ لاہور کے چڑیا گھر کی 125سالہ تاریخ پر نگاہ ڈورائی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس چڑیا گھر کو دیکھنے کے لیے نہ صرف پاکستان بھر کے سیاح ہر سال دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں کھینچی چلی آتی ہے جس کا اندازہ اس ادارے کی وزٹیرز بک اور ٹکٹ کی فروخت سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل لاہور کا چڑیا گھر ہندوستان کے مشہور چڑیا گھروں میں سے ایک تھا لاہور چڑیا گھر اس وقت کے گورنر پنجاب سر رابرٹ ڈیوس کے دور میں 1872ءمیں سے پہلے قائم کیا گیا یہ مختصر سا چڑیا گھر دراصل لارنس گارڈن ( باغ جناح) کے ایک گوشے میں 24ایکڑ کے رقبہ پر قائم کیا گیا تھا پہلے پہل یہاں چھوٹے چھوٹے جانور اور پرندے رکھے گئے۔ 24ایکڑ رقبے پر محیط اس چڑیا گھر کو ”میاں میر نہر“ سے پانی مہیا کیا جاتا تھا اس کا انتظام لاہور میونسپل کمیٹی کے سپرد تھا اور ڈپٹی کمشنر بھی اس کا چیئرمین ہوتا تھا اس زمانے کے راجے مہاراجے روساءاور انگریز حکام چڑیا گھر سے دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ وہ جانوروں اور پرندوں کے عطیات دینے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے عمارتیں اور پنجرے بھی بنوا کر دیتے اس طرح ایک ہشت پہلو پنجرہ جو چڑیا گھر میں 1872ءمیں لالہ میلا رام نام کے ایک شخص نے بنوا کر میونسپل کمیٹی کے سپرد کیا تھا اب تک اس کا کتبہ موجود ہے یہ قیمتی اثاثہ موجودہ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے مین گیٹ پر سنگ مر مر کے دو خوبصورت ستونوں پر آویزاں کر دیا ہے تاکہ چڑیا گھر کی تاریخی حیثیت ہمیشہ قائم رہے۔
کچھ عرصہ لاہور چڑیا گھر میں میونسپل کمیٹی لاہور کے ماتحت رہا بعد ازاں اس کے انتظامی امور کے زیر اتنظام چل رہا ہے۔ لائیو سٹاک پنجاب کے 1982ءلاہور چڑیا گھر محکمہ وائلڈ لائف 3کروڑ کے فنڈز سے 1985ءسے 1988ءتک لاہور چڑیا گھر کے جزوی حصوں کی نئے سرے سے تعمیر و مرمت کی گئی۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لاہور چڑیا گھر کی اراضی کی موجودہ سرکاری قیمت 3راب 37کروڑ روپے لگائی ہے جبکہ پرائیویٹ طور پر اس کی قیمت اس سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ لاہور چڑیا گھر کے پہلے باقاعدہ کیورٹیر لیفٹیننٹ کرنل (ر) اے پی کریک لوی تھے جو 15مارچ ء1941ءسے 23فروری 1950ءتک اس عہدے پر فرائض سرانجام دیتے رہے وہ دوبارہ یکم جنوری 1952ءسے 16اگست 1962ءتک اس عہدے پر برا جمان ہے اس طرح اے پی کریک لوی نے لاہور چڑیا گھر میں سب سے زیادہ عرصہ بطور سربراہ کام کیا۔ان کے علاوہ 9مزید کیورٹرز نے 18دسمبر 1974ءتک چڑیا گھر میں خدمت انجام دیں یکم ستمبر 1976کو پہلے بطور ڈائریکٹر لاہور چڑیا گھر سعید اصغر نے اپنے عہدے کا چارج لیا تو کیورٹر کا عہدہ ختم کر دیا ان کے بعد 8مزید ڈائریکٹر آئے۔
ایک بلاک جون 1923ءمیںکرنل سر عمر حیات ٹوانہ نے بنوا کر دیا اس کے علاوہ سر ہربرٹ ایمرسن جو کہ پنجاب کا گورنر تھا اس کے بیٹے نے نوشہرہ سے ایک ریچھ تحفے میں بھیجا۔ دو ریچھ والئی سوات نے عطیہ دیئے۔ نواب بہاولپور نے بھی 1952ءمیں ایک نادر طوطاً تحفتاً دیا اس کے علاوہ یوگنڈا کے سابق صدر عدی امین نے شیر بطور تحفہ دیئے۔ 1999ءمیںعریبین اوریکس متحدہ عرب امارت سے تحفہ میں آئے علاوہ ازیں مختلف پرندے اور چھوٹے جانور کو اکثر شکاری حضرات اور جانوروں کے شائقین بھی چڑیا گھر کو پیش کرتے رہتے ہیں۔
