جب زندگی شروع ہو گی

2018 ,جنوری 30



خیمے سے باہر آکر میرا پہلا سوال یہ تھا:
”میں جمشید کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟“
”تم لیلیٰ کے لیے کچھ نہیں کرسکے تو جمشید کے لیے کیا کرسکو گے۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو بتاوگے کہ اسے کیا کرنا چاہیے؟“
”استغفرا للہ۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا۔“، میں نے فوراًجواب دیا،مگر صالح کی بات پر جمشید کو بچانے کا میرا جوش ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ کچھ دیر توقف کے بعد میں نے دریافت کیا:
”اچھا یہ بتاو¿ کہ میرے بے ہوش ہونے کے بعد حشر کے میدان میں کیا ہوا؟“
”تم جب ہوش میں تھے تمھیں اس وقت بھی پوری طرح معلوم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ اسے پوچھنا ہے تو کسی مجرم سے پوچھو۔ ادھر گروہ در گروہ فرشتے نازل ہورہے تھے اور ادھر مجرموں کی جان پر بن رہی تھی۔ پھر جس وقت سجدے میں جانے کا حکم ہوا تو سارے لوگ سجدے میں تھے اور یہ بدبخت اس وقت بھی خدا کے سامنے سینہ تانے کھڑے تھے۔“
”یہ ان کی کمر تختہ ہوجانے کا نتیجہ تھا؟“
”ظاہر ہے حساب کتاب تو فرداً فرداً ہونا تھا، لیکن اس موقع پر مجرموں کے سامنے ان کا انجام بالکل نمایاں کردیا گیا۔ وہ اس طرح کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا۔ جس کے بعد میدان حشر کے بائیں حصے کا ماحول انتہائی خوفناک ہوگیا۔ جہنم گویا جوش کے مارے ابلی جارہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجرموں کو دیکھ کر شدت غضب سے پھٹی جارہی ہو۔ اس کے دھاڑنے کی آوازیں دور دور تک سنی جارہی تھیں اور اس کے شعلے بے قابو ہوکر باہر نکلے جارہے تھے۔ یہ شعلے اتنے بڑے تھے کہ ان سے اٹھنے والی چنگاریاں بڑے بڑے محلات جتنی وسیع و عریض تھیں۔ ان کے بلند ہونے سے آسمان پر گویا زرد اونٹوں کے رقص کا سماں بندھ گیا تھا۔ نہ پوچھو کہ یہ سب کچھ دیکھ کر لوگوں کی حالت کیا ہوگئی۔ انہیں محسوس ہورہا تھا کہ اس سے قبل حشر کی جو سختیاں تھیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔“
”حساب کتاب کیسے شروع ہوا؟“
”سب سے پہلے حضرت آدم کو پکارا گیا جو پوری انسانیت کے باپ اور پہلے نبی تھے۔“
انہوں نے عرض کیا:
”لبیک و سعدیک۔ میں حاضر ہوں اور تیری خدمت میں مستعد ہوں اور سب بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں۔“
”اپنی اولاد میں سے اہل جہنم کو الگ کرلو۔“، حکم ہوا۔
”کتنوں کو الگ کروں؟“، انھوں نے دریافت کیا فرمایا گیا۔
”ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔“
”تم اندازہ نہیں کرسکتے عبد اللہ ! یہ سن کر حشر کے میدان میں کیا کہرام مچ گیا تھا۔“
”لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جہنم کا فیصلہ کیوں ہوا؟“، میں نے دریافت کیا۔
”یہ فیصلہ نہیں اس بات کا اظہار تھا کہ میدان حشر میں جو لوگ موجود ہیں، ان میں ہزار میں سے ایک ہی اس قابل ہے کہ جنت میں جاسکے۔”میں نے پہلے تمھیں بتایا تھا کہ چار قسم کے لوگ ہیں جن کی نجات کا فیصلہ موت کے وقت ہی ہوجاتا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔“
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
”ان میں سے انبیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جن کا اصل کارنامہ عام لوگوں پر دینِ حق کی شہادت دینا اور توحید و آخرت کی طرف لوگوں کو بلانا ہے۔ آج قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کے افراد اپنی اس شہادت کی روداد اللہ کے حضور پیش کریں گے جو انہوں نے دنیا میں لوگوں پر دی تھی۔ اس طرح لوگوں کے پاس یہ عذر نہیں رہ جائے گا کہ حق اور سچائی انہیں معلوم نہیں ہوسکی۔ کیونکہ یہ انبیا اور شہدا سچائی کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے تھے۔
