یادش بخیر: نوازشریف ماضی مستقبل

زندگی میں جہاں خوش قسمتی میاں نوازشریف کا سواگت کرتے ہوئے اعلیٰ ترین منصب پر لے جاتی وہیں بدقسمتی تعاقب کر کے پستی میں گرائی اور جیل پہنچاتی نظر آتی ہے۔ وہ تین بار خداداد مملکت پاکستان کے وزیراعظم بنے آج دس سال کے لئے جیل میں ہیں۔ وہ تینوں بار منتخب ہو کر پاکستان کے وزیراعظم بنے اور ایک بار بھی مدت پوری نہ کر سکے۔ ان کو جب بھی اقتدار سے الگ کیا گیا ہر بار یہی تاثر سامنے آیا کہ ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے مگر اگلی مرتبہ ان کی سیاست پر گرفت مزید مضبوط پائی گئی۔ بادی النظر میں عمران نے جو وعدے کئے وہ پورے ہو گئے تو نوازشریف کی سیاست منصہ شہود سے غائب ہو سکتی ہے۔ عمران خان بھی روائتی وزیراعظم رہے تو جن قوتوں کو پچھاڑ کر وہ آگے بڑھے ہیں وہ ان کو لتاڑ کر آگے نکل جائیں گی۔ کچھ لوگوں کو میاں نوازشریف کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ یہ تو بظاہر نظر آنے والی بات ہے۔ اللہ کے حضور جو فیصلے ہوتے ہیں وہ وہی ذات جانتی ہے۔ ناممکن نہیں کہ نوازشریف پھر وزیراعظم بنیں۔ ان کی خواہش امیر المومنین بننے کی تھی۔ خدا چاہے تو کوئی طاقت اس خواہش کے بر آنے کو روک نہیں سکتی۔ مستقبل کے حوالے سے یہ سب تصوراتی اور خواباتی باتیں ہیں مگر ماضی اٹل حقیقت ہے۔
میاں نوازشریف آج جس جگہ پہنچے ہوئے ہیں، بظاہر اس کی وجوہات اور اسباب کیا ہیں میرے سامنے میاں نوازشریف کے انٹرویو کی صورت میں تحریر ہے۔ یہ تحریر میاں نوازشریف کے ساتھ محبت اور نفرت کرنے والوں کے مؤقف کی بیک وقت تائید کرتی ہے۔ پندرہ سو سالہ قبل کی گفتگو آج کے حالات پر منطق نظر آتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
پاکستان میں خفیہ ایجنسیاں بہت منہ زور ہو چکی ہیں صدر اور وزیراعظم کو بتائے بغیر کام کئے جاتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی یہ تصور نہیں ہے کہ خفیہ ایجنسیاں حکومت کی اجازت کے بغیر کام کریں کیونکہ آپ دنیا میں یا ملک کے اندر جو بھی کارروائی کریں اس کی ذمہ داری توحکومت پر آتی ہے اور اسے ہی دنیا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں غلط کام تو خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں اور جواب دہی حکومت کی ہوتی ہے۔ جسے ان معاملات کا علم ہی نہیں ہوتا۔
اپنے دوسرے دو رحکومت میں سہ ملکی کانفرنس کے حوالے سے ڈھاکہ گیا۔ وہاں بھارتی وزیراعظم اندر کمال گجرال سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پاکستان کے لئے نیک جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ میں ذاتی طور پر پاکستان سے اچھے تعلقات کا حامی ہوں، لیکن آپ کی آئی ایس آئی بھارت میں بدامنی پھیلاتی ے اور یہ سب کچھ پاکستان کی سیاسی حکومت کی مرضی کے بغیر ہوتا ہے، جب کہ بھارت میں ایجنسیاں ایسا نہیں کر سکتیں۔ میں نے بھارتی وزیراعظم کو کہا کہ :”آئی ایس آئی کو ہر بات کا ذمہ دار ٹھہرانا فیشن بن چکا ہے۔ وہیں ڈھاکہ میں میری ملاقات بیگم حسینہ واجد سے ہوئی انہوں شدید گلہ کیا کہ : ”بنگلہ دیش میں ان کے سیاسی مخالفوں کو پاکستانی آئی ایس آئی فنڈ دیتی اور بنگلہ دیش میں بڑ گڑ کروانے میں بھی آئی ایس آئی کا حصہ ہے۔“ ڈھاکہ میں میری تیسری ملاقات بنگلہ دیش کے سابق صدر جنرل حسین محمد ارشاد سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے حامی ہیں انہیں پاکستانی فوج سے بھی محبت ہے لیکن آئی ایس آئی نے ان کے 18 حامی اراکین کو خالدہ ضیاء کے ساتھ شامل کروا دیا ہے اور ان کے پاس اس کے دستاویزی ثبوت بھی ہیں“ کیا کسی خفیہ ایجنسی کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں اس طرح کی مداخلت کرکے ان ملکوں کو پاکستان کے خلاف کرتی رہے۔ حسینہ واجد کو اچھی طرح علم ہے کہ آئی ایس آئی انکے خلاف کیا کردار ادا کرتی ہے۔ اس لئے وہ جب بھی حکومت میں آتی ہیں وہ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں۔