چڑیا گھر کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ بیرم گلا رنسی کی گورنری کے دور میں 1942کو مکمل ہوا اور چڑیا گھر کی توسیع کے علاوہ عمارات کی بھی تعمیر ہوئی اور اس کے گرد خار دار تار لگا کر حدود متعین کر دی گئی دوسری عالمی جنگ کے بعد لاہور چڑیا گھر کے لیے سرکاری گرانٹ بند کر دی گئی او ر یہاں داخلے پر ٹکٹ لگا دیا گیا پاکستان کے قیام کے بعد اس پر مزید توجہ دی گئی۔
لکھی رانی نامی ہتھنی سابق مشرقی پاکستان سے لائی گئی تھی جنوری 1987ءمیں ”لکھی رانی“ کی موت کے بعد چڑیا گھر بالکل سونا ہوگیا چنانچہ اس کی رونقوں کو دوبالا کرنے کے لیے 20مئی 1988کو ایک نئی ہتھنی ”سوزی‘ منگوائی گئی۔ افریقن نسل کی اس 5سالہ ہتھنی کا وزن 1000کلوگرام قد 5فٹ تھا یہ صرف انگریزی اور فرانسیسی زبانیں سمجھی تھی۔ سوزی بلجیئم سے تقریباً 23ہزار پانچ سو ڈالر ( -4لاکھ سولہ ہزار روپے ) میںحاصل کی گئی اسے پیار سے ریلے ریلے کہتے تھے۔
سوزی کو پی آئی اے کے چارٹرڈ طیارے پی کے 804کے ذریعے لاہور لایا گیا اس کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے کیونکہ بلیجئم کے میونرو زوالو جیکل پارک نے اس کے صحت کے سرٹیفکیٹ میں اسے دھوپ سے بچانے کے لیے خاص طور پر ہدایت کی ہے چڑیا گھر کے ہاتھی گھر میں اسے پرانے مہاوت تربیت کرتے ہیں بیسیوں کے حساب سے دیگر جانور اور پرندے جن میں دریائی گھوڑا، گینڈا، زبیرا، شتر مرغ، اور لاتعداد جانور مقامی ہیں بندر کی ایک نایاب نسل اسپائیڈر منکی اور ہرن ڈیوڈئیر، ماو¿س ڈیٹر اور خوبصورت پرندہ ان بل بھی یہاں موجود ہیں یہاں چڑیا گھر کی تعمیر نو کا تیسرا دور مکمل ہوچکا ہے اس سلسلے میںیہاں نئے جنگلے لگائے گئے ہیں اس کے بیرونی دروازے اور دیواریں بنائی گئی ہیں۔ شاہراہ قائد اعظم کی طرف مین گیسٹ کے ساتھ مصنوعی جانور بنا کر نصب کیے گئے ہیں چڑیا گھر کے اندر فوارے بنائے گئے ہیں جانوروں کے رہنے کے لیے ان کے ماحول کے مطابق نئی اور بہتر عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اس کے علاوہ پورے چڑیا گھر میں سپیکر لگا دیئے گئے ہیں جن سے صبح کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوتا ہے بعد میں علاقائی لوک گیتوں کی دھن کے علاوہ مختلف اعلانات بھی نشر کیے جاتے ہیں معذور افراد کی سہولت کے لیے وھیل چیئرز بھی چڑیا گھر کی سیر کے لیے مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
لاہور چڑیا گھر میں اس وقت 733پرندے اور جانور موجود ہیںان میں 303چلنے والے 44رینگنے والے جانوروں کے علاوہ 303نایاب پرندے بھی شامل ہیں 34کے قریب گوشت خور جانور ہیں ان پرندوں اور جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے دو ڈاکٹر ز اور 111کے قریب ملازمین کام کر رہے ہیں۔ چڑیا گھر میں ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح تفریح کی غرض سے آتے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہوتی ہے سکول و کالج کی طرف سے گروپ کی صورت میں آنے والے طالب علموں کے لیے چڑیا گھر کی انتظامیہ کی طرف سے 50فی صد تک داخلہ ٹکٹ پر خصوصی رعایت رکھی گئی ہے۔1985 سے 1995-96گیارہ سالوں کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور چڑیا گھر میں ایک کروڑ 96لاکھ 60ہزار 914سیاح تفریح کے لیے آئے ان میں 1کروڑ 44لاکھ 93ہزار 208بڑی عمر کے افراد اور بچوں کی تعداد 51لاکھ 67ہزار 706تھی۔
