کھیتی‘ تجارت‘ نوکری

جنید جمشید مرحوم کہتے ہیں، انہوں نے گانے موسیقی کواس یقین کیساتھ خیر باد کہاکہ اللہ پہلے سے بہتر بندوبست کرےگا۔مگر نوبت یہاں تک آگئی کہ گھر میں صرف ایک سو روپیہ ہی بچا تھا جو بیگم کے حوالے کرکے گھر سے نکلے،اسی روز گارمنٹس کا کاروبار کرنےوالے دوست سے ملاقات ہوئی جس نے پارٹنر شپ کی تجویز دی ۔کاروبار پچاس لاکھ میں ہونا تھا۔ جنید کے گھر میں پڑا سرمایہ سو روپیہ بھی خرچ ہوچکا تھا۔اب پچیس لاکھ کی ضرورت تھی،بہر حال کچھ مال واسباب بیچا، دوستوں سے ادھار پکڑا،بزنس شروع ہوگیا۔دھڑا دھڑسٹِچنگ کرائی گودام بھرگیا،قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ر مضان کا مہینہ تھاجس میں نئے برانڈ اور جنید جمشید کے بڑے نام کے تیارکردہ کپڑے ہاتھوں ہاتھ بکنے کی امید تھی۔پتہ چلا، سائز چھوٹا کٹ گیا۔ پارٹنرز نے ماتھا پکڑ لیا،پچاس لاکھ دریا بُرد۔۔مگر اوپر والے کے اپنے فیصلے ہیں۔ایک دوست بنگلہ دیش سے آئی پارٹی کو لے کر آیا،انکی ڈیمانڈ ارجنٹ اور سٹینڈرڈ سے چھوٹے سائز کی ضرورت تھی،انکے پاس تو مال تیار تھا،مناسب منافع پر فروخت کردیا جوسیل ایک ماہ میں ہونی تھی وہ تین دن میں ہوگئی۔
بزنس کے اگلے مرحلے کے آغاز سے قبل دونوں مولانا تقی عثمانی کے پاس دعائے خیر کےلئے گئے، انہوں نے کاروبار کے حوالے سے جو نصیحت کی اس میں ایک ”جو کاروبار کریں وہ لوگوں کے فائدے کیلئے بھی ہو“ تھی۔اسے حرزِ جاں بنایا، مناسب منافع رکھا،نیت نیک تھی‘ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا نہ کرنے کا قرآن کو گواہ بناکر عہد کیا تھا۔ اللہ تعالی کاروبار میں برکت ڈالتا گیا۔یہ اپنے گارمنٹس لےکر پشاور گئے وہاں بڑے سٹورز کے شو رومز میں رکھنا چاہتے تھے مگر کسی نے لفٹ نہ کرائی۔ پریشان حال بازار میںہاتھوں میں بیگ لئے کھڑے تھے۔ ایک نوجوان نے پوچھا، آپ جنید جمشید ہیں، ہاں کہنے پر وہ نوجوان ان کو اپنے والد کے پاس لے گیا۔بڑے خان صاحب جنید کے فین تھے۔ پوچھا، گانا چھوڑ دیا، ہاں کہنے پر خان صاحب نے پوچھا کیا کرتے ہو؟ یہ پشاور صدر بڑا کاروباری بازار تھا۔ جنید نے اپنی بپتا سنائی اور کچھ شہر کے لوگوں کے بے اعتنائی کا گلا کیا۔ خان صاحب نے کہا، یہ سامنے والی ملٹی سٹوری بلڈنگ اڑھائی لاکھ کرائے پر تھی، اب خالی ہے بتاو¿ اس کا کیا دیتے ہو؟ جنید باصرار خان صاحب سے ہی کرایا بتانے کہ کہا۔ بالآخر خان صاحب نے کہا 65000 دیتے ہو تو جنید نے 50000 کی بات کی۔ خان نے کہا ٹھیک ہے۔ کراچی کے مہمان بزنس مینوں وہاں پہ اپنا سامان لگا دیا۔ وہ بہترین پوائنٹ پر دکان تھی۔ زبردست طریقے سے چلی۔ پانچ سال بعد خان صاحب کا فون آیا: کیا آپ کو یاد ہے میں نے دکان کن حالات میں دی تھی۔ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ جنید کے الحمد للہ کہنے پراس نے کہا ۔ اب میں اپنی مرضی کا کرایہ لونگا۔ تین لاکھ روپے۔ جنید جمشید کہتے ہیں تین لاکھ ہمارے لئے زیادہ نہیں تھا۔تجارت میں اللہ تعالی نے بہت برکت رکھی ہے۔ ایمانداری سے کاروبار کیا جائے تو اللہ تعالی معاملات کو چار چاند لگا دیتا ہے۔دیانت ہی کو بقا ہے۔جو لوگ پہیے لگا کے کاروبار کرتے ہیں وہ وقتی طور پر تو کامیاب شاید ہو جائیں دائمی طور پر اقبال بلند نہیں رہتا۔
یہ بھی سنا ہے: اُ±تم کھیتی ،مدھم (مدھر) بان ،نکھد چاکری، بھیک ندان: سب سے اونچا پیشہ کاشتکاری ۔ تجارت درمیانہ درجے کا پیشہ ہے۔ نوکری سب سے گھٹیا اور بھیک مانگنا بدترین ہے
آجکل جب کھیتی باڑی کی طرف دیکھتے ہیں تو نہایت افسوس ہوتا ہے، کاشتکار جو محنت کرتے ہیں اس کا انہیں صلہ نہیںملتا۔آجکل سبزیوں کے ریٹ بہت زیادہ گرے ہوئے ہیں۔ تمام سبزیوں کے نرخ بیس سے تیس روپے کے درمیان ہیں۔ ذرا اندازہ کریں۔ کاشتکار کو کیا بچت ہوتی ہوگی ۔ کبھی یہ کہا جاتا تھا نکھد نوکری جو ہے کاشتکاری اور تجارت سے لگا نہیں کھاتی۔ نوکری کو ناپسندیدہ کیا جاتا تھا مگر یہ محاورہ بھی ان محاوروں میں شامل ہو گیا جنکی پہلے جیسی حقیقت نہیں رہی۔ پاکستان میں دیکھ لیں پڑھے لکھے نوجوان اگر ایسے شعبوں میں چلے جائیں جن کا سکوپ ہے تو وہ تو ابتدا میں لاکھوں پاتے ہیں۔ اب تو حکومت میں نوکروں کی شاہی ہے۔ایک دوست بتا رہے تھے: ان کا عزیز زراعت میں گولڈ میڈلسٹ تھا۔ اس نے اور اسکے والد نے نوکری کی بڑی کوشش کی لیکن سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں کہیں اس کو اسکی ڈگری کے مطابق نوکری نہ مل سکی تو یہ لوگ اسکے پاس آئے۔یہ دوست کہتے ہیں۔” میں نے نوجوان سے اسکا رجحان پوچھا“۔ اس نے کہا کہ میں نے ہوٹل میں کام کرنا ہے۔ وہ اسے فائیو سٹار ہوٹل کے منیجر کے پاس لے گئے۔ کوالیفکیشن کےمطابق اسکے پاس نوکری نہیں تھی۔ نوجوان نے کہا اس نے واپس نہیں جانا بیشک ویٹر رکھیں یا صفائی کےلئے رکھیں۔ اسے ویٹر رکھ لیا گیا، چونکہ وہ پڑھا لکھا تھا چار مہینے میں ویٹروں کا سپروائزر بنا دیا گیا۔ ایک سال بعد وہ اسی ہوٹل میں اسسٹنٹ منیجر بن گیا۔اگلے سال دبئی کے کسی ہوٹل میں چار لاکھ روپے پہ وہاں چلا گیا۔ آجکل انگلینڈ کے کسی ہوٹل میں آٹھ لاکھ پر کام کررہا ہے۔ پاکستان میں وسائل کی قطعاً کمی نہیں ہے۔ انکا درست استعمال ہو تو یقیناً لوگوں کو زندگی بہتر بنانے کیلئے دوسرے ممالک نہ جانا پڑے۔ وزیراعظم عمران خان کا میاں نوازشریف کو سات سال قید 5 ارب روپے جرمانہ کی سزا اور آصف زرداری کے کھربوں روپے کے جعلی اکاﺅنٹس کی تفصیلات سامنے آنے پر بیان تھا: ”نواز زرداری بے نقاب ہوگئے‘ ان کا دفاع کرنیوالے شرم کریں۔“ پاناما جعلی اکاﺅنٹس سے پتہ چل گیا ریاست کیوں ناکام ہوتی ہے۔