مختلف فوجی حکومت کے برسراقتدار رہنے کی وجہ سے آئی ایس آئی کا رول بہت بڑھ چکا ہے، اب یہ ایجنسی سول حکومت کے ماتحت کام نہیں کرتی۔ آئی ایس آئی نے پورے ملک کے سیاسی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ فوج کا چیف آف آرمی سٹاف عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے آپ کو بادشاہ یا سپر پرائم منسٹر سمجھنے لگتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس قدر طاقت ور سمجھتے ہیں کہ عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کو سیلوٹ مارنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ میں جنرل آصف نواز کے دور میں جی ایچ کیو کے دورے پر گیا تو اس نے اپنی کیپ اندر ہی اتار دی تاکہ سیلوٹ نہ مارنا پڑے۔ البتہ وحید کاکڑ کے دور میں جب میں جی ایچ کیو گیا تو انہوں نے مجھے سیلوٹ مارا جی ایچ کیو کی کئی بریفنگز میں فوج کے چیف آف آرمی سٹاف یا دوسرے جرنیل اپنی کیپ اندر رکھ آتے ہیں تاکہ انہیں وزیراعظم کو سیلوٹ نہ کرنا پڑے۔ یہ بھارتی وزیراعظم کو سیلوٹ کرنے میں بالکل نہیں ہچکچاتے لیکن پاکستانی وزیراعظم کو سیلوٹ کرنا تک انہیں گوارا نہیں ہوتا۔
پاکستان میں آئی ایس آئی سیاست کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ اس نے اپنا اصلی کام بھلا کر سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور بنانے کا کام اپنا لیا ہے۔ سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے میں بھی آئی ایس آئی ہی اہم کردار ادا کرتی ہے الیکشن میں دھاندلی یا اراکین اسمبلی کو بلیک میل کرنا یہ سارے کام آئی ایس آئی ہی کر رہی ہے جب تک آئی ایس آئی کا رول ختم نہیں ہوگا ملک کا سیاسی نظام مستحکم نہیں ہو سکتا۔ آئی ایس آئی کا اصل کام سیاست نہیں ملکی دفاع میں مدد کرنا ہے۔
آئی ایس آئی کے چارٹر میں تبدیلی کی ضرورت ہے میرے خیال میں آئی ایس آئی میں کوئی بھی باوردی فوجی افسر نہیں ہونا چاہئے۔ آئی ایس آئی کو مکمل طور پر سول حکومت کے ماتحت ہونا چاہئے۔ بھارت کی جو اس طرح کی خفیہ ایجنسی ہے اس میں کوئی بھی حاضر سروس فوجی یا باوردی افسر نہیں ہوتا۔
جب میں وزیراعظم تھا یہ 1997ءکی بات ہے تو میری گفتگو ٹیپ ہوتی تھی۔ مجھے اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ آئی ایس آئی نے ہماری گفتگو کو ریکارڈ کیا ہے۔ پھر اس کی باقاعدہ ہم نے انکوائری کروائی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاءالدین کو میں نے یہ بات کہی۔ پھر انہوں نے لاہور میں چیک کیا تو واقعہ سچ نکلا۔ لاہور میں بریگیڈیئر اعجاز شاہ صاحب ریکارڈنگ کروانے میں شامل تھے۔
جنرل مشرف کو آرمی چیف بنانا۔ میری غلطی تھی۔ مجھے اس وقت سینئر موسٹ جنرل علی قلی خان کو چیف آف آرمی سٹاف بنانا چاہئے تھا۔ اس وقت مجھے غلط ایڈوائس دی گئی۔ مجھے کہا گیا کہ یہ فلاں کی سائیڈ پر ہے اور یہ فلاں کا رشتہ دار ہے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ سیکرٹری دفاع افتخار علی خان اور ان کے بھائی چودھری نثار علی خان کی علی قلی خان سے کوئی ذاتی پر خاش تھی۔ انہوں نے ان کا تقرر روک کر اپنی ذاتی پرخاش کا بدلہ اتارا۔ اس معاملہ میں نے یہ سبق سیکھا کہ ہمیشہ سینئر موسٹ کو حق ملنا چاہئے ماسوائے کہ اس میں کوئی بڑی خامی ہو۔ جنرل علی قلی خان میں ایسی خامی بھی نہیں تھی۔“ ہر فوجی ، آئین پاکستان کا حلف لیتا ہے اس لازمی طور پر اس حلف کی پابندی کرنی چاہئے۔ میرے خیال میں فوج کے حلف میں تبدیلی کی جانی چاہئے کہ فوج کو ان کا کمانڈر یا چیف آف آرمی سٹاف، وزیراعظم ہاﺅس یا دوسری عمارتوں پر قبضہ کرنے کا حکم دے تو وہ اس حکم کو غیر آئینی اور اپنے حلف کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیں۔