چنانچہ اس شہادت کی بنیاد پر لوگوں کا احتساب ہوگا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ یہ فیصلے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ سارے انسان نمٹ جائیںگے اور آخر میں تمھارے جیسے سارے شہدا کو بلاکر ان کی کامیابی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر کہیں جاکر لوگوں کو جنت اور جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ فوراً جنت یا جہنم میں نہیں جائیں گے۔“
”نہیں فوراً نہیں جائیں گے۔ بلکہ ایک ایک شخص کا حساب کتاب ہوتا جائے گا۔ اگر وہ کامیاب ہے تو سیدھے ہاتھ کی طرف عزت و آسائش میں اور ناکام ہے تو الٹے ہاتھ کی طرف ذلت اور عذاب میں کھڑا کردیا جائے گا۔ جب سب لوگوں کا حساب کتاب ہوجائے گا تو پھر لوگ گروہ در گروہ جنت اور جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔“
”اور سب سے پہلے؟“
”سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کا دروازہ کھلوائیں گے اور پھر اہل جنت زبردست استقبال اور سلام و خیر مقدم کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔“
”اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟“
”اس وقت حضور حوضِ کوثر کے پاس ہیں۔ آپ کی امت میں سے جس کسی کا حساب کتاب ہوجاتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے تو اسے پہلے حضور کے پاس لایا جاتا ہے جہاں جامِ کوثر سے اس کی تواضع ہوتی ہے۔ جس کے بعد وہ نہ صرف حشر کی ساری سختی اور پیاس بھول جاتا ہے بلکہ آئندہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہوتا۔ ویسے تمھیں جام کوثر یاد ہوگا؟“
”کیوں نہیں؟“، میں نے جواب دیا۔ صالح کی باتیں سن کر میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا اشیاق پیدا ہوگیا۔ میں نے صالح سے کہا:
”کیوں نہ ہم پہلے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجائیں۔“
ابھی میری زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ ایک صدا بلند ہوئی:
”امتِ محمدیہ کے کامیاب لوگوں کا حساب مکمل ہوگیا ہے۔ اب امت عیسوی کا حساب شروع ہورہا ہے۔ عیسیٰ ابن مریم، مسیح علیہ السلام، اللہ کے رسول اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔“
ہم ایک دفعہ پھر میدان حشر میں آچکے تھے۔ مگر اس دفعہ ہم عرش الٰہی کے دائیں طرف کھڑے تھے۔ عرش الٰہی کی تجلیات سے زمین و آسمان منور تھے۔ کامیاب لوگوں کے لیے یہ تجلیات مسرت و شادمانی کا پیام تھیں جبکہ مجرموں پر یہ قہر بن کر نازل ہورہی تھیں۔ عرش الٰہی کے چاروں طرف فرشتے ہاتھ باندھے حلقہ در حلقہ کھڑے تھے۔ سب سے پہلے حاملین عرش تھے اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دیگر فرشتے۔ ان فرشتوں کی زبان پر حمد، تسبیح اور تکبیر و ثنا کے کلمات تھے۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوچکے تھے۔ جبکہ اول سے آخر تک سارے عیسائیوں کو میدان حشر میں موجود فرشتوں نے دھکیل کر عرش کے قریب کردیا تھا۔ ارشاد ہوا:
”عیسی ابن مریم قریب آو¿۔“
فرشتوں نے سیدنا عیسیٰ کے لیے راستہ چھوڑ دیا اور وہ چلتے ہوئے عرش الٰہی کے بالکل قریب آکھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ارشاد ہوا:
