شریعت اور طریقت دین کے دو رُخ ہیں

ارکان اسلام اور عقائد ، شریعت سے متعلق ہیں جو دین کا ظاہری پہلو ہے اور احسان (مشاہدۂ حق یا مراقبۂ حضوری ) کا تعلق طریقت اور تصوف سے ہے جو دین کا باطنی پہلو ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے غیر، ضرور ہیں لیکن ایک دوسرے کی ضد(متضاد) ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سمجھ لینا کہ شریعت اور ہے طریقت اور بالکل جہالت ہے۔ دین کے دو رُخ ہیں ، ایک شریعت ہے اور دوسرا طریقت ۔ حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت اور طریقت کی بڑی عمدہ وضاحت فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں :
’’بعض جہلاء جوکہہ دیتے ہیں کہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے ۔ محض ان کی کم فہمی ہے۔ طریقت ، بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں۔ صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے ۔ آئینہ زنگ آلود ہو تو پیشاب سے بھی صاف ہوجاتا ہے اور گلاب سے بھی صاف ہوجاتا ہے ، لیکن فرق نجاست اور طہارت کا ہے۔ ولی اﷲ کو پہچاننے کے لئے اتباع سنت کسوٹی ہے ، جو متبع سنت ہے اور اﷲ کا دوست ہے اور اگر متبدع ہے تو محض بے ہودہ ہے ۔ خرق عادت تو دجال سے بھی ہوں گے ‘‘۔
شریعت و طریقت کے تعلق سے شیخ ابوطالب مکیؒ فرماتے ہیں : ’’یہ دونوں علوم ( شریعت و طریقت ) بنیادی علوم ہیں جو ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ۔ اسلام اور ایمان کی طرح ۔ ایک دوسرے سے مربوط ہیں قلب اور جسم کی طرح کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں‘‘ ۔
شیخ الاسلام زکریا انصاریؒ فرماتے ہیں : ’’شریعت ، حقیقت کا ظاہر ہے اور حقیقت ، شریعت کا باطن ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ‘‘۔
اور امام مالکؒ فقہی انداز میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’جس نے فقہ ( شریعت ) حاصل کی اور تصوف ( طریقت) حاصل نہ کیا اس نے فسق کیا۔ اور جس نے تصوف حاصل کیا اور فقہ حاصل نہ کی وہ زندیق ہوا اور جس نے یہ دونوں علوم حاصل کئے ، اُس نے حقیقت کو پالیا‘‘۔
علامہ شامی فرماتے ہیں : ’’شریعت اور طریقت دونوں لازم و ملزوم ہیں‘‘ ۔
امام ابوالقاسم قشیریؒ فرماتے ہیں : ’’ہر شریعت جس کی تائید حقیقت نہ کرے وہ ناقابل قبول ہے اور ہر حقیقت جو قید شریعت سے آزادہو، وہ لاحاصل ( بیکار) ہے ‘‘۔
اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ہر وہ طریقت جس کو شریعت مسترد کردے ۔ زندقہ و الحاد ہے ‘‘۔
یہ طریقت و تصوف کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ اس کی تعلیم رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک مسلسل چلی آرہی ہے اور ہم تک متواتر ہی پہنچی ہے ۔ اس کی حیثیت حدیث متواترہ کی ہے اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ حدیث متواتر وہ ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں راویوں نے اس کو روایت کیا ہو کہ عقل سلیم اور عادت انسانی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ ہو کہ اتنے زیادہ لوگوں نے غلط بیانی کی ہوگی ۔ دوسری صدی ہجری سے لے کر کسی انقطاع کے بغیر ہر دور میں اور ہر ملک میں بکثرت اﷲ کے مخلص بندوں نے علم تصوف نہ صرف خود حاصل کیا ہے بلکہ دوسروں تک اس کو پہنچایا ہے ، خود فائدہ اُٹھایا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچایا ہے ۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’آداب طریقت و سلوک کو ہمارا سیکھنا رسول اکرم ﷺ تک صحیح سند اور متصل فیض کے ساتھ جڑا ہوا ہے ‘‘۔
اور شیخ زروقؒ فرماتے ہیں : ’’تصوف کی نسبت دین کے ساتھ ایسی ہے جیسے روح کی نسبت جسم کے ساتھ‘‘۔
علمائے کرام، صوفیائے عظام ، سلفِ صالحین اور بزرگان دین کے یہ سارے ارشادات میں نے اس لئے نقل کردیئے ہیں تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے اور تصوف کے برحق ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے ۔ کیوں کہ زمانہ بڑا پُرآشوب ہے اور اصلاح اُمت کے نام سے دین کی مرمت ہورہی ہے اور تصوف کی ایک ایک بات کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بہرحال ہمارا عقیدہ اور مسلک وہی ہے جو سیدالطائفہ حضرت جنید بغدادیؒ کا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ایں راہ کسے یابدکہ کتاب بردست راست گرفتہ باشد و سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بردست چپ و در روشنائی ایں دوشمع می رودتانہ درمغاک شبہت افتد نہ در ظلمت بدعت…
یہ راہ تو صرف وہی پاسکتا ہے جس کے سیدھے ہاتھ میں قرآن ہو اور بائیں ہاتھ میں سنت اور وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شبہات کے گڑھے میں گرے اور نہ ہی بدعت کی تاریکی میں بھٹکے ‘‘ ۔