تقسیم ہند کے نتیجہ میں پاکستان میں جو عظیم تعمیرات ہوئی ہیں ان میں اسلام آباد کا شہر، شاہراہ قراقرم، شاہین و غوری میزائل کا کامیاب تجربہ اور تربیلا ڈیم کو نمایاں اہمیت حاصل ہے تربیلا ڈیم، نہ صرف پاکستان کے تمام ڈیموں میں بلکہ مٹی کی بھرائی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے اور عالمگیر شہرت کا مالک ہے جس کو دنیا کے ممتاز ترین آبی انجینئروں، ممتاز سربراہان مملکت مشاہیر عالم اور مالیات کے ماہروں اور سیاحوں نے ہزاروں کی تعداد میں دیکھا اور جس کی تعمیر کے فنی کمالات کا جائزہ لے کر پاکستانی قوم کی تخلیقی صلاحیت اور کامیاب منصوبہ بندی کی تعریف کی ہے تربیلا ڈیم کی جھیل جو بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن سے نکل کر پانی کے آبشاروں میں قوس قزح بننے والے مناظر اور بند کی دیواروں کی پرشکوہ بلندی او رمسحور کن دیوار جو ایسا نظارہ پیش کرتی ہے جو جنت نگاہ نظارہ پیش کرتی ہے۔ پرسکون نیلے پانی کی جھیل جو 32میل طویل ہے سمندر کا شہزادہ معلوم ہوتی ہے اور سیاحوں کو اتنے دلکش نظارے پیش کرتی ہے جو روح کو سکون اور قلب کوسرور پہنچاتے ہیں۔
تربیلا کالونی کی خوبصورت بلند ہوتی ہوئی سڑک سے گذر کر جو چھوٹے سے پہاڑ کے دامن کے ساتھ چلتی ہوئی ڈیم کی جگہ پر پہنچتی ہے اور یکایک ڈیم کا پورا نظارہ اس طرح سامنے آجاتا ہے جیسے بند آنکھوں کے کھلنے پر رات کے سناٹے میں نیلا آسمان نظر آجائے۔ پاکستان کی سیاحت تربیلا ڈیم کا نظارہ کئے بغیر ہرگز مکمل نہیں ہوسکتی۔ فنی اعتبار سے یہ ڈیم پاکستان کے کھیتوں میں پانی کی فراہمی اور اس ڈیم کے بجلی گھروں سے وافر مقدر میں بجلی فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جب تقسیم ہند کے نتیجے میں ہند اور پاکستان میں پانی کی تقسیم کا تنازعہ پیدا ہو ا تو 19ستمبر 1960ءکو ایک معاہدہ ہو اسی کے تحت پاکستان کو دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے پانی سے دست کش ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندھ جہلم اور چناب کے پانی سے ہندوستان کا حق آبپاشی ختم ہوگیا اس کو ”سندھ طاس“ کا منصوبہ کہتے ہیں جو پاکستان کے وسیع زرعی علاقے کو محروم شدہ دریاوں کے پانی کا بدل فراہم کر سکے جس میں سے ایک منگلا ڈیم ہے جو جہلم کے پانی کو یکجا کرنے کے لیے بنا دیا گیا ہے پاکستان کا کل زیر آب زرعی رقبہ 198ملین ایکڑ ہے۔جس میں سے ایک سو تیس ملین ایکڑ کو پانی فراہم کرنے کے لیے منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنائے گئے ہیں اتنے عظیم منصوبے کے تعمیر ی اخراجات عالمی بنک کی جزوی امداد سے اور پاکستان کے اپنے وسائل سے مکمل کیے گئے ہیں تربیلا ڈیم اس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں دریائے سندھ 700میل پہاڑی سفر طے کرنے کے بعد تربیلا کے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے دریائے سندھ تقریباً دو ہزار میل لمبا اور دنیا کے بڑے دریاوں میں شامل ہے
