نمل جھیل۔ میانوالی

2018 ,مارچ 30



راولپنڈی میانوالی روڈ پر میانوالی شہر سے تقریباً 30کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑیوں کے دامن میں ایک نہایت ہی خوبصورت جھیل ہے جسے نمل جھیل کہتے ہیں یہ جھیل فرنگی عہد میں 1913ءمیں بنائی گئی۔ جھیل سے پہلے بھی یہاں کی زمین بے حد زرخیز اور سر سبز تھی۔ لوگ یہاں پر کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ اس وقت اس علاقہ میں کنووں کی تعداد لگ بھگ سو کے قریب تھی۔ یہ علاقہ جو وادی نمل کے نام سے جانا جاتا ہے کئی صدیوں سے آباد چلا آرہا ہے اس حقیقت کا پتہ جھیل کے کنارے واقع قدیم قبرستان سے بھی ملتا ہے اس سلسلے میں ایک دلچسپ روایت بھی مشہور ہے فرنگی عہد سے قبل جب پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی اس علاقے کا فرمانرا راجہ سر کپ ہوا کرتا تھا جو اپنے وقت کا عیاش اور سخت گیر حاکم تھا کہا جاتا ہے کہ ان پہاڑیوں پر اس نے اپنی ایک محل نما حویلی بنا رکھی تھی جس میں وہ جوا کھیلا کرتا تھا۔ اس کی یہ شرط تھی کہ جو کوئی اسے شکست دے گا وہ اسے اس علاقے کا حکمران بنا دے گا لیکن جو اس سے بازی ہار جائے گا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔چنانچہ اس نے اس دوران سینکڑوں لوگوں کے سر قلم کیے بالآخر سیالکوٹ کے راجہ نے یہ معرکہ سر کر لیا۔ اس نے راجہ سر کپ کو ہرا کر بازی جیت لی۔ اور اس کے نتیجے میں راجہ سر کپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اس سے کر دی اور یوں وہ اس تمام علاقے کا مالک و خودمختار ٹھہرا۔


نمل جھیل 1200ایکڑ پر مشتمل وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اس کی گہرائی تقریباً 20بیس فٹ ہے پہاڑوں سے آبی چشموں اور برساتی نالہ کے ذریعے آنے والا پانی جب یہاں پہنچتا ہے تو نمل کے کشادہ بازو اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں جھیل کا یہ پانی میانوالی شہر اور اس سے ملحقہ دیہات کو سیراب کرتا ہے اس مقصد کے لیے پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا سا ڈیم تعمیر کیا گیا ہے جب جھیل کا پانی ڈیم کے آہنی درازوں میں سے ہوتا ہوا دوسری طرف نالے میں آبشار کی صورت میں گرتا ہے تو اس سے خوفناک آواز پیدا ہوتی ہے۔ کنارے پر اللہ کے ایک برگزیدہ بندے حضرت حافظ جی کا مزار ہے 7-6شعبان کو حافظ جی کا عرس ہوتا ہے سالانہ عرس کے علاوہ ماہ محرم کی ساتویں اور آٹھویں تاریخوں کو بھی دور دراز سے لوگ جوق در جوق یہاں آتے ہیں اور اس مزار پر حاضری دیتے ہیں اس موقع پر یہاں میلے کا سا سماں ہوتا ہے عقیدت مندوں کی غیر معمولی تعداد کے پیش نظر یہاں پر عارضی دکانیں بن جاتی ہیں مزار سے ملحقہ ایک مسجد بھی ہے جس میں آج بھی قال اللہ اور قال الرسول کی صدائے دلنشین سنائی دیتی ہے 1984ءسے مزار کا انتظام محکمہ اوقاف نے سنبھال رکھا ہے۔
مزار حافظ کے قریب ایک ریسٹ ہاوس بھی بنایا گیا ہے جو دو کمروں لان اور خوبصورت صحن پر مشتمل ہے یہاں سے جھیل کا منظر آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔


مزار کی جانب آبادی خانقاہ حافظ جی کے نام سے موسوم ہے جبکہ دوسری طرف کی آبادی نمل گاوں کے نام سے موسوم ہے یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے اس جھیل کو عبور کرتے ہیں۔ کشتیوں کے علاوہ ان لوگوں کے لیے کوئی ذریعہ آمدروفت نہیں ہے۔
نمل جھیل میں ایک فش فارم بھی بنایا گیا ہے جس کا باقاعدہ ٹھیکہ دیا جاتا ہے اس کا انتظام ضلع کونسل میانوالی کے سپرد ہے یہاں مچھلیوں کا قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے لوگ یہاں پر مچھلیاں پکڑتے ہیں۔


مچھلی کے علاوہ جھیل میں مرغابیوں کا شکار بھی ہوتا ہے سابق صدر فلیڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم، سابق گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان مرحوم اور دیگر اعلیٰ شخصیات یہاں شکار کرنے اور تفریح کی غرض سے آتی رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میانوالی، خوشاب، تلہ کنگ، چکوال اور دیگر ملحقہ شہروں کے لیے یہ جھیل ایک خوبصورت او ر بے مثال تفریحی مقام کا درجہ رکھتی ہے ہر جمعہ کو یہاں پر لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پکنک منانے اور ان قدرتی اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ متذکرہ بارانی علاقوں، خشک اور بے مزہ ماحول میں رہنے والوں کے لیے نمل جھیل سے بہتر کوئی تفریحی مقام نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جھیل کے انتظام و انصرام سے متعلقہ محکمہ کے ارباب بست کشاد اسے مزید خوبصورت حسین او ر دلکش بنانے کے لیے خصوصی توجہ دیں تاکہ یہاں آنے والے لوگوں کو کسی تکلیف، الجھن اور پریشانی وغیرہ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بھر پور طریقے سے ان مناظر سے لطف اندوز ہوں۔

متعلقہ خبریں