آج سے کئی سال پہلے کمسن پپو نامی مقتول کے ساتھ کیا ہوا تھا؟؟ جانئے اس خبر میں

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک مشہور واقعہ رونما ہوا جسے دنیا آج بھی پپو قتل کیس کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پپو وہ معصوم بچہ تھا جسے چند درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر تیسرے چوتھے روزبچوں کا اغوا اور جنسی تشدد دیہی علاقوں میں رپورٹ ہوا کرتا تھا۔ مگر شہری علاقے میں پپو کیس اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خصوصی عدالت نے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنائی اور ضیا الحق نے انکی سرعام پھانسی کا حکم دیا۔ چنانچہ کیمپ جیل لاہور کے اندر انہیں انتہائی اونچی کرین کے ساتھ تقریباً دو لاکھ افراد کے سامنے لٹکا دیا گیا۔ اب اس واقعے کا تذکرہ ہم نے صرف اس لیے کیا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو معلوم ہو سکے کہ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے بعد تقریباً 300روز تک اس نوعیت کا واقعہ نہ تو رونما ہوا اور نہ ہی رپورٹ۔ اب اگر ان درندوں کو بھی انکاؤنٹر یعنی ’’پلس مقابلہ‘‘ میں پار کر دیا گیا تو یہ بھیڑیے تو کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے مگر وہ لاتعداد پاگل کتے جو گلی محلے کی نکڑ پر کھڑے آتے جاتے معصوم بچوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ انھیں عبرت بھلا کیسے ہو گی؟ حضور یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دیں، خود مدعی بنیں اور فوری طور پر ایک اونچی کرین کا بندوبست کریں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔مجھے یہ بھی یاد آیا کہ فیروزپور روڈ لاہور پر کیمپ جیل کے سامنے کمسن پپو نامی مقتول کے تین قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی اس واقعہ کی بہت شہرت ہوئی۔ تاہم بعض لوگوں بالخصوص ہیومن رائٹس کے علمبرداروں نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا۔ ضیاء الحق مرحوم ایک مجلس میں گفتگو کر رہے تھے کہ کسی نے یہ اعتراض اٹھایا۔ ضیاء الحق نے موقع پر موجود لوگوں سے کہا کہ آپ کا خیال کیا ہے کیا یہ زیادتی ہے میں بھی اس گفتگو میں شامل تھاچنانچہ میں نے کہا ہر گز نہیں کیونکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے اور عدالتی عمل سے گزرنے کے بعد سزا ہوئی تھی صرف سرعام پھانسی دینے پر اعتراض ہو رہا ہے لیکن میری رائے ہے کہ لوگوں کو اس واقعے سے عبرت دلانے کیلئے یہ اچھا قدم تھا کیونکہ معصوم بچے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے مجرموں کو سب کے سامنے کیفرکردار تک پہنچانے پر کسی صاحب اولاد کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ضیاء الحق مرحوم کو بولنے کا بہت شوق تھا لیکن میری مختصر بات سن کر انہوں نے کہا یہی میرا جواب ہے۔