اسی لیے پاکستان میں اس کو ”اباسین“ یعنی دریاوں کا باپ کہتے ہیں سندھ میں اسے ”مہران“ کہتے ہیں اس کے معنی مہر و وفا پھیلانے والا ہے اور اس کا نام انگریزی میں قدیم تہذیبوں کے حوالے سے انڈس کہا جاتا ہے جس سے انڈیا کا لفظ بنا ہے یہ دریا دنیا کی دس بڑی چوٹیوں میں سے سات میں سے گذرتا ہے اور دنیا کے سات بڑے برفانی تودوں کو عبور کرتا ہے اور ان سب کا پانی سمیٹ لاتا ہے یہ تین لاکھ 72ہزار مربع رقبہ کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے جب اس کی تعمیر کے منصوبہ کا آغاز ہوا تو اس ڈیم کے رقبہ پر آباد ایک لاکھ انسانوں کو اپنے گاوں اور مکانات چھوڑ کر نقل مکانی کرنی پڑی جس کا ان کو معاوضہ دیا گیا تربیلا ڈیم کی تعمیر کا کام دنیا کی مشہور انجینئرنگ کمپنیوں پاکستان، فرانس، اٹلی، جرمنی اور سوئس کمپنیوں کے اشتراک سے انجام پایا۔ 1953ءسے 1976ءتک دن رات 20ہزار کارکنوں نے کام کرکے اپنے خون پسینے کی محنت سے یہ منصوبہ مکمل کیا۔ اس کی تعمیر میں 143افراد جاں بحق ہوئے جن میں 6غیر ملکی ماہرین بھی شامل ہیںان کی قربانی ہمیشہ کے لیے تربیلا ڈیم کے فیضان میں شامل ہوگئی ہے دنیا کی ایسی تمام دیو ہیکل مشینیں جو بند سازی اور آبی بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے ضروری تھیں وہ سب فراہم کی گئیں دریا کا رخ موڑنے کا عمل مشکل ترین کام تھا جو بالاخر انجام پا گیا تربیلا ڈیم دو ہزار 700چالیس میٹر رقبے پر انتہائی پر شکوہ انداز میں بنایا گیا ہے اس کی اونچائی 148میٹر ہے جبکہ مینار پاکستان کی اونچائی 63میٹر ہے اس بند پر 105ملین کیوبک میٹریل استعمال ہوا ہے۔ تربیلا ڈیم کا مرکزی بند 9ہزار فٹ لمبا ہے اور دریا کی تہہ سے 485فٹ اونچا ہے اس بند کی تعمیر میں انجینئرنگ کی جو جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ یہ ڈیم اپنے اندر 3ہزار آلات لیئے ہوئے ہے جو پانی کی مقدار اور ذخیرہ آب کا وزن بتاتے ہیں اور حرکت ارضی کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 17سکیل کی قوت کا زلزلہ بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ ڈیم کے آلات اس کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ا سپل ویز کی تعمیر پر چالیس ملین کیوبک میٹر کھدائی کی گئی اور آٹھ لاکھ کیوبک میٹر کنکریٹ اور 3600ملین ٹن لوہا 16دروازوں پر خرچ ہوا دریا کے کنارے کے دائیں طرف بڑی بڑی چار سرنگیں بھی کھودی گئیں ہر سرنگ کی لمبائی نصف میل اور چوڑائی 43فٹ ہے سرنگ نمبر 1اور نمبر 2پاور ہاوس کو پانی فراہم کرتی ہے۔
سرنگ نمبر 3اور 4آب پاشی او ربجلی کے لیے ہیںجو چٹانیں کاٹ کر بنائی گئی ہیں یہ سرنگیں بہت بڑی ہیں ان کا ڈایا میٹر 11سے 14میٹر تک ہے تقریباً ایک لاکھ دس ہزار ٹن فولاد ان سرنگوں میں استعمال کیا گیا ہے ایک اعشاریہ تین ملین کیوبک میٹر کنکریٹ استعمال میں لائی گئی ہے اور 8لاکھ 40ہزار کیوبک میٹر چٹانوں میں کھدائی کی گئی ہے پاور ہاو¿س کے پہلے مرحلے میں 175میگاواٹ کی 4ٹربائینیں کام کر رہی ہیںجو کل 700میگاواٹ بجلی فراہم کرتی ہیں دوسری سرنگ کو بھی بجلی گھر سے