”عیسیٰ تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچادیا تھا؟ تمھیں کیا جواب ملا؟“
”مالک مجھے کچھ علم نہیں۔ غیب کا علم تو صرف تجھے ہے۔“
ان کی یہ بات اس حقیقت کا بیان تھی کہ حضرت عیسیٰ معلوم نہ تھا کہ ان کی امت نے ان کے بعد دنیا میں کیا کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے اس جواب پر میدان حشر میں ایک خاموشی چھاگئی۔ کچھ لمحے بعد آسمان پر ایک دھماکہ ہوا۔ تمام نظریں آسمان کی طرف بلند ہوگئیں۔ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اس فلم میںعیسائی حضرت عیسی اور حضرت مریم کے مجسموں کے سامنے سر ٹیک رہے تھے۔ بازاروں میں صلیب پکڑے لوگ جلوس نکال رہے تھے۔گرجوں میں مسیح و مریم کی پرستش ہوہی تھی۔ مسیح کو مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگی جارہی تھی۔ان کی تعریف کے نغمے گائے جارہے تھے۔پادری تقریروں میںانھیں خدا کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے۔
میں یہ مناظر دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا کہ عیسائیوں نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شرک کو جنم دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ کو توحید ہی کی دعوت دے کر بھیجا تھا۔ 
 حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھنے کے بعد ہم دونوں نے حوض کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ میں نے راستے میں صالح سے پوچھا:
”حضرت عیسیٰ نے جو سفارشی کلمات کہے تھے یعنی اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے، کیا ان الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوا؟“
”تم نے جواب میں اللہ تعالیٰ کی بات نہیں سنی تھی کہ آج سچوں کو ان کی سچائی ہی نفع پہنچائے گی۔“
”ہاں سنی، مگر اس سے تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کی سفارش قبول نہیں ہوئی۔“
”نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون واضح کردیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ پیغمبر کی لائی ہوئی تعلیم کو سچ تسلیم کرنا اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرنا کامیابی اور نجات کی بنیادی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ جس کسی نے یہ بنیادی شرط پوری کردی، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اب درگزر کا معاملہ کریں گے۔ یعنی جو غلطیاں ایسے لوگوں سے ہوتی رہیں اور انھوں نے ان پر توبہ اور اصلاح نہیں کی، ان پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے گرفت نہیں کررہے۔
ہر نبی اپنی امت کی اسی طرح دبے لفظوں میں سفارش کررہا ہے اور کرے گا۔ مگر اس کے نتیجے میں سردست صرف اتنی ہی رعایت مل رہی ہے۔ اس وقت کوتاہیاں معاف ہورہی ہیں، جرائم نہیں۔ اور یہ کوتاہیاں جنھیں معمولی سمجھ کر توبہ نہیں کی گئی تھی بہرحال اسی طرح کی خواری کا سبب بنی ہیں جو تمھاری بیٹی لیلیٰ کو اٹھانی پڑی تھی۔ باقی جن لوگوں نے ہمہ وقت ایمان و عمل صالح اور توبہ اور اصلاح کا مستقل رویہ اختیار کیے رکھا وہ تو اول وقت ہی سے عافیت میں ہیں اور جن لوگوں نے مستقل نافرمانی اور بڑے گناہوں کی راہ اختیار کی وہ اس وقت بدترین سختی کا شکار ہیں۔“
یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک ایسی جگہ آگئے جہاں فرشتے لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک رہے تھے۔ صالح میرا ہاتھ تھامے ان کے قریب چلا گیا۔ اسے دیکھتے ہی فرشتوں نے راستہ چھوڑدیا۔ ہم ذرا دور چلے تو ایک جھیل سی نظر آنے لگی۔ اسے دیکھتے ہی صالح بولا:
”یہی حوض کوثر ہے۔“
میں نے کہا:
”مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں۔“
”وہ آگے کی طرف ہیں۔ ہم دوسری سمت سے داخل ہوئے ہیں۔ میں تمھیں اس کا تفصیلی مشاہدہ کرانا چاہ رہا تھا اسی لیے یہاں سے لایا ہوں۔“
صالح کی بات پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ عام معنوں میں کوئی حوض نہیں ہے۔ میں نے قدرے تعجب کے ساتھ صالح سے کہا:
”یار یہ تو جھیل بلکہ شاید سمندر جتنا بڑا ہے جس کا دوسرا کنارہ مجھے نظر ہی نہیں آتا۔“
”ہاں یہ ایسا ہی ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے کتنے سارے لوگ اس کے کنارے کھڑے پانی پی رہے ہیں۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا حوض ہو تو فوراً ہی خالی ہوجائے گا۔“
اس نے ٹھیک کہا تھا۔ یہاں ہر جگہ بہت سارے لوگ موجود تھے۔
ویسے پچھلی دنیا میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے مجھے اندازہ تھا کہ یہ عام سا حوض نہیں ہوگا بلکہ کوئی سمندر ہوگا۔ بلکہ حضور کے ارشادات سے مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پچھلی دنیا میں عر ب ور افریقہ کو جدا کرنے والا بحیر احمر  بہتا تھا۔ میں نے اپنے اس اندازے کا اظہار صالح سے کیا تو وہ بولا:
”بڑی حد تک یہ اندازہ ٹھیک ہے۔ زمین پھیل کر گرچہ بہت بڑی ہوچکی ہے، مگر یہ کم و بیش وہی جگہ ہے۔“
”اس کا مطلب ہے کہ میدان حشر سرزمین عرب میں برپا ہورہا ہے؟“
”ہاں تمھارے اندازے ٹھیک ہیں۔“ ہم ایک ایسی جگہ داخل ہوئے جہاں کا حسن شاید الفاظ کی گرفت میں نہیں آسکتا تھا۔ جھیل کا برف کی مانند سفید اور بے آمیز پانی زمین کے فرش پر چاندنی کی طرح بچھا ہوا تھا۔ جھیل کی سطح پرسکون اور ہموار تھی اور اس کے دیکھنے سے ہی نگاہوں کو عجب طرح کی تسکین مل رہی تھی۔ جھیل کے کنارے ایسے چمک دار موتیوں کے بنے ہوئے تھے جو اندر سے خالی تھے۔ کنارے کے پاس انتہائی دبیز اور ملائم قالین بچھے ہوئے تھے جن پر چلتے ہوئے تلووں کو ناقابل بیان راحت مل رہی تھی۔ ان پر شاہانہ اور آرام دہ نشستیں موجود تھیں۔ شیشے سے زیادہ شفاف میزوں پر سونے اور چاندی کے گلاس ستاروں کی مانند جگمگا رہے تھے۔ جھیل سے ایسی مہک اٹھ رہی تھی جس سے مشام جان معطر ہوکر رہ گئے۔
میں نے ایک نشست سنبھالتے ہوئے صالح سے پوچھا:
”یہ اتنی اچھی خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟“
”حوض کی تہہ میں جو مٹی ہے وہ دنیا کی کسی بھی خوشبو سے زیادہ معطر ہے۔ اسی کا یہ اثر ہے۔“
صالح نے جھیل سے ایک گلاس بھرا اور میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا:
”مزے کرو۔“
میں نے ایک گھونٹ لیا۔ دنیا میں میں نے اس کی صرف تشبیہات سنی تھیں، دودھ، شہد وغیرہ۔ مگر یہ ان سب سے کہیں زیادہ بہتر مشروب تھا
ختم نہ ہونے والی کامیابی، ماند نہ پڑنے والی خوشی، کم نہ ہونے والی لذتیں، فنا نہ ہونے والی زندگی اور واپس نہ لی جانے والی آسائشیں آج ان کے قدموں میں تھیں۔ کتنی کم محنت کرکے کتنا زیادہ صلہ ان لوگوں نے پالیا تھا۔ اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ان کے قہقہوں کی آوازیں دور دور تک سنی جارہی تھیں۔ ان کے چہروں کی مسکراہٹیں ہر طرف بہار بن کر چھارہی تھیں۔
انہیں دیکھ کر مجھے اپنے بیوی بچوں کا خیال آیا۔
صالح نے میرا خیال میرے چہرے پر پڑھ لیا۔ وہ بولا:
”آو چلو لگے ہاتھوں تمھیں تمھارے گھر والوں سے بھی ملوادیتے ہیں۔ انھیں بھی یہیں بلوالیا گیا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ خبریں