ٹائم ٹریول ، ایک اور خوفناک تجربہ

2018 ,اگست 12



لاہور(فضل حسین اعوان ):امریکی سمندر میں بحری جہاز کو جائب کرنے کا تجربہ کیا گیا، مگر سائنسدان جہاز واپس لانے میں ناکام رہے جو چند لمحے بعد خوبخود واپس تو آگیا مگر اس پر سوار لوگ بھسم ہو چکے تھے 
آئنسٹائن اس تجربے کی آڑ میں مستقبل میں جانے کیلئے ٹائم ٹریولر مشین بنا رہا تھا، عین اس وقت ہٹلر بھی اس منصوبے پر عمل پیرا تھا 
ماضی میں جھانکنا ممکن ، مستقبل میں جانا ممکن نظر نہیں آتا، تاہم مستقبل میں بغیر کسی مشین کے جھانکنا ممکن ہے
ٹائم ٹریول مشین کے ذریعے ماضی اور مستقبل میں جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سردست کسی بھی انسان کا جسمانی طور پر ماضی اور مستقبل میں جانا ممکن نظر نہیں آتا مگر ماض اور مستقبل میں جھانکا ضرور جا سکتا ہے۔ ماضی تو گزرا ہوا سکرپٹ ہے۔ ہم خواب میں بھی ماضی میں چلے جاتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خوابیدگی کی کیفیت میں ماضی میں جھانکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اسے من وعن سکرین پرمنتقل کیا جا سکے۔ بہت سے لوگ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے خواب دیکھتے ہیں جو کبھی 100 فیصد درست بھی ثابت ہوتے ہیں۔ گویا مستقبل کا بھی قدرت کے ہاں سکرپٹ تیار ہے جس میں انسان کی خوداختیاری کے تحت یا نگاہ مرد مومن سے کچھ تبدیلی ہو سکتی ہے۔ بغیر کسی مشین کے روحانی قوت کے ذریعے مستقبل میں جھانکا جا سکتا ہے۔ مستقبل کو دیکھنے اور پڑھنے والی ہستیاں یقیناً موجود ہیں مگر وہ خودنمائی نہیں کرتیں۔ سال 2000ءکی بات ہے جب جان تھیٹر نامی شخص نے انٹرنیٹ پر عجیب و غریب بیان دیا ، جس میں خود کو ٹائم ٹریولر بتایا اور کہا کہ وہ 2036ء سے آیا ہے جان تھیٹر کے اس حیرت انگیز بیان نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتے رہتے ہیں کہ کیا انسان اپنے ماضی یا مستقبل میں جا پائے گا؟ 
ٹائم مشین کی حقیقت کیا ہے ؟ ٹائم مشین پر ماضی میں کئے جانے والے تجربات کس حد تک کامیاب رہے؟ آج ٹائم ٹریول یا وقت کا سفر؟ ماضی میں ٹائم ٹریول پر تجربات اور جان تھیٹر کی پیشن گوئیوں کے بارے میں بات ہوگی۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں 1943ءمیں ہونے والے ٹائم ٹریول مشین کے ایک تجربے کی، 28 اکتوبر 1943ءکا دن تھا دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی ہٹلر کی جنگی کشتیوں نے اتحادی فوجوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا اس وقت ہٹلر کی بحری قوت کو توڑنے کیلئے مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹائن کے ساتھ فلاڈلفیا میں خوفناک تجربہ کیا گیا جس کا مقصد پوری جنگی بحری جہاز کو نظروں سے اوجھل کر دینا تھا۔ اس پروجیکٹ کو دنیا سے خفیہ رکھنے کیلئے یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ البرٹ آئینسٹائن نیوی کیلئے تارپیڈو بم اور انڈر واٹر بارودی سرنگیں بنانے کیلئے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں کچھ اور چل رہا تھا۔ فلاڈلفیا میں یہ تجربہ جس جنگی بحری جہاز کیا جانا تھا وہ