ملا دیا گیا ہے اس پر بھی اب 4ٹربائین گیارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے دو مزید ٹربائینیں بھی 1985سے یہاں اپنا کام کر رہی ہیں اس طرح ایک ہزار نو سو چوبیس میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کا انتظام ہے جو پاکستان کی بجلی کی گھر یلو اور صنعتی ضروریات کا نصف سے زائد حصہ پورا کر رہی ہے سروس سپل وے کے سات دروازے ہیں جن کا طول 85اور عرض 50ہے ان سے 392فٹ کی بلندی سے 6لاکھ 50ہزار کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش ہے یہ منصوبہ ہمیں 168ملین ایکڑ پانی فراہم کرتا ہے اس ڈیم میں گیارہ اعشاریہ تین ملین پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جس میں فی الحال 4ء9 ملین ایکڑ فٹ ہر سال آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہو رہا ہے دریا کا پیندا دو سو ملین کیوبک یارڈ ہے جو عظیم دیوار چین جتنا ہے بجلی اور پانی کی فراہمی کا اتنا بڑا بند دنیا کی تاریخ میں بے مثال ہے۔
تربیلا ڈیم اسلام آباد سے پچاس میل کے فاصلے پر پشاور جانے والی سڑک پر لارنس پور سے ایک الگ سڑک کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ تربیلا ڈیم شاہراہ قراقرم کی طرح پاکستان کا دوسرا بڑا عجوبہ ہے جو پاکستان کی زرعی اور صنعتی ترقیوں کا سب سے بڑا سرچشمہ ثابت ہوچکا ہے اور جس پر پاکستان جتنا فخر کرے کم ہے۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو تیز رفتاری ترقی پر گامزن کرنے والے یہ بند سدا قائم رہیں ایک سیاح کی نظر سے ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کی عظمت کے علمبردار اس بند کی مادی خوبیوں اور حسن قدرت کے اس حسین نظارے کو اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھے۔ تربیلا ڈیم پر کل اخراجات کا اندازہ پندرہ ارب روپے ہے جس میں ایک لاکھ افراد کی نقل مکانی کا معاوضہ بھی شامل ہے۔
تربیلا ڈیم سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی آب پاشی زراعت کے لیے لیا جاسکتا ہے ایک اندازے کے مطابق گندم کی فصل کو کم و بیش جتنا پانی چاہیے اس سے تربیلا ڈیم سے فراہم کردہ پانی سے دو کروڑ ایکڑ گند م اگائی جاسکتی ہے اور اگر یہی پانی ٹیوب ویل کے ذریعے فراہم کیا جائے تو اخراجات کا اوسط 200روپے فی ایکڑ ہوتا ہے اس طرح تربیلا ڈیم ہر سال دو راب روپے کا پانی فراہم کر رہا ہے پانی کے علاوہ اس ڈیم کے بجلی گھروں سے 600بلین یونٹ بجلی حاصل کی جاتی ہے جو 50پیسے فی یونٹ کے حساب سے 150کروڑ روپے سالانہ قیمت کی بنتی ہے اس طرح پانی اور بجلی کی فراہمی سے تربیلا ڈیم اب تک اپنی کل قیمت حاصل کر چکا ہے اور اگر اس بند کی عمر 75سا ل قرار دی جائے تو آئندہ وصول ہونے والی بے شمار دولت مفت ہی حاصل ہوگی۔
اس وقت ہم بجلی کی مجموعی ضرورت سے کم بجلی پیدا کر رہے ہیں اس کی کمی دور کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو تربیلا ڈیم کے خارج شدہ پانی کو اپنے یہاں جمع کرے گا اور ایک ہزار 6سو میگاواٹ بجلی پیدا کر سکے گا۔