خواجہ ناظم الدین کی بیمار پرسی نہ کرنے پر قائد اعظم نے کیا تاریخی کلمات کہے ۔۔۔؟

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک): خواجہ ناظم الدین قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے‘ ہندوستان کے مشہور لیڈر بھی اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر بھی۔ یہ 1946میں دل کے مریض ہو گئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بیڈ ریسٹ کا حکم دے دیا۔ خواجہ صاحب دہلی کے ایک ہسپتال میں ایڈمٹ ہو گئے۔
قائداعظم بھی اس وقت دہلی میں تھے‘ خواجہ صاحب محمود آباد نے خواجہ ناظم الدین کی بیمارپرسی کیلئے ہسپتال جانے کا پروگرام بنایا‘ وہ ہسپتال جانے سے پہلے قائداعظم کے پاس رکے اور انہوں نے قائداعظم سے پوچھا ”کیا آپ ہسپتال جائیں گے“ قائداعظم نے فوراً جواب دیا ”اگر وقت ملا تو چلا جاؤں گالیکن میرا خیال ہے مجھے وقت نہیں ملے گا“ راجہ صاحب محمود آباد کو اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ قائداعظم ان کی کیفیت بھانپ گئے چنانچہ انہوں نے فرمایا ”اگر میں نے اسی طرح نے اسی طرح علیل لوگوں کی عیادت شروع کر دی تو پھر مجھے اپنا زیادہ تر وقت اس فریضے کی ادائیگی پر صرف کرنا پڑے گا کیونکہ پھر میرا فرض بن جائے گا کہ میں تمام بیمار مسلمانوں کی تیمارداری کروں۔ آپ خود بتائیے پھر میرے پاس ان کاموں کیلئے وقت کہاں بچے گا جن پر ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل کا دارومدار ہے“۔ آپ قائداعظم کے اس جواب سے لیڈروں کے وقت کی اہمیت کا اندازا لگائیے‘ سیاستدان اور لیڈرز کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے۔ قدرت جس شخص سے کم ترین وقت میں عام لوگوں کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ کام لینا چاہتی ہے وہ اس شخص کو لیڈر بنا دیتی ہے چنانچہ لیڈرز کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عزیز ترین دوستوں کی بیمار پرسی تک کو وقت کا ضیاع سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے اکثر لیڈرز پانچ سال‘ پانچ سال کی دہائیاں دیتے رہتے ہیں۔یہ پانچ سال کتنے قیمتی ہوتے ہیں اس کیلئے آپ شیر شاہ سوری کی مثال لے لیں۔ شیر شاہ نے ہندوستان پر صرف پانچ سال حکومت کی تھی۔ ان پانچ برسوں میں اس نے راس کماری سے لے کر درہ خیبر تک ایک ایسی جی ٹی روڈ بنائی جس پر ہر دس میل بعد ایک سرائے تھی۔ اس سرائے میں رہائش‘ کھانے پینے اور جانوروں کے چارے کا بندوبست بھی تھا اور پانی کا کنواں بھی تھا۔ اس نے پانچ برسوں میں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار پورے برصغیر کیلئے ایک کرنسی بھی بنا دی‘ اس نے اس کرنسی کا نام روپیہ رکھا اور اس نے پورے ہندوستان کی زمین کی پیمائش کر کے پٹوار کانظام بھی بنا دیا اور اس کے یہ تینوں سسٹم آج پانچ سو سال گزرنے کے بعد بھی اس خطے میں ورکنگ پوزیشن میں ہیں۔ ایک طرف وہ شیر شاہ سوری تھا‘ ہمارے قائداعظم تھے اور دوسری طرف ہماری آج کی سیاسی قیادت ہے جس کے پاس وقت ضائع کرنے کیلئے بے تحاشا وقت ہے۔