USS.L.Rich

تھا۔ 
یہ ایک عام دن تھا بحری جہاز کے فوجیوں اور افسروں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ ایک خوفناک سانئسی تجربے کا شکار ہونے والے ہیں۔ سانئس دانوں کی ایک ٹیم دور کچھ فاصلے پر دوربین لیے جہاز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ تجربے کا آغاز ہوتا ہے۔ جہاز چاروں طرف سے بڑی بڑی الیکٹرک مشینوں کے ذریعے مخصوص فریکونسی پر طاقتورمقناتیسی لہریں پھینکی جا تی ہیں ۔روشنی کا ایک جھماکا نمودارہوا اور جہاز غائب ہوجاتا ہے۔ تجربے سے منسلک تمام سائنس دان اچھل پڑتے ہیں لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی کیونکہ جہاز غائب تو کر دیا لیکن جہاز کو واپس لانے کیلئے جو سانئسی اقدامات ترتیب دیئے تھے انہوں نے کام کرنا چھوڑدیا تاہم دس منٹ بعد جہاز خودبخود ظاہر ہوجاتاہے لیکن جہاز پر موجود انسانوں کی حالات انتہائی قابل رحم تھی۔ آدھے سے زیادہ لوگ جل چکے تھے۔ چند لوگ ایسے بھی تھے جو جہاز کے یارڈ میں زندہ دفن ہوگئے ، جو بچ گئے وہ پاگل ہو چکے تھے۔ اس پروجیکٹ کو فوری طور پر ٹاپ سیکرٹ قرار دے کر بند کر دیا گیا اوراس تمام تر ریکاڈ کوجلا دیا گیا جس سے یہ پتہ چل سکتا کہ بحری جہاز

USS.L.Rich

کبھی یہاں آیا تھا اور اس پر کوئی تجربہ کیا گیاتھا۔ اس سانئسی تجربے کے دوران ہلاک ہونے والے لوگوں کے لواحقین سے کہا گیا کہ جہاز جنگ کے دوران تباہ ہوگیا اور اس میں موجود تمام لوگ ہلاک ہوگئے اور یہ راز ہمیشہ راز رہتا اگر برسوں بعد آبیعک نامی سانئس دان جو اس تجربے سے منسلک تھا اپنی زبان نہ کھولتا جس کا کہنا تھا:ہمارا مقصد صرف جہاز کو نظروں سے اوجھل کر نا نہیں تھا بلکہ البرٹ آئینسٹائن طاقتور مقناتیسی لہروں کے ذریعے ٹا ئم مشین بنانے کا تجربہ کر رہا تھا اس تجربے کا دوسرا عینی شاہد

Carlos

تھا جو اس ڈیک پر ملازم تھا جہاں یہ تجربہ ہونا تھا اگر چہ امریکہ میں آج تک اس واقعہ پر کوئی تحقیقی کمشن قائم نہیں ہوسکا کہ