ان گیارہ سالوں میں لاہور چڑیا گھر کی آمدن 11کروڑ 53لاکھ 35ہزار 650رہی ان میں سے 9کروڑ 22لاکھ 1ہزار 70روپے مختلف مد میں خرچ کیے گئے یہ بات توجہ طلب ہے کہ چڑیا گھر کا شمار ان اداروں میںہوتا ہے جو اپنا نظم و نسق خود چلاتے ہیں اور حاصل شدہ آمدن سے ملازمین کی تنخواہیں، پنیشن، پرندوں و جانوروں کی خوراک، صحت، اور چڑیا گھر کی تعمیر و مرمت وغیرہ کے معاملات چلائے جاتے ہیں لاہور چڑیا گھر کی آمدن کا زیادہ تر دارومدار انٹری ٹکٹوں اور مختلف ٹھیکہ جات پر ہے جن میں کیٹین، پارکنگ، اور بچوں کی کی تفریحی کے لیے لگائے جانے والے کڈی رائیڈ کے ٹھیکے شامل ہیں۔
لاہور کے اس تاریخی چڑیا گھر میں کئی نامور سیاسی، سماجی اور عالمی شہرت کی حامل شخصیات نے سیر کی اور اس کے عمدہ نظم و نسق کی تعریف کی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر کے اندر جدید لیبارٹری، ایجوکیشن سنٹر، آڈٹیوریم کا قیام، پرانے شیر گھر، ریچھ گھر، سانپ، چیتا، اور بند گھروں کی از سر نو مرمت کی جائے گی۔یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ لاہور چڑیا گھر نے اپنی 125سالہ تاریخ میں کروڑوں لوگوں کو تفریح کے مواقع فراہم کیے اور ہر سال لاکھوں لوگوں کے دل بہلا رہا ہے۔
ہر سال دنیا بھر میں جب ڈبلیو ڈبلیو ایف کا عالمی دن منایا جاتا ہے تب لاہور چڑیا گھر میں بھی ایک شاندار تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں سکولوں کے بچوں کو چڑیا گھر کی مفت سیر کروائی جاتی ہے اور اس دن کی اہمیت کے پیش نظر جانوروں اور پرندوں کی بقاءاو ر حفاظت پر ماہرین کی زیر نگرانی سیمینار منعقد کیا جاتا ہے اس موقع پر حاضرین میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پوسٹرز، کیلینڈر اور معلوماتی کتابچے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
لاہور کا چڑیا گھر، برصغیر کے بہترین چڑیا گھروں میں شمار کیا جاتا رہا ہے اسے عوامی تفریح گاہ کی حیثیت حاصل ہے۔ 1872میں لیفٹیننٹ گورنر سررابرٹ ڈیوس کے دور میں یہ چڑیا گھر قائم ہوا اس وقت چڑیا گھر کی صورت آج کے چڑیا گھر سے بہت مختلف تھی یہ تھوڑے رقبے میں قائم ہوا تھا بعد میں ترقی و توسیع ہوتے ہوئے 1942ءمیں یہ اس صورت کو پہنچا جس میں ہم اس کو آج دیکھتے ہیں موجود ہ چڑیا گھر کا رقبہ 24ایکڑ پر مشتمل ہے اس احاطے میں عجیب و غریب جانوروں کا وہ انبوہ کثیر ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر کے مطابق یہاں پر 1381کے قریب 137مختلف اقسام کے جانور موجود ہیں جانوروں اور عمارت کی دیکھ بھال کے لیے تقریباً 2کروڑ روپے سالانہ خرچ کے لیے جاتے ہیں ابتدا ءمیں یہ میونسپلٹی کے تحت کام کرتا تھا اب وائلڈ لائف کے تحت کام کرتا ہے۔چڑیا گھر سے تقریباً 6کروڑ سالانہ منافع آمدنی ہوتی ہے۔