یوم سیاہ

وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر اسمبلی میں اور صدر عارف علوی نے اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں یوم آزادی پر خطابات میں مودی کے ”کڑاکے“ نکال دئیے۔کہا گیا۔” مودی! اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ بھارت نے جنگ مسلط کی تو اثرات دنیا دیکھے گی“۔ اُدھر آرمی چیف جنرل باجوہ نے ”محاذِ گرم“ ایل او سی پر مورچہ بند سپوتوںسے بات کرتے ہوئے دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دینے کا اعلان کیا۔ سیاسی و عسکری قیادت کا اس طرح ایک پیج پر ہونا قوم کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ جن تین اعلیٰ عہدیداروں کا ذکر کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی بڑھک نہیں ماری۔ بڑی شائستگی سے دشمن کو باور کرایا ”ہم امن چاہتے ہیں مگر کوئی حرکت کی تو اینٹ کا جواب پتھر ہوگا۔“ ایل او سی پر ایسا جواب دیا بھی جا رہا ہے۔ ماضی میں بھارت کی اینٹ کا جواب پھولوں سے بھی دیا جاتا رہا ہے۔ کئی’ نصیبوں جلے‘ تو کلبھوشن پر پھول نچھاور کرنے اور اسے ہار پہنا کر مودی کے حضور پیش کرنے کی حسرت رکھتے تھے۔ ازلی و ابدی دشمن کے ساتھ دوستی کی حسرت ناتمام کئی دلوں میں ابھی موجود ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کے سیاہ بادلوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کے باوجود بھی پاکستان کے اندر مودی بیانیہ کی آبیاری ہو رہی ہے۔ ایسے بیانیے والوں کا منہ کالا ہونا ہی مقدر ہے۔
دشمن جس حد تک چلا گیا اس پر سخت پیغام قوم یگانگت یکجہتی اور اٹوٹ اتحاد کے ساتھ ہی د ے سکتی ہے۔ بلاشبہ وہ پیغام یوم آزادی پر کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا بے پایاں اظہار کرتے ہوئے دیا گیاہے۔ پاکستان میںآزاد کشمیر کے پرچموں کی بہار پہلی بار دیکھی گئی۔ اگلے روز بھارت کے یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منانا تھا ”قوم“ 14 اگست کو صبح سے رات گئے تک باجے بجاتے، بغیر بانسری کے گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلاتے، نعرے لگاتے، ہلہ گلہ کرتے اس قدر تھک گئی تھی کہ 15 اگست کی صبح حالت ”نہ چھیڑ ملنگاں نوں“ جیسی تھی۔ ہمیں نہ جگایا جائے، قریب ہارن بھی نہ بجایا جائے“ بہرحال جب انگڑائی لے کر جاگی تو پچھلے پہر جلسے جلوسوں اور ریلیوں کی بلند آہنگ آوازوں سے بھارت کے در و دیوار ہلا دئیے۔
سانحہ اے پی ایس قوم کے حافظے سے کبھی محو نہیں ہو سکتا۔ یہ المیہ جس میں دہشتگردوں نے 135 بچوں سمیت ڈیڑھ سو افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف 124 روز سے جاری دھرنا اٹھالیا تھا۔ اُس موقع پر بھی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہوا تھا جس میں کسی پارٹی کی طرف سے سیاست اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی گئی تھی۔ سانحہ ا ے پی سی زیادہ بھیانک تھا یا مودی کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اقدام زیادہ المناک ہے؟ اس کے تقابل کی ضرورت نہیں، اِس موقع پر بھی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا ۔ پورے اجلاس میں سنجیدگی نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی البتہ اعلامیہ پر اتفاق اور اس کا متن کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی اور دشمن کو سخت پیغام لئے ہوئے تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے آغازِ کارہی میں بدمزگی ہو گئی۔ اپوزیشن نے’ پھٹے چُک‘ دئیے، اجلاس چلنے نہ دیا۔ کہا گیاوزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو بلاﺅ وہ آئیں گے تو ”رادھا ناچے گی۔“ چار گھنٹے بعد اجلاس پھر شروع ہوا اب وزیر اعظم موجود تھے۔اپوزیشن کی” نو من تیل“ کی شرط پوری ہو گئی تھی۔ وزیر اعظم کو سپیکر نے دعوت خطاب دی تو اپوزیشن کی ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ وزیر اعظم یہ کہہ کر بیٹھ گئے ، اس ماحول میں خطاب سے دنیا میں اچھا پیغام نہیں جائیگا۔ اس پر اپوزیشن لیڈر نے اپنے ارکان سے کہا ، آپ خاموشی سے ان کی بات سنیں جس کا مدلل جواب دیا جائیگا۔ وزیراعظم کی تقریر کے” مدلل جواب“ کے لیے آپ تشریف نہیں لائے تھے۔ بھارت کے بہیمانہ اقدام پر اتفاق و اتحاد کے اظہار کے لیے آئے تھے ۔ وزیر اعظم کی تقریر کے بعد جو تماشہ لگا اس سے جگ ہنسائی کے سوا کیا نکل سکتا تھا۔ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے پر گرجتی رہی، برستی رہی ۔ اصل اِشو پر بات کم سیاست اور انتقامی سیاست کی زیادہ ہوئی۔ ’عظیم دانشور‘ کے اولیٰ مقام پر تازہ تازہ فائز ہونے والے سابق صدر زرداری نے فرمایا ، مہاجروں کو وہاں سے دھکے دے کر نکالا گیا ہم نے پناہ دی، ان کا روئے سخن شاید عمران خان کی طرف تھا مگر اس بیان کی تکلیف ہر پاکستانی نے محسوس کی۔ اس اجلاس میں نوبت گالم گلوچ تک بھی پہنچی۔
شہباز شریف نے مشترکہ اجلاس میں اور گزشتہ روز یوم آزادی کے روز کہا، مودی کے ہاتھ توڑ ڈالیں گے“ اچھا جذبہ ہے،قومی کاز کی خاطر کل کے مہمان اورپگڑی بدل بھائی کے ہاتھ توڑنے کامگر نواز شریف نے ایک بار کہا تھا شہباز شریف کی باتوں کو سنجیدہ نہ لیا کریں۔
پارلیمان کے اجلاس کے دوران اور اس کے بعد بھی اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت بات کشمیر سے شروع کرتی اور اپنے لیڈروں کی گرفتاریوں پرچیخ و پکار پہ ختم کرتی ہے بلکہ گرفتاریوں کی بات کرتے ہو جذبات میں جو تلاطم آتا ہے ایسا ولولہ کشمیریوں کی بات کرتے مفقود ہوتا ہے۔ بلاول نے کشمیریوں کی حمایت میں بیان بازی کی سیریز میں اپنے والد کو عید کی نماز ادا نہ کرنے دینے کا گلا اور پھوپھو محترمہ تالپور کو ہسپتال سے جیل منتقل کرنے کا واویلا کیا۔ نوجوان سیاستدان جسے قوم کا مسیحا بننے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے خود بھی ایسے کئی کیسز کا سامنا ہے جن میں محترم زرداری اور محترمہ فریال جیل میں ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان کی درخواست پر آج یو این سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا ہے اس پر اسلم خان صاحب نے پیغام دیا ہے ک”سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام فوری ریفرنڈم یا استصواب رائے کا مطالبہ کر نا چاہئے بصورت دیگر کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کھلی جنگ کا اعلان کرنا ہو گا صرف اسی طریقے سے اقوام عالم اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اس سنگین اور حساس مسلے پر سنجیدہ طرزعمل اپنانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