USS.L.Rich

اور اس کے عملے کو بنا بتائے غیر انسانی سانئسی تجربے کا شکار کیوں بنایا گیا۔ جس وقت امریکہ میں آئنسٹائن بحریبیڑہ غائب کرنے کے تجربے کی آڑ میں ٹائم ٹریولر مشین بنا رہا تھا عین اس وقت جرمنی میں ہٹلر کی ہدایت پر ماضی اور مستقبل میں جانے کی ڈائی گلاک نام کی مشین بنائی گئی۔ ڈائی گلاک کیلئے کسی خفیہ مقام پر زیر زمین بہت بڑی ٹنل بنائی گئی تھی۔
جس میں ہٹلر کے سانئس دان دن رات کام کرتے تھے کہا جاتا ہے کہ یہ مشین ابھی تکمیل کے مراحل میں تھی کہ اتحادی فوجوں نے جرمنی کا محاصرہ کر لیا ہٹلر کو شکست ہوئی لیکن بھر پور تلاش کے باوجود ہٹلر کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ اس کی لاش ملتی ہے جس خفیہ مقام پر ڈائی گلاک کو بنایا جارہا تھا وہ مقام تلاش کر لیا جاتا ہے مگر ڈائی گلاک غائب ہوتی ہے اور وہاں ٹوٹی ہوئی مشینوں اور سائنسدانوں کی گلی سڑی لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دسمبر 1965 میں امریکہ میں افسانوی اور ڈرامائی صورتحال سامنے آئی۔ آسمان سے آگ میں لپٹی ایک مشین گرتی ہے عینی شاہد جو اس مشین کا حلیہ بتاتے ہیں وہ بالکل ڈائی گلاک سے ملتا جلتا ہے ان کے مطابق اس میں سے ایک جلی ہوئی لاش بھی نکلی تھی۔ واقعہ کے کچھ دیر بعد سی ۔آئی۔ اے نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور مشین کے تمام ٹکڑے اور لاش کو ٹرک میں ڈال کر لے گئے۔ 
حیرت انگیز طور پر اس واقعہ کوٹاپ سیکرٹ قرار دے کر اس کی کوئی تفصیل منظرے عام پر نہیں آنے دی گئی لیکن کڑیوں سے کڑی ملانے والے ماہرین کا کہنا ہے دراصل ڈائی گلاک ہی تھی جس کے ذریعے ہٹلر نے مستقبل میں سفر کر نے کی کوشش کی تھی لیکن وارم ہول کے اندر برقی لہروں کی شدت نے اس کو جلا کر خاک کردیا اور وہ اپنی مشین کے ساتھ تباہ ہوگیا۔
 اب بات کرتے ہیں جان تھیٹرکی جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 2036 ءسے آیا تھا لوگوں ان کی بات کو اس لئے سنجیدہ لیا کہ ماضی میں ٹائم ٹریولر پر تجربات ہوچکے تھے اور انہوں نے اپنی ٹائم مشین کی چند تصویریں انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی تھیں۔ انہوں نے ماضی میں آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا 2036 ءمیں تمام کمپیوٹرز نے کام کرنا بند کر دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ 2036 ءسے 1975 ءمیں گیا تھا تاکہ مشہور کمپیوٹر بنانے والی کمپنی آئی۔ بی۔ایم  نے 1975ءمیں 5100 نامی ایک کمپیوٹر بنایا تھا اس میں ایک خامی ہے اگر اس کو ٹھیک کیا جا سکے تو دوبارہ کمپیوٹر چالو ہوجائیں گے وہ اس کمپیوٹر کو لینے آئے تھے کچھ عرصے بعد جان تھیٹر غائب ہوگیا ۔انہوں نے چند پیشنگوئیاں بھی کی جن میں کچھ درست اور کچھ غلط ثابت ہوئی مثلا یہ کہ پیرو میں ایک خطرناک طوفان آنے والا ہے جس میں کئی لوگ مارے جائیںگئے۔ کچھ عرصہ بعد اس کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی لیکن اس کے برعکس جب انہوں نے ایک اور پیشنگوئی کی کہ 2004 میں ہونے والے اولمپکس آخری اولمپکس گیم ہونگے لیکن یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی کیونکہ اس کے بعد بھی اولمپکس گیم باقاعدہ ہوتے رہے۔جو کچھ جان تھیٹر سے پیشگوئیوں کے نام سے بتایا اسے پیش گوئیاں نہیں کہا جا سکتا۔ وہ تو مستقبل سے ماضی میں آیا تھا۔ اس کے سامنے تو ماضی کھلا پڑا تھا۔ اے 2036ءتک کے اہم واقعات بتا دینے چاہئیں تھے جو رونما ہو چکے تھے۔ ٹرمپ کا انتخاب 2016ءکو ہوا۔ 2036ء سے 20 سال قبل۔ جان تھیٹر کے لئے یہ معلومات میں سے تھا مگر ہمارے لئے یہ انکشاف اور پیشگوئی ہوتی۔ اس سے جان تھیٹر کی اپنی صداقت مشکوک ٹھہرتی ہے۔
 اگر ہم انٹرنیٹ پر ٹائم مشین کے حوالے سے سرچ کریں تو ہمیں کئی واقعات مل جائیںگے لیکن ابھی تک اس طرح کی کوئی بھی ٹائم مشین کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔کیا ٹائم مشین بناناممکن ہے؟ انسانی ذہن آج بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر تا کہ ایسا ممکن ہوگا لیکن ہم اگر سائنسی ایجادات کی بات کریں تو سائنس نے ایسی بہت سی ایجادات کی ہیں جن کو انسان نہ ممکن سمجھتا تھا زیادہ دور نہیں صرف ایک یا دو صدی پہلے کی بات اگر کی جائے تو انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ رات کو بھی پورا کا پورا شہر جگمگتا رہے گا۔ شدید گرمی میںبرف یا ٹھنڈی ہوا میسر ہوگی۔ ہوا میں سفر کرنا صرف فرضی کہانیوں میں ہی ملتا تھا اس کے علاوہ دوردراز کے کسی بھی ملک میں بیٹھے کسی بھی شخص سے باتیں کرنا اور اس کو دیکھنا ٹیلی وژن کیمرہ وغیرہ اور بیشمار ایجادات انسان کو نا ممکن ہی دکھائی دیتی تھیں لیکن آج یہ ایجادات ہمارے سامنے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی مستقبل میں کسی مشین کے ذریعے چلے جانے کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔

متعلقہ